ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
ہندوستانکا اگلا بجٹ کچھ ہی ہفتوں میں آنے والا ہے۔ وہ کیسا ہو، اس بارے میں کئی ماہرین اور بااثر افراد اپنے مشورے /اپنی تجاویز دے رہے ہیں۔ اب سے تقریباً 30-35سال قبل بسنت ساٹھے اور میں نے سوچا تھا کہ ہندوستان سے ٹیکس ختم کرنے کی مہم چلائی جائے، کیوں کہ ٹیکس کی مار سے بچنے کے لیے ٹیکس دہندگان کو کافی بدعنوانی کا سہارا لینا پڑتا ہے اور ٹیکس کی ادائیگی کا عمل بھی اپنے آپ میں بڑا سردرد ہے۔ اب بھی یہ ضروری ہے کہ انکم ٹیکس کی جگہ اخراجات ٹیکس یا ’جائے کر‘ لگایا جائے۔ ’جائے کر‘مطلب اس پیسے پر ٹیکس لگایا جائے جو اپنی جیب سے باہر جاتا ہے۔ آنے والا پیسہ ٹیکس فری ہو اور جانے والے پیسے پر ٹیکس لگایا جائے۔اخراجات پر اگر ٹیکس لگے گا تو لوگ فضول خرچی کم کریں گے۔ آمدنی میں جو پیسہ بڑھے گا، اسے لوگ بینکوں میں رکھیں گے۔ وہ پیسہ کاروبار میں لگے گا۔ اس سے ملک میں پیداوار اور روزگار میں اضافہ ہوگا۔ ٹیکس کا حساب دینے میں جو مغزپچی(ذہنی کثرت) اور رشوت وغیرہ میں خرچ ہوتے ہیں، ان سے بھی راحت ملے گی۔ تقریباً ساڑھے 6کروڑ لوگ جو ہر سال ٹیکس ادا کرتے ہیں، وہ حکومت کے مشکور ہوں گے۔ لاکھوں سرکاری ملازمین کو بھی راحت ملے گی، جنہیں ٹیکس کا حساب کتاب کرنا پڑتا ہے یا ٹیکس چوروں پر نگرانی رکھنی پڑتی ہے۔ نوکرپیشہ اور دکان داروں کو بھی ٹیکس بچانے کے لیے طرح طرح کے داؤپیچ نہیں کرنے ہوں گے۔ موٹی/بڑی آمدنی پر ٹیکس دینے والوں کی تعداد تقریباً 1.5کروڑ ہے۔ باقی 5کروڑ لوگوںکو بہت کم یا صفر ٹیکس دینا ہوتا ہے۔ ان کے سر پر فضول تلوار لٹکی رہتی ہے۔ ایسے لوگوں میں چھوٹے کاروباری/تاجر اور تنخواہ دار لوگ ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ انہیں وہ داؤپیچ کرنا بھی نہیں آتا، جن سے ٹیکس بچایا جاتا ہے۔ بڑے کسان، لیڈر اور بڑے صنعت کار ٹیکس چوری کے فن میں ماہر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کروڑوں اربوں روپے فرضی اکاؤنٹس یا غیرملکی بینکوں میں چھپائے رکھتے ہیں۔ نوٹ بندی اسی جذبہ سے لائی گئی تھی کہ وہ ان رجحانات کو کنٹرول کرے گی لیکن وہ ناکام ہوگئی۔ کالادھن بڑھتا ہی گیا۔ اگر انکم ٹیکس کا رواج ختم کردیا جائے تو کوئی بلیک منی پیدا ہوگی ہی نہیں۔ اس وقت دنیا کے درجن بھر سے زیادہ ممالک میں پرسنل ٹیکس ہے ہی نہیں۔ ان میں سعودی عرب، یو اے ای، اومان، کویت، بحرین اور مالدیپ جیسے مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ ان ممالک میں سیلزٹیکس یا ہمارے جی ایس ٹی کی طرح اخراجات پر ٹیکس یعنی ’جائے کر‘ تو ہے لیکن انکم ٹیکس نہیں۔ ان کا معاشی نظام مزے میں چل رہا ہے۔ ’جائے کر‘ یعنی خرچ پر ٹیکس لگانے کے لیے ہمارے افسروں اور ماہرین کو اپنا دماغ لگاکر سبھی پہلوؤں پر گہرائی سے غور کرنا ہوگا۔ عام لوگوں سے بھی تجاویز طلب کرنی ہوں گی۔ ’جائے کر‘ میں بھی چوری اور چالاکی کے بہت سے امکانات رہیں گے لیکن انکم ٹیکس کے مقابلہ وہ بہت کم ہوں گے۔ اگر ہندوستان جیسا بڑا ملک اسے نافذ کرے گا تو اپنے پڑوسی ممالک میں بھی اس پر عمل خودبخود ہوجائے گا۔
(مضمون نگار ممتاز صحافی، سیاسی تجزیہ کاراور
افغان امور کے ماہر ہیں)
[email protected]