انل چمڑیا
اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کے لیے کسی پارٹی کے ذریعہ ایسا کچھ وعدہ سنائی نہیں دے رہا ہے کہ اقتدارمیںآنے کے بعد کسی بے گناہ کومسلمان ہونے کی وجہ سے پولیسیا پھندے میں ڈالے جانے کی چوطرفہ سازشوں کو چلنے نہیںدیا جائے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ بی جے پی اس طرح کا کوئی وعدہ نہیں کرسکتی ہے۔ اترپردیش میں گزشتہ پانچ برسوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے اور اس کے دوراقتدار میں مسلمانوں کے اندر دہشت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن بی جے پی کے علاوہ جو دوسری پارٹیاں ہیں وہ اس طرح کی یقین دہانی کراسکتی تھیں کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے اندر دہشت اور عدم تحفظ کے جذبہ کو ختم کرنے کے لیے ہر سطح پر کام کریں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کو فرقہ وارانہ یا اس کی حکومت کو فرقہ وارانہ جھکاؤ کے ساتھ کام کرنے کا الزام لگاکر خود کے لیے الیکشن میں ووٹ دینے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ توپہلا سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی صرف مسلمانوں سے ووٹ لینے والا محض کوئی نام ہے؟ ان سیاسی حالات کو قبول کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے مابین انتخابی جنگ جیتنے کے لیے اکثریتوں کے حق میں جھکا ہوا نظر آنے کی مقابلہ آرائی ہے۔ دوسرے طریقہ سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کم سے کم اقلیتوں کی حمایت میں ہلکا سا بھی نظر آنے سے پرہیز کرنا انتخابی پارٹیوں کی عادت سی ہوگئی ہے۔ وہ اسے مجبوری کا نام دیتی ہیں۔ لیکن جمہوریت اور معاشرہ محض الیکشن کا نام نہیں ہے اور نہ ہی سیاسی پارٹی کا مطلب کسی بھی شرط پر الیکشن جیتنا ہی ہے۔ الیکشن جمہوریت اور معاشرہ کے تانے بانے کو مضبوط کرنے کا ذریعہ سمجھاجاتا ہے۔ لیکن الیکشن میں کمزور سمجھے جانے والے طبقہ اور اقلیتوں کو صرف ووٹرس کے طور پر سمجھا جانے لگا ہے۔ الیکشن میں اقلیتوں کے ساتھ تشہیر تک کرنے سے بھی پارٹیاں پرہیز کرنے لگی ہیں۔ یعنی جمہوریت کے لیے ہونے والے الیکشن کے ایک چھوٹے سے حصہ کا محض کردار اقلیتیں رہ گئی ہیں۔ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ صرف ووٹرس سمجھنے کا مطلب الیکشن کے لیے ایک ضروری چیز یا سامان میں تبدیل کردی گئی ہیں۔
ایسے حالات میں اترپردیش اسمبلی کے ایک حلقہ نظام آباد-348سے رہائی منچ کے امیدوار راجیو یادو کا کھڑا ہونا کئی سوال کھڑے کرتا ہے۔ اترپردیش ہی نہیں ملک کے مختلف حصوں میں رہائی منچ نے 2007 سے مسلسل دہشت گردی اور دوسرے بلاوجہ کے الزامات میں گرفتار کیے جانے والے اقلیتی فرقہ کے لوگوں کی رہائی کی مہم چلا رکھی ہے۔ گرفتاری کے علاوہ مڈبھیڑ کے نام پر ایسے قتل سے جڑے سوالات کو کھڑا کرتا رہا ہے۔ ان سوالات سے مڈبھیڑ کا مقصد ایک ڈر اور دہشت کا ماحول بنانے کی سازش کو جگ ظاہر کرتے رہے ہیں۔ بے گناہ اقلیتی فرقہ کے لوگوں کی رہائی کی یہ مہم اعظم گڑھ کی وارداتوں کے بعد اس وقت کھڑی ہوئی جب اعظم گڑھ کو ہی دہشت گردی کے مرکز(آتنک گڑھ) کے طور پر تشہیر کی جانے کی سازش شروع ہوئی۔ سازش کو کامیاب کرنے کے لیے اعظم گڑھ کے اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ملک کے مختلف حصوں سے گرفتاریاں اور ان کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شامل ہونے کے خدشہ کے تحت پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔پوچھ گچھ کے نام پر بھلے ہی کچھ ثبوت نہ ملتے ہوں لیکن بدنام کرنے کے لیے میڈیا کو تشہیرکرنے کا مصالحہ مل ہی جاتا ہے۔
