پروفیسر عتیق احمدفاروقی
مرکزی وزیرخزانہ نرملا سیتارمن نے سال 2024-25 کیلئے جو عبوری بجٹ پیش کیاہے اس کی جہاں ایک طرف حکمراں جماعت اور ان کے حامیوں نے تعریف کی وہیں دوسری جانب ’انڈیا اتحاد‘اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے اس کی نکتہ چینی کی۔ حکومت کے ارکان اورحامیوں کاکہناہے کہ حزب اختلاف کے لوگ دس سال میں ملک نے جو ترقی کی ہے اسے دیکھ پانے میں ناکام ہیں۔ بیروزگاری شرح چھ فیصد سے گرکر 3.2فیصد پر آگئی ہے۔ یہ بجٹ روزگاراور ہنر کو فروغ دینے کے حکومت کے عہد کا ثبوت ہے۔ حزب اختلاف جس کا نظریہ ہے کہ اس بجٹ کاخصوصی فوکس کرسی کو بچاناہے، بجٹ کے مثبت پہلوؤں کو دیکھ پانے میں ناکام ہے۔ ان کے دعوے بے بنیاد ، ترقی مخالف اورچھوٹی فکر والے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس بجٹ میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تربیت کا التزام ہے۔ یعنی ملازمت کے بازار میں قدم رکھنے کیلئے ایک نوجوان گریجویٹ کو چوٹی کی کمپنیوں میں سے ایک کے ساتھ بارہ مہینے کی انٹرن شپ ملے گی۔ پانچ سال میں ایک کروڑ نوجوانوں کو ماہر بنانے کیلئے تیار یہ پروگرام پانچ ہزار روپئے کا ماہانہ بھتہ فراہم کرتاہے۔ انٹرن شب پوری کرنے کے بعد نوجوان اسکیم اے کے تحت ملازمت پاتاہے جوپہلی بار نوکری چاہنے والوں پر مشتمل ہے۔ انہیں پندرہ ہزاروپئے تک کی ایک مہینے کی تنخواہ سبسڈی ملے گی جو تین قسطوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اسکیم بی کے تحت آئی اسکیم کا مقصد تمام تعمیری شعبوں میں روزگار پیدا کرناہے۔ یہ اسکیم روزگار دینے والے اورپانے والے دونوں کے مفاد کا خیال رکھتی ہے۔ حکومت کاخیال ہے کہ بجٹ میں اٹھائے گئے قدموں سے بشمول ترقی کا راستہ ہموار ہوگا۔ درحقیقت یہ چیزیں کانگریس کے منشور میں بھی شامل تھیں۔ اگریہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ ان باتوں کو بجٹ میں شامل کرکے بی جے پی نے کانگریس کے منشور میں دی گئی روزگار پالیسی کو جزوی طور پر نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتی کہ این ڈی اے اورانڈیا اتحاد دونوں کے پاس اپنے اپنے اعدادوشمار اپنے موقف کو ثابت کرنے کیلئے موجود ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ قریب 95فیصد ذرائع ابلاغ پر حکومت کا قبضہ ہے، حکمراںجماعت کے پاس وسائل حزب اختلاف سے کہیں زیادہ ہیں۔ اُن کا آئی ٹی سیل بیحد سرگرم ہے۔ اس لئے یہ چیزوں کو اپنے موافق کرنے میں انڈیا اتحاد کے مقابلے زیادہ اہل ہے۔
اب بجٹ کے منفی پہلو کا اگرجائزہ لیاجائے تو پتہ چلے گاکہ یہ ایک مایوس کن بجٹ ہے۔ دراصل اس بجٹ (2024-25)پر لوک سبھا انتخابات کے نتائج کی واضح چھاپ ہے۔بجٹ مخالفین کا خیال ہے کہ جہاں مودی حکومت نے اپنی کرسی اوراتحاد بچانے کیلئے صرف دوریاستوں آندھرا پردیش اوربہار کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے وہیں دس سال بعد پہلی بار ملازمت کی بات کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اصلیت یہ ہے کہ جس ملک میں ساٹھ فیصد آبادی35 سال سے کم عمر کی ہے وہاں وزیراعظم بیروزگاری کی وباکو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
