موجودہ تعلیمی نظام میں اصلاحات

0

ڈاکٹراسمیتا دیشمکھ

سماجی فرد کی شخصیت کی تہین کھولنے کا ذریعہ ہے۔تعلیم کا مقصد فرد کی صلاحیتوں کوپوری طرح نکھارتی ہے، انسانیت کو درپیش بحران سے تعلیم کے ذریعہ ہی نکالناممکن ہے ۔تعلیم کے میدان میں بہت سے چیلنج ہیں ،نظام تعلیم میں اصلاحات ہونی چاہئیں اور یہ اصلاحات انسانیت پرمبنی ہونی چاہئے۔نظام تعلیم میں بحران کے کئی پہلو ہیں ۔نظام تعلیم انسانی اقدار پر مبنی ہونا چاہئے۔
اس وقت پوری دنیا تعلیمی میدان میں بحران سے دوچار ہے،مگر ہندوستان میں ہم لوگ اس سے واقف نہیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ملک جس کی غیر معمولی تاریخ رہی ہے اور اس کے فلسفہ صدیوں پرمشتمل رہاہے ۔ تعلیمی پالیسی کو مرتب کرتے ہوئے ہم نے اپنی فلسفیانہ تاریخ کو بالکل نظرانداز کردیاہے۔ ہم نے صرف انسانی آئین ہی مرتب کرپائے ہیں جوتراش اور خراش اور ادھرادھرسے مستعارلیا گیا ہے اور ہماری فلسفیانہ اقدار کو اس کے فریم ورک میں کوئی جگہ نہیں ملی اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم ایسے تعلیمی مسائل کا سامنا کررہے ہیں،جواسی غیر فلسفانہ زوایہ سے پیدا ہوا ہے۔ہم کو ایسا لگتا ہے کہ تعلیم خالص عملی زندگی کا مسئلہ ہے ، ایک ایسا سوال ہے جو تعلیم کے مقاصد پر مبنی اور منحصر ہوتاہے۔وہ مقاصد جو ہمارے آج کے سماجی ، اقتصادی،سیاسی حالات کی وجہ سے معرض وجودمیں آئے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ ہردورکے حالات بالکل الگ ہوتے ہیں۔بعض اوقات تبدیلی کا جذبہ بہت زیادہ ہوتاہے۔ ہر ملک کے الگ حالات معلومات ہوتے ہیں ،اگر ہمارے ذریعہ اختیارکیاگیا رویہ درست ہوتا تو اس کی شاید ہی کوئی مقصد یا فلسفیانہ بساط ہوتی اور تعلیم کو صرف حالات، ماحول اور تکنیک کے مطابق اپنے اندر تبدیلی لانی ہوتی۔ انسان کا حالات کو بدلنے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتاتو ہائی ٹیکنیکل زندگی اور بہت تیزی سے بدلتے اور ترقی کرتے ہوئے سائنس نے نیوکلیئر ہتھیار بنایا۔یہ وہ حالات ہیں جو انسان کو بیٹھ کر سوچنے اور پوری دنیا کے ساتھ سوچنے کے لئے مجبور کررہے ہیں۔یہی لاتعلقی اور ایک دوسرے پرمنحصرہونے کا اصول اپنے ناکارہ پن نے ایسے حالات پیدا کرائے ہیں کہ آج مذہب امن وامان قائم کرنے میں ناکام ہے اور عوام میں ایک دوسرے کے تئیں رواداری اورافہام وتفہیم کاجذبہ پیدا ہورہا ہے۔ ڈکٹیٹرشپ کا عروج پانا،تصادم اور جنگجوئوں کے پھوٹ پڑنے کا اندیشہ نے ایسا ذہن بنادیاہے جس سے انسان کو اپنی ذہنی اور روحانی اثر کو ختم کرنے اور اقدار کے بحران اور مسائل کی طرف توجہ دینے کے لئے ہے اسے نظریاتی ماحول میں فلسفے پیدا ہوتے ہیں ۔ ان میں تبدیلی آتی ہے یا نظریات اوراصول ازسرنو ظہورپذیر ہوتے ہیں۔
میں آپ کی توجہ تعلیم کے میدان میں سماجی بحران کی طرف مبذول کرانا چاہتی ہوں۔کچھ شخصیات کو لگتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، مگروہ بالکل غیرمفید ہوجاتی ہیں ،وہ سماج کا حصہ نہ بن سکتے ہیں۔اس نظریہ کے مطابق فردمیں کچھ ایسی خصوصیات ہیں جوسماج میں بہت سے نام نہاد غیر سماجی علامات ہیں، جو انسان کی ذہنی ساخت ہیں تبدیل پیداکرتی ہیں، ان کو ختم کیا جانا چاہئے۔ ان کو اس لئے ختم نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ وہ غیر سماجی ہیں بلکہ اس لئے ختم ہونی چاہئیںکہ وہ فرد کی ترقی اور نشونما میں مانع ہیں۔وہ اس کا جُزلاینفک نہیں ہے بلکہ اس سے عوامی سطح پر خلل پیدا ہوتاہے ، کیونکہ ان کے پاس معلومات نہیں ہے۔فرد کی پوری شخصیت میں بے پناہ ہمدردی اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ ان کے اندر دوسرے کی مدد کرنے کا عزم اور خواہش علم سے ہی حاصل ہوتی ہے اور اس کے لئے مدد کرنے کا جذبہ مفاد پرستانہ جذبات سے عاری ہوتاہے۔ تعلیم کا مقصد فرد کو ان اوصاف سے آراستہ کرنا ہوتاہے جو سماج کی فلاح وبہبود سے کام کرنے کے لئے اس کو تیار کرتے ہیں۔ آزادی کی وہ خواہشیں جو سماج کی بہترطریقہ کے خدمت کرنے کی آزادی نہیں چاہتی ایک فرسودجبلت ہے اور اس پرقابو پایا جانا چاہئے۔ صدیوں سے انسانیت کے مستقبل مسئلہ کے مناسب حل پر مبنی رہاہے۔ہم ہندوستانی اس قدرمصروف ہیں کہ ان چیزوں کے بارے میں سوچتے ہی نہیں ہیں۔ہم بڑی بے باکی کے ساتھ نئی تعلیمی پالیسی اور ہماری اعلیٰ تعلیم کے تنگ شاہراہ تعلیمی میدان میں ہماری اصلاحات کا نظریہ اقتصادی مسائل اور بے روزگاری کے گرد گھومتا ہے۔ مگر ہم کچھ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ تکنیک کا مسئلہ ہے، اس مسئلہ کے معمولی پہلو کو بھی نہیں چھوتاہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ان مسائل کے حل میں کوئی تعاون نہیں دے رہے ہیں۔ شاید اپنے مسائل کا حل ہم دوسروں سے حاصل کرنے پرمجبور ہوتے ہیں۔
مدتوں سے فرد ایک ہاری ہوئی جنگ لڑتا آرہاہے، بڑی تعداد میں اشیاء کی پیدا وارکی وجہ سے فرد محض ایک آلہ کار بن کر رہ گیاہے۔ وہ خالق نہیں رہاہے وہ کچھ تخلیق نہیں کررہاہے اور محض ایک روبوٹ بن کر رہ گیاہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ فرد کوسماج میں مادی خوشحالی مل گئی ہے ، مگر اس کو یہ خوشحالی بانٹنے کی آزادی سے محروم کردیاگیاہے۔ اس کی زندگی کا لطف صرف اتنا رہ گیا ہے کہ وہ ایک آراستہ فلیٹ حاصل کرلے۔عوام کی خواہش کیا ہے جس کو اس لئے ہر چیز قربان کردینی چاہئے ، یہ عوامی خواہش صرف چند اعلیٰ طبقہ کے لوگوں کی خواہش کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، جن کے پاس تمام اختیارات ہیں۔ اس کو اتنی بھی آزادی نہیں ہے کہ وہ اپنی ثقافتی زندگی پر اپنی عبور حاصل کرلے۔ وہ جو کتابیں پڑھتا،ڈرامہ دیکھتاہے اور جس موسیقی سے وہ محظوظ ہوتاہے سب کو دوسرے منتخب کرتے ہیں۔ عام شخص کے پاس یہ متبادل نہیں ہوتا کہ وہ آقائوں سے اظہار ناپسندیدگی اور اپنی پسند کی موسیقی بنائے یا اپنے تخلیق اور پسند کی چیز کی سرپرستی کرے یا اس کو فروغ دے۔
کسی بھی ایشوپرمکمل طور پر اتفاق رائے ممکن نہیں ہے۔ افکار اور خیالات کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کے باوجود مکمل اتفاق رائے حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔مگر اس کے باوجود اس مشقوں کا مقصد ایسے شہریوں کوجمع کرنے اور گروہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ، جو ایک جیسا سوچیں، ایک جیسا محسوس کریں اور ایک جیسی چیزوں سے نفرت کریں۔ایسے سماج کی تعمیر ہونی چاہئے جو حق پر ہو ،اس کی زندگی عدم تشدد پر مبنی ہو اور اس کی زندگی کامقصد سماج میں دولت کا جمع کرنا نہ ہو بلکہ جذبہ ایثار اور قربانی کو فروغ دینا ہو۔ہماری توجہ ملے جلے نتائج پر مبنی ہونا چاہئے۔جیسا کہ آج ہندوستان میں بے روزگار کی صورتحال ہے ۔یہ صورتحال ایک مکمل شخصیت نہیں بلکہ اس کو ایک چوچوکا مربہ بنا دے۔روزمرہ کی روٹی کے تعاقب سے پیدا ہونے والا یہ کلچر بھیڑیو کی ثقافت کو پیداکرے گا۔
زندگی کی تعمیر کرانے والے عناصر کا از سرنوجائزہ اور ان کی ازسرنواختراع کی ضرورت ہے۔نظام تعلیم کی ایسے لوگوں کو نگرانی کرنے چاہئے جو ڈسپلن ہوں اور ایسے لوگ ہوں جن پر اعتماد کیا جاسکے۔