مکہ مکرمہ کے مذہبی، تاریخی اور لسانی امتیازات: عارف عزیز ،بھوپال

0

عارف عزیز ،بھوپال
مذہبی امتیازات روئے زمین کی تمام عبادت گاہوں میں جو امتیازی شان وعظمت مسجدِ حرام کو حاصل ہے ، دنیا کے تمام شہروں میں وہی محبوبیت وافضلیت مکہ مکرمہ کے لئے مسلم ہے، اسے ہم دنیا کا قدیم اور متمدن شہر بھی کہہ سکتے ہیں، یہاں پختہ مکان، عمارات، اور محلات بنانے کا رواج بعد میں شروع ہوا لیکن جب اِس کا آغاز ہوگیا تو اہل مکہ کے تعمیری ذوق نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیا، یہاں کے مکان عام طور پر کشادہ، آرام دہ اور خوبصورت ہوتے ہیں، جس میں قومی روایات کا خواب اظہار ہوتا ہے، مہمان نوازی یہاں کے شہریوں کے رگ وپے میں پیوست ہے اور اس کا ثبوت ہر مکان میں مہمانوں کے لئے مہیا کی جانے والی آرام وآسائش کی سہولتوں سے ملتا ہے، حجاج کرام کی ہر سال خدمت کرنا تو اہل مکہ کی زندگی کا ایک حصہ ہے لیکن حج کے بعد سال بھر آنے والے زائرین کو بھی وہ سر آنکھوں پر جگہ دیتے ہیں۔
مکہ مکرمہ کی سرزمین بجز مرقدِ اطہر ﷺ سب سے افضل ہے، حدود حرم کے ساتھ سارا مکہ محترم ہے، حجرِ اسود کی چمک جہاں جہاں پہونچی وہاں تک حرم کے حدود قائم ہوئے، بیت الحرام کی یہی حرمت نصِ قرآنی سے بھی ثابت ہے۔ یہ انبیاء کرام کی جائے عبادت ہے، سینکڑوں انبیاء اس شہر میں آسودہ خواب ہیں ۔ یہاں آنے والا اللہ کا مہمان ہوتا ہے، اسے قرآن نے ’’بلد امین‘‘ امن والا شہر قرار دیا ہے، اسی لئے یہاں قتال و جدال یہانتک کہ شجر کاٹنا بھی منع ہے۔
بعض علماء نے یہاں زراعت کو بسبب کٹائی ممنوع قرار دیا ہے، مشرکین کے داخلے اور اسلحہ لانے پر پابندی عائد ہے، یہاں کی مٹی کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنا حرام ہے، یہ وہ شہر ہے جسے مولدِ نبیؐ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، یہاں رسول پاک ﷺ کا عہدِ طفولیت بیتا، یہاں آپؐ نے پرورش پائی ، جوانی کا عہد بھی اسی شہر میں گزرا، یہاں آپ نے تین عقد فرمائے، سوائے سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ تمام اولادیں یہاں پیدا ہوئیں، اسی شہر کے غارِ حرا (جبل نور) پر آپؐ نے تنہا عبادت فرمائی، وحی ناز ل ہوئی اور قرآن کے اترنے کے سلسلہ کا آغاز ہوا ، اسی شہر میں نبی آخر الزماں ﷺ نے منصب نبوت کا اعلان فرماکر اسلام کی عالمگیر تبلیغ کا آغاز کیا۔اسی شہر میں اکثر فرائض و احکام نازل ہوئے۔اسی شہر پاک میں معجزہ شق القمر کا صدور ہوا، اسی جگہ پتھروں نے آپؐ کو سلام کیا اور درخت تعمیل ارشاد میں قریب آئے، یہیں سے اسریٰ اور معراج ہوئی، آپؐ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور ۸ ہجری میں فتح مکہ پر عام عفو ودرگذر کا اعلان کیا، یہاں مسجدِ حرام کے ’’باب السلام‘‘ سے تھوڑے فاصلہ پر محلہ سوق اللیل تھا، اس سے متصل گلی میں حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کا گھر تھا، یہی مکان رسول پاکؐ کا جائے پیدائش ہے جسے سعودی حکومت نے لائبریری کی حیثیت سے باقی رکھا ہے، حرم شریف اور اس مکان کے درمیان دشمنِ اسلام ابو جہل کے مکان پر طہارت خانے بنادیئے گئے ہیں جواس جگہ کا مناسب مصرف ہے۔ ہم مولدِنبیؐ کی زیارت کرنے پہونچے تو دیکھا کہ لوگ وہاں مختلف طریقوں سے اپنی عقیدت کا اظہار کررہے ہیں، ایک ترک خاتون اپنے رومال سے مکان پر جمی گرد کو سمیٹ رہی تھی، کئی لوگ اپنا چہرہ ہاتھ یا بدن مکان کی دیواروں سے مس کرنے میں مصروف تھے، یہاں ہماری ملاقات مہاراشٹر کے ایک نوجوان سے ہوئی جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مکان کی نشاندہی کی اب یہاں بلند وبالا عمارت بن گئی ہے، جس کے اوپر غالباً مسجد تعمیر ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہ کی رہائش گاہ کے آثار بھی نہیں ملتے، کیونکہ وہاں دوسری تعمیرات کھڑی ہیں، نکاح کے بعد رسول اللہ ﷺ محلہ زقاق الحجر میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے مکان میں ہجرت تک مقیم رہے، اسی مکان میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت ہوئی، بعد میں یہاں مسجد بنا دی گئی لیکن اب اس مکان کا وجود نہیں ،اس شہر میں مذکورہ مقامات کے علاوہ اسلام کا پہلا مدرسہ ’’دارِ ارقم‘‘ مسجد رایہ، مسجد جن، مسجد اجابہ، مسجد کائن، مسجد ذی طوی، مسجد عائشہ، مسجد ماثورہ، قدیم زیارت گاہیں جنت معلی، جبلِ ماثورہ،ثبیر مقدس پہاڑ ہیں، تین قدیم قلعے ، قلعہ جیاد، قلعہ ہندی اور قلعہ شاہی کے آثار اب بھی نظر آجاتے ہیں۔
مکہ معظمہ ہر دو ر میں سربراہان حکومت، اربابِ اقتدار، زعماء اور حکام کا مرکزِ نگاہ رہا ہے، مقامی باشندوں کی میزبانی، مہمان نوازی، سیر چشمی اور فراخ دلی اس سرزمین پر قدم رکھنے والوں کو متاثر کردیتی ہے، چالیس پچاس سال پہلے یہاں غربت کا بول بالا تھا، میرے والد بزرگوار (سید رحمت علی صاحب عزیزمیاں مرحوم) ۱۹۶۳ء میں فریضۂ حج کی ادائیگی کے لئے تشریف لے گئے تھے، اس وقت دو ہندوستانی روپیوں کے بدلہ میں بآسانی تین ریال مل جاتے تھے، آج ایک ریال کی قیمت ساڑھے گیارہ روپے ہے، بھوپال نژاد اور امورِ خیر میں پیش پیش رہنے والے معلم شیخ صالح عبدالصمد ساعاتی مرحوم فرماتے تھے کہ’’ میرے دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کی دنیا بدل گئی، پہلے آنے والے حاجی معلوم کرتے تھے کہ ان کی رقم کس مستحق کو دی جاسکتی ہے، بعد میں آنے والوں کو یہ تلاش ہونے لگی کہ فلاں سامان کہاں سے خریدا جائے‘‘، پچاس سال کے عرصہ میں تیل کی دولت سے صورتِ حال اتنی تبدیل ہوگئی کہ جو آنے والوں کے منتظر کرم ہوا کرتے تھے آج وہ حجاج کی میزبانی وخدمت میں طمانیت محسوس کرتے ہیں لیکن اللہ کے گھر کعبۃ اللہ سے اہل مکہ کا جو پرانا اور مستحکم تعلق ہے اس میں ذرا بھی کمی نہیں آئی، پہلے کی طرح وہ ہر نئے کام کا آغاز عمرہ یا کم از کم طواف سے کرتے ہیں، ہر سطح کے لوگ اہلِ خاندان کے ساتھ حرم شریف میں حاضری کو سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں، ایام حج کا ہجوم کم ہوتے ہی صحنِ حرم میں ایسے خاندان نظر آنے لگتے ہیں جن کا وقت زیارتِ کعبہ یا طواف میں گزرتا ہے اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ادھر اُدھر دوڑ بھاگ میں مصروف رہتے ہیں۔ مقامی باشندوں کی کوشش ہوتی ہے کہ حج کے دوران حرم میں بیرونی زائرین کو زیادہ سے زیادہ عبادت کا موقع ملے اور ان کو کسی طرح کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، اسی مقصد سے وہ ٹھنڈے اور گرم مشروبات کے علاوہ کھانا اور پھل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں، نومولود بچوں کو ولادت کے بعد نہلا دھلا کر سب سے پہلے حرم میں لانے کا رواج آج بھی قائم ہے، بحیثیت مجموعی مکہ شریف کی معاشرتی زندگی سادگی سے عبادت ہے، مرد یکساں لباس زیب تن کرتے ہیں، نیم آستین والا سفید قمیض، تہہ بند، ٹوپی، عقال اور غطرہ ان کا عام لباس ہوتا ہے، عورتیں ضرور اعلیٰ لباس کے ساتھ زیور پہنتی ہیں لیکن پردہ کی اتنی شدید پابندی ہوتی ہے کہ غیر محرم ان کی آواز نہیں سن سکتا، برقعہ کے بغیر وہ باہر نہیں نکلتیں اور مکانوں کے مردانہ حصہ میں بھی بے پردہ داخل نہیں ہوتیں، حرم میں دوسری ایشیائی خواتین کو تیز آواز میں گفتگو کرتے دیکھ کر عرب خواتین اکثر ٹوک دیتی ہیں، اسی طرح بغیر برقعہ کے نظر آنے والی خواتین کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتیں۔