بجٹ سے دودن پہلے تک مودی جی کہہ رہے تھے کہ ہم نے آٹھ کروڑ نوکریاں دے دی ہیں۔ یہ نوکریاں کس کو ، کہاں،کب اورکیسے دی گئیں، اس کا کوئی ذکر تو ہے نہیں ۔ یہی نہیں سرکار روزگار پیدا کرنے کو لیکر کتنی سنجیدہ ہے ، اس کا ثبوت باربار پی ایل ایف ایس کے اعدادوشمار سے بیروزگاری کم ثابت کرنے کی ناکام کوشش سے بھی ملتاہے۔ 9.2فیصد بیروزگاری شرح کو 3.2فیصد ثابت کرنے سے اپنے من کو تو بہلایا جاسکتاہے، پرمسئلے کا حل نہیں ہوسکتا۔ وزیرخزانہ نے کانگریس کی ’پہلی نوکری پکی‘اسکیم کو کاپی پیسٹ کرنے کی ادھوری کوشش تو کی لیکن اسکیم کو پانچ ہزار روپئے ماہانہ پانچ سو چوٹی کی کمپنیوں اور ایک کروڑ لوگوں تک محدود رکھا۔ بجٹ میں نوجوانوں کو لیکر اعلان کیاگیا کہ حکومت پہلی بار نوکری کرنے والے لوگوں کو ایک مہینے کی تنخواہ دے گی پر ہرسہولت صرف نئے ملازمین کیلئے ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کمپنیوں کوای پی ایف او حصہ داری کیلئے دوسال تک ماہانہ تین ہزار روپئے ملنے والی رقم سے نوجوانوں کو بلاواسطہ کوئی فائدہ نہیں ہوسکا۔
اب سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر روزگار کی سائیکل ٹوٹی کیوں؟ اور اسے دوبارہ پٹری پر کیسے لایا جا سکتاہے ؟ 8.2فیصد جی ڈی پی بڑھنے کی شرح میں اگرخرچ میں اضافہ محض چار فیصد کے قریب ہے ، زراعت میں اضافہ 1.4فیصد ہے اورمینوفیکچرنگ شعبہ سست رہے گا توروزگار کہاں سے بڑھے گا؟ جب مانگ اورخرچ میں اضافہ ہوگا تبھی پیداوار اورسرمایہ کاری بڑھے گی۔ جس کے بعد ہی روزگار کے مواقع پیدا ہوںگے۔ حکومت کو دعوؤں کے بجائے سب سے پہلے کھپت بڑھانی ہوگی۔ اس بار اپنی حکومت بچانے کیلئے حکومت نے بجٹ کو آندھر اپردیش اوربہار پر مبذول کردیا۔ بہار کو قریب ساٹھ ہزار کروڑ اورآندھرا پردیش کو پندرہ ہزارکروڑ روپئے دئے گئے ہیں۔ سرکاری وفاقیت کا راگ الاپنے والوں نے ملک کی بڑی ریاستوں جیسے اترپردیش ، راجستھان ، مدھیہ پردیش، کرناٹک اورمغربی بنگال کیلئے اس بجٹ میں کچھ بھی خاص نہیں دیاہے۔ کیا اِن ریاستوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی نہیں ہے ؟ ہماچل پردیش کے مصیبت زدہ افراد کو قرض کے علاوہ کیا اور امداد اس مرکزی بجٹ سے ملے گی؟ ۔
زراعت کا بجٹ کل بجٹ کے تناسب میں تخفیف کرکے 3.15فیصد کردیاگیاہے۔ تعلیم پر خرچ کم کیاجارہاہے۔ حکومت نے کورونا جیسی وبا سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ صحت بجٹ لگاتار کھٹایاجارہاہے۔ دفاعی بجٹ جو پورے بجٹ کا گزشتہ سال 9.6فیصد تھا، اسے اس سال 9.4فیصد کردیاگیاہے۔ ملک میں آئے دن ہورہے ریل حادثوں کے باوجود بجٹ میں ریلوے کی سلامتی اورتحفظ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لب لباب یہ کہ اس’ کرسی بچاؤ بجٹ‘سے نوجوان،کسان اورمتوسط طبقے کی توقعات پر پانی پھیرنے کاہی کام ہواہے۔ کھوکھلے دعوؤں سے روزگار نہیں پیدا ہوگا، اسے سمجھنے کیلئے بیروزگاری کے مسئلے کو قبول کرنا ہوگا، پر حکومت ایسا کرنے کے مونڈ میں نہیں دکھتی ہے۔
[email protected]
مرکزی بجٹ پر حکمراں اور اپوزیشن محاذ میں تکرار: پروفیسر عتیق احمدفاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS