پنکج چترویدی
سرکار میں بیٹھے لوگ یہ سمجھ گئے ہیں کہ بھلے ہی خواندگی کی شرح میں اضافے کے اعداد و شمار حوصلہ افزا ہوں لیکن خواندگی کے بنیادی مقاصد بیداری اور الفاظ کا استعمال اپنی روزمرہ کی زندگی میںکرنے کی صلاحیت اس وقت تک فروغ نہیں پاسکتی جب تک بچے رنگ، اعداد، حروف اور انسانی ہمدردی کومحسوس نہیں کرنے لگتے۔یہ سچ ہے کہ ہماری تعلیم کی بنیاد اسکول اور وہاں پر ہونے والے امتحانات ہیں۔ ایسے میں یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ حکومت نے دور دراز علاقوں تک غیر نصابی کتابوں کا ایک بہت بڑا خزانہ پہنچایا ہے۔ زیادہ تر جگہوں پر بچوں کو وہ کتابیں پڑھنے کو مل رہی ہیں جن کے لطف میں امتحان یا سوالات رکاوٹ نہیں بنتے۔ قومی تعلیمی پالیسی-2020 میں بھی غیر نصابی کتابوں کی اہمیت اور تشہیر پر زور دیا گیا ہے اور یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ بچوں کی پرائمری تعلیم میں رنگین اور کہانیوں کی کتابیں اہم کردار ادا کریں گی۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ہر سال کئی سو کروڑ روپے کی ایسی کتابیں خریدی جارہی ہیں لیکن ایسی کتابوں کی تحریر، موضوع، ڈرائنگ وغیرہ پر ابھی بھی بہت سنجیدہ تحقیق اور رہنما اصول تیار نہیں کیے جا سکے ہیں۔
بچوں کی بہتر کتابیں تیار کرنا ایک بڑی چنوتی ہے، جتنی سنجیدگی سے نصابی کتابوں پر بات ہوتی ہے، اس سے زیادہ سنجیدگی غیرنصابی کتابوں- مواد کے فروغ پر بھی لازمی ہے۔ وجہ-نصابی کتابیں تو بچہ استاد اور خاندان کی نگرانی میں پڑھتا ہے لیکن تفریحی کتابوں کو منتخب کرنے اور پڑھنے کے لیے بچہ آزاد ہوتا ہے۔ زبان، مواد، تصاویر، سائز، کاغذ- ہر چیز بدلتے وقت کے ساتھ تبدیلی چاہتی ہے۔ سب سے پہلے تو یہی سمجھنا ہوگا کہ نصابی کتابوں، اخلاقی تعلیم کی کتابوں اور تفریحی کتابوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ ملک کی آزادی کے دس سال بعد ہی جب پنڈت نہرو نے نیشنل بک ٹرسٹ قائم کیا تھا تو اس کی پہلی چند کتابیں بچوں کے لیے ہی تھیں۔ ویسے بھی نیشنل بک ٹرسٹ کی اشاعت کا مقصد مارکیٹ کو یہ بتانا تھا کہ ایک بہتر کتاب کیسی ہو؟ کئی دہائیوں تک نیشنل بک ٹرسٹ اوراس کے بعد چلڈرن بک ٹرسٹ کی کتابیں معیار کے طور پر مارکیٹ میں رہیں۔ آزاد تجارت کے نظام اور ٹیکنالوجی میں کوالٹی آنے کے بعد ایک طرف غیر ملکی کتابوں کا اثر آیا تو دوسری طرف ہماری روایتی سوچ کی بچوں کی کتابوں- پنچ تنتر، افسانوی کہانیوں، متاثر کن کہانیوں وغیرہ میں بھی تبدیلی آئی۔ تشدد، نازیبا زبان، تبدیلی، صنفی مساوات، ذاتوں اور مذاہب میں ہم آہنگی، سائنسی سوچ وغیرہ جیسے موضوعات بچوں کے ادب کے لیے ضروری ہوتے گئے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ادب اطفال کی کتابوں کا صارف تو بچہ ہے لیکن اس کا خریدار نہیں۔ بچوں کی کتابوں کا سب سے بڑا بازار ریاستی حکومتیں ہیں اور وہاں کچھ افسر ہی انتخاب کے معیار کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ نیشنل بک ٹرسٹ، پبلی کیشن ڈویژن یا اسی طرح کے سرکاری محکموں کی کتابیں خریدنے کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن یہ تمام ادارے مل کر بھی ہر سال اتنی کتابیں نہیں چھاپ پاتے کہ ہر سال ملک کے ہر اسکول کو کچھ نئی کتابیں مہیا کرواسکیں۔ یہی نہیں، ان اداروں میں بھی اب بچوں کے ادب کے حوالے سے تحقیق وغیرہ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ کچھ سال قبل نیشنل بک ٹرسٹ کے تحت بچوں کے ادب کا قومی مرکز قائم کیا گیا تھا لیکن اب وہ تقریباً ٹھپ ہے۔ اسے لاپروائی کہیں یا منصوبہ بندی کہ سال 2024 میں نیشنل بک ٹرسٹ کے ذریعے بچوں کی جو کتاب شائع کی گئی، وہ تھی کھاٹو شیام پر اور اس کے چوتھے سرورق پر ایک شخص کی کٹی ہوئی گردن لے کر کھڑے شخص کی تصویر ہے۔ دنیا میں کہیں بھی آج بچوں کے ادب میں اس طرح غیرانسانی تصاویر کی اجازت نہیں ہے۔ بچوں کے لیے افسانوی اور لوک کہانیوں کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس میں تشدد یا طاقت کے حصول کے لیے فریب کا استعمال نہ ہو۔ اب توماحولیاتی بحران اور آب و ہوا کی تبدیلی کا خطرہ پوری نسل انسانی پر منڈلا رہا ہے اور اس کے تئیں حساسیت پڑھنے والے پرلطف مواد کی ترجیح ہونی چاہیے۔ ایک بات اور، آج بھی بچوں کے ادب میں کلکٹر، ایس پی، سرپنچ یا ایم ایل اے نہیں ہیں۔ اساتذہ، پوسٹ مین یا پولیس کے علاوہ کوئی سرکاری محکمہ نظر نہیں آتا۔ اس کے بجائے کئی کہانیوںمیں راجا-رانی اور وزرا کے ہی کردار نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل ابھی بھی جمہوریت پر اعتماد نہیں کر پا رہی ہے۔ دور دراز کے اسکولوں میں بھی بچوں کو ایسا پڑھنے کا مواد ضرور ملنا چاہیے جس میں محکمۂ جنگلات یا فوڈ ڈپارٹمنٹ وغیرہ کے ورکنگ سسٹم اور ذمہ داریوں کا ذکر ہو۔
بچوں جیسا ذہن اور تجسس ایک دوسرے کے تکمیلی الفاظ ہی ہیں۔ وہیں تجسس کا براہ راست تعلق ذہن سے ہے۔ بچپن میں عمر بڑھنے کے ساتھ ہی اپنے ماحول کے ہر معمے کو حل کرنے کی کوشش کرنا بچپن کا بنیادی رجحان ہوتا ہے۔ مادی لذتوں اور کمرشلزم کی بے تحاشہ دوڑ کے دوران آلودہ ہو رہے سماجی ماحول اور بچوں کی فطری جستجو پر اسکولی بستے کے بوجھ کی وجہ سے ایک بوجھل ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ ایسے میں بچوں کو اپنے اردگرد کی دنیا کے بارے میں صحیح طریقے سے دلچسپ معلومات دینا بچوں کے لیے راحت دینے والا قدم ہوتا ہے۔ کتابیں اس کا آسان، قابل رسائی اور سٹیک ذریعہ رہی ہیں۔ جب ہم اکیسویں صدی کی بات کرتے ہیں تو سماجی، معاشی اور مادی آسائشوں میں تبدیلی کی بات پلک جھپکتے ہی پرانی ہوتی محسوس ہوتی ہے۔ اتنی تیزی سے تبدیلی کہ تخیل کا گھوڑا بھی اس سے شکست کھا جائے! ترقی کے بدلتے ہوئے پیٹرن، اخلاقیات کی بدلتی ہوئی بنیاد، علم کے بہاؤ کی شدت۔۔۔ اور بھی بہت کچھ، جس سے سماج کا ہر طبقہ اچھوت نہیں رہا۔ ظاہر ہے کہ بچوں پر اس کا اثر تو پڑ ہی رہا ہے اور اس سے ان کے تجسس کا دائرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ رنگ،لمس، آواز اور الفاظ-ان سبھی کے ذاتی تجربے، جو بچپن کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتے ہیں، بچوں کی زندگی میں نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ ایک خستہ حال سماجی نظام کے درمیان بقا کے لیے جدوجہد کرتی روایات ان انتہائی ضروری تجربات کو فراہم کرانے کے قابل نہیں رہ پارہی ہیں۔ بچے بڑے ضرور ہو رہے ہیں لیکن تجربے کی دنیا کے نام پر ایک بہت بڑے صفر کے دوران۔ ملک بھر کے بچوں سے ذرا ڈرائنگ کیلئے کہیں، تین چوتھائی بچے پہاڑ، ندی، جھونپڑی اور طلوع ہوتا سورج بنائیں گے۔ باقی بچے ٹی وی پر دیکھے جانے والے ڈزنی چینل کے کچھ کرداروں کی تصویریں بنادیں گے۔ یہ بات ثبوت ہے کہ لمس، آواز اور بینائی کے بنیادی تجربات کی کمی، بچوں کی فطری صلاحیتوں کو کس حد تک کھوکھلا کر رہی ہے۔ ایسے میں بچوں کو سنائی جانے والی ایک کہانی نہ صرف رشتوں کے تئیں انہیں حساس بناتی ہے بلکہ ان کے تجسس اور تخیل کی دنیا کو بھی مالامال کرتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں تمام زبانوں میں غیر نصابی کتابوں کی سالانہ تعداد مشکل سے دو ہزار سے تجاوز کرپاتی ہے اور ہندی میں تو یہ بمشکل 600 ہے۔ یہ بھی افسوسناک ہے کہ ابھی بھی ہندی میں بچوں کا ادب لکھنے والے کو کوئی ’’بچوں کا بہترین مصنف‘‘ نہیں سمجھا جاتا۔ وہ تو بھلا ہو ساہتیہ اکادمی کا کہ اس نے بچوں کے ادب پر ایوارڈ دینا شروع کر دیا ہے۔ آنجہانی مصنف ڈاکٹر ہرے کرشن دیوسرے کے خاندان نے بھی ایک بچوں کے ادب کا ایوارڈ شروع کیا ہے۔ بچوں کی کتابوں کے لیے ڈرائنگ کرنا سیکھانے کے اداروںکا تقریباً نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اول تو یہ کہ کتابوں کے لیے تصویریں بنانے میں پیسہ کم ہے، دوسرا یہ کہ اس کا تکنیکی علم بہت کم لوگوں کے پاس ہے، سوم یہ کہ مصور اور مصنف ایک ساتھ بیٹھ کر کام نہیں کرتے، اس فاصلہ کو اکثر کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
بچوں کے ادب میں تفریح، تجسس، قارئین کے مستقبل کے چیلنجز اور جدید نقطۂ نظر سے متعلق مواد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایک بات اور جو تلخ ہے- ہندی میں بچوں کے لیے لکھنے والوں کو اپنی فطری اور اکھاڑے بنانے کے رجحان سے کچھ پرہیز کرنا ہوگا، ابھی وقت زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جوڑنے کا ہے۔ خصوصاً بچوں کے لیے نظمیں لکھنے والوں کو پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ وہ نظم لکھ کیوں رہے ہیں؟ وہی پرانی تصاویر، وہی پرانے موضوع-چڑیا، کھانے پینے کی اشیا، تقریباً نصابی کتاب جیسی زبان۔ کبھی دیکھیں کہ کیا ان کی کتاب کوئی اٹھا کر خود پڑھ رہا ہے؟
نئی یا نظرانداز شدہ اصناف جیسے-ڈرامہ، شاعرانہ ون ایکٹ پلے، مضمون، انٹرویو، سفرنامہ، تحریکی کہانیوں پر کام کیا جانا چاہیے۔ نئی صدی کے بچوں کے ادب کے لیے ضروری ہے کہ وہ داستان یا تجربات میں ’’میں‘‘ سے گریز۔ کسی واقعے یا شخص کی غیرجانبدارانہ تصویر کشی یا پیشکش بچوں کے لیے ایک نصیحت ہوتی ہے، جس سے بچے خود ہی کچھ سیکھ لیتے ہیں۔