مولانا قاری اسحاق گورا
حال ہی میں کانوڑ یاترا کے دوران پھل سبزی فروشوں، ڈھابوں اور ہوٹلوں کے مالکان کو اپنی مذہبی شناخت ظاہر کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے۔ اس حکم نے ہندوستان بھر میں مختلف مذاہب کے لوگوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔ دانشمندوں کا ماننا ہے کہ یہ حکم مذہبی سیاست کا ایک نیا کھیل ہے جو ہندوستان کے آئین کی روح کو کمزور کرتا ہے۔اس مضمون میں ہم اس مسئلے کا تجزیہ کریں گے اور مسلمانوں کے لئے ممکنہ حکمت عملیوں پر غور کریں گے۔
کانوڑ یاترا کے دوران مذہبی شناخت ظاہر کرنے کا حکم نہ صرف غیر ضروری ہے، بلکہ آئین کے بنیادی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اس حکم کی جڑیں مذہبی سیاست میں پیوستہ ہیں جو عوام میں مذہبی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ہندوستان کا آئین تمام شہریوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے۔ آرٹیکل 14 اور آرٹیکل 25 اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ ہر شہری کو مساوی حقوق اور مذہبی آزادی حاصل ہے۔ یہ حکم نامہ ان اصولوں کے خلاف ہے اور آئینی دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔مذہبی شناخت ظاہر کرنے کا حکم نامہ سماجی ہم آہنگی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ ہندوستان مختلف مذاہب کے لوگوں کا مسکن ہے، اور اس طرح کے اقدامات سے مختلف مذاہب کے درمیان خلیج پیدا ہو سکتی ہے جو ملک کی وحدت کے لئے خطرہ ہے۔
مختلف مذاہب کے دانشمندوں نے اس حکم کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات ملک کو تقسیم کرنے کے مترادف ہیں۔ ان کی رائے میں، یہ حکم نہ صرف مذہبی تفریق کو ہوا دیتا ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کو نہایت دانشمندی اور احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ ذیل میں کچھ حکمت عملیاں پیش کی جا رہی ہیں جو اس نازک صورتحال میں مد نظر رکھی جا سکتی ہیں۔ آئینی دفعات کی روشنی میں قانونی چارہ جوئی: اس حکم نامہ کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کریں اور آئین کی دفعات کی بنیاد پر اس حکم کو چیلنج کریں۔اس کے لئے مختلف قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مدد لی جا سکتی ہے۔مذاہب کے درمیان مکالمہ: مختلف مذاہب کے رہنماؤں اور دانشمندوں کے ساتھ مل کر اس مسئلہ پر بات کریں اور مشترکہ طور پر حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس حکم نامہ کو واپس لے۔ مذاہب کے درمیان مکالمہ کو فروغ دے کر سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
عوامی تعلیم و آگاہی: عوام میں تعلیم اور آگاہی پیدا کریں کہ وہ مذہبی بنیاد پر تفریق نہ کریں اور ملک کی وحدت کو برقرار رکھیں۔اس مقصد کے لئے تعلیمی اداروں، مساجد اور سماجی تنظیموں کا تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے۔
میڈیا کا مؤثر استعمال: سوشل میڈیا اور دیگر میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کر کے اس مسئلہ کو اجاگر کریں اور عوام کو اس کے خطرات سے آگاہ کریں۔ میڈیا کے ذریعہ عوامی رائے عامہ کو ہموار کیا جا سکتا ہے اور حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے کہ وہ اس حکم نامہ کو واپس لے۔ پرامن احتجاج: پرامن احتجاج کریں اور حکومت کو پیغام دیں کہ اس طرح کے اقدامات عوام میں ناپسندیدہ ہیں۔ • احتجاج کے دوران آئینی دفعات اور قانونی اصولوں کا احترام کریں تاکہ احتجاج پرامن اور مؤثر رہے۔
سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا تعاون:سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس مسئلہ پر آواز اٹھائیں۔ مختلف سماجی تنظیموں کے ساتھ تعاون کر کے مشترکہ کوششوں کے ذریعے اس مسئلہ کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
بین المذاہب مکالمہ کو فروغ دینا:مختلف مذاہب کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر بین المذاہب مکالمہ کریں اور اس مسئلہ کا حل تلاش کریں۔ بین المذاہب مکالمہ کے ذریعے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔قانونی چارہ جوئی ایک مؤثر طریقہ ہے جس کے ذریعے اس حکم نامہ کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ قانونی ماہرین کی مدد سے اس حکم کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کریں۔ آئین کی دفعات کی بنیاد پر یہ کیس مضبوط بنایا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ حکم نامہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 25 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
کانوڑ یاترا کے دوران مذہبی شناخت ظاہر کرنے کا حکم نامہ ہندوستان کے آئین اور سماجی ہم آہنگی کے لئے خطرناک ہے۔ یہ حکم آئین کی دفعات، خاص طور پر آرٹیکل 14 اور 25 کی خلاف ورزی کرتا ہے جو ہر شہری کو مساوی حقوق اور مذہبی آزادی فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات نہ صرف قانونی طور پر ناپسندیدہ ہیں بلکہ سماجی سطح پر بھی تفریق اور تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں مسلمانوں کو دانشمندی اور احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