اترپردیش سمیت پورے ملک میں رہائی منچ نے اپنی شبیہ مسلمانوں، دلتوں، خواتین کے ساتھ پسماندہ طبقات کے مفادات کے حصول کے لیے مسلسل لڑنے والی ایک تنظیم کے طور پر بنائی۔ حالات تو یہ ہوئے کہ گزشتہ سال رہائی منچ کے بزرگ صدر شعیب صاحب کو اترپردیش میں یوگی حکومت نے کئی ماہ تک جیل میں قید رکھا جبکہ شعیب صاحب ایک معروف وکیل ہیں اور لوہیا کے سماجوادی نظریہ کے ساتھ پوری زندگی وابستہ رہے ہیں۔ رہائی منچ کے اس بزرگ وکیل نے درجنوں ویسے مقدمات لڑے جنہیں نہ لڑنے کی تجویز وکلا کا گروپ لے چکا تھا۔ لیکن شعیب صاحب نے بے گناہوں کی گرفتاری کو جمہوریت کے لیے خطرہ سمجھا اور کچہری کی چہاردیواری میں بھی حملہ کے باوجود دہشت گردی کے نام پر قید بے گناہوں کی پیروی کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی تحریک چلانے والی تنظیموں کو الیکشن لڑناچاہیے؟ عام طور پر معاشرہ کے حقوق کے لیے تحریک چلانے والی تنظیمیں انتخابی میدان سے باہر رہتی ہیں۔تحریکوںکے ذریعہ سیاسی سطح پر یہ دباؤ بناتی ہیں کہ معاشرہ کے سامنے کھڑے چیلنجز سے پارٹیوں کو منھ نہیں چرانے دیتی ہیں۔ لیکن یہ کوئی اصول نہیں ہے کہ تحریک چلانے والے الیکشن میںحصہ نہیں لے سکتے ہیں۔ بہت تحریکوں والے اپنے ایشوز کی تشہیر کے لیے الیکشن کے موقع کا استعمال کرتے ہیں۔ رہائی منچ کے ایشو سیدھے سیدھے انتخابی سیاسی فائدے اور نقصان کے حساب سے وابستہ ہیں۔ ملک کے جو حالات ہیں ان میں رہائی منچ کی ملک میں سیکولرزم، سماجی انصاف اور جمہوریت کے ساتھ انسانی رشتوں کے لیے اہمیت نظر آتی ہے۔ جہاں سناٹا ہو وہاں ایک لفظ کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ رہائی منچ نے پورے ملک میں بے گناہوں کی گرفتاری کے سوال کو سناٹے کے حالات میں لے جانے سے روکا ہے۔ اس سے الیکشن کے ذریعہ ایک نمائندہ کو منتخب کرنے کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ تصور کریں کہ رہائی منچ کی کہیں بھی موجودگی سے کتنے بے گناہوں کو حالات سے باہر نکلنے کے لیے حوصلہ ملتا رہا ہے۔ اسمبلی میں رہائی منچ کی آواز کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہی اترپردیش کی کئی عوامی تنظیمیں پارٹیوں پر یہ دباؤ بنارہی ہیں کہ وہ رہائی منچ کے نمائندہ-ایشوز کو اپنی حمایت دیں۔ اترپردیش کے الیکشن میں یہ سب سے بڑی ضرورت ہے کہ معاشرہ میں معاشی، سماجی اور سیاسی حالات کو بد سے بدتر بنانے کی جو سیاسی پارٹیوں میں مقابلہ آرائی ہے، اس سائیکل(چکر) میںچھید کرنے کی کوششوں پر غورکیا جائے۔ 17برسوں میں رہائی منچ جو امیدیں بچانے میں جتنی کامیاب ہوئی ہے، وہ لوگوں کے ذہن میں کتنی اتری ہے، اس کی پرکھ کے لیے الیکشن جیسے مواقع ایک امتحان سمجھے جاتے ہیں۔
[email protected]