مکرمہ مکرمہ زمانہ قدیم سے دینی علوم کا مرکز رہا ہے لیکن اب یہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم پر بھی توجہ دی جارہی ہے، ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے مدارس وکلیات کی تعداد یوروپ کے کسی بھی بڑے شہر سے کم نہیں حالانکہ پچاس برس قبل تک یہاں صرف چند مدارس قائم تھے، یہی حال کتب خانوں کا تھا، لیکن آج شہر مکہ میں درجنوں لائبریریاں کام کررہی ہیں، حرم شریف میں درس کے حلقے اور وعظ کی مجالس کی سینکڑوں سال پرانی روایت آج بھی زندہ ہے۔
ثقافتی امتیازات: شادی بیاہ کی تقاریب کے بارے میں یہاں عرصہ سے مقیم لوگوں کا بیان ہے کہ بہت سادہ اور شائستہ ہوتی ہیں مرد اور عورتوں کے لئے بیٹھنے کی الگ الگ نشستوں کا انتظام کیا جاتا ہے ، نفیس عربی کھانوں سے مہمانوں کی ضیافت ہوتی ہے، مرد اکثر شادی کی تقریب میںتلوار زیبِ تن کرکے شرکت کرتے ہیں، بعض شادیوں میں تیغ زنی کے کرتب بھی دکھائے جاتے ہیں، مکہ شریف میں غمی کے موقع پر سادگی برتی جاتی ہے، ہندوستان کی طرح میت کا سوگ کئی دن تک نہیں منایا جاتا، کفن ودفن کے بعد ہر ایک معمول کے کاموں میں مصروف ہوجاتا ہے، اس سے قبل ضرور میت کے ورثاء جن مراحل سے دوچار ہوتے ہیں، ہندوستان میں رہنے والے اس کا تصور نہیں کرسکتے کیونکہ موت کے بعد لاش کو فوراً سینٹرل اسپتال کے مردہ خانے میں منتقل کردیا جاتا ہے، یعنی میتیں گھروں میں رکھنے کا طریقہ نہیں، غسل ہو یا کفن ودفن یا میت کو نماز جنازہ کیلئے مسجد اور اس کے بعد تدفین کیلئے قبرستان لے جانے کاکام حکومت یا اس کے ماتحت فلاحی ادارے انجام دیتے ہیں، اس سے پہلے پولس کا اجازت نامہ حاصل کرنا لازم ہوتا ہے ، مقامی باشندے ہوں یا تارکِ وطن (غیر مقیم) سب کو تدفین کی اجازت کے لئے کئی سرکاری دفاتر سے سرٹیفیکٹ حاصل کرنے پڑتے ہیں، غیر مقیم متوفی کے ورثاء کی دشواریاں اس لئے بڑھ جاتی ہیں کہ انہیں اپنے سفارت خانے سے بھی رجوع کرنا پڑتا ہے، جہاں سے متوفی کی قومیت کی تصدیق کے ساتھ ایک سفارشی لیٹر سعودی حکومت کے نام جاری ہوتا ہے، اسے امیر شہر کے دفتر میں پیش کرکے تدفین کی اجازت مل جاتی ہے۔اسی سال(۲۰۰۶ء میں) نظام الدین کالونی بھوپال کی ایک خاتون منیٰ کے حادثہ میں زخمی ہوکر فوت ہوگئیں تھیں اور مختلف کارروائی میں تقریباً ایک ہفتہ کی تاخیر سے ان کی تدفین عمل میں آئی۔ مکہ شریف میں کسی زمانے میں اونٹ اور گدھے کی سواری عام تھی، آج کل دنیا کی قیمتی سے قیمتی کاریں یہاں کی شاہراہوں پر دوڑتی نظر آجاتی ہیں، دولت کی فراوانی اور خوش حالی کے باعث ۹۵ فیصد مکہ کے شہری موٹر نشیں ہیں۔ یہاں اونٹ، بھیڑ ، بکری بکثرت اور گائے بہت کم نظر آتی ہیں، اسی طرح کبوتروں کی افراط، چڑیوں کی کمی، بلیوں کی کثرت ہے لیکن کوے دکھائی نہیں دیتے۔ جرول، حارث الباب، شبیکہ، جبل عمر، مصفلہ، معاہدہ، حجون، جبل ابو قبیس، شعبِ بنی ہاشم، فلک، طریق ہجرہ اور شامیان، مشہور محلے ہیں جبکہ سوق الکبیر، ، بازار سویقہ، بابِ دریبہ، سوق اللیل، سوق الصغیر قابل ذکر بازار ہیں۔
(جاری)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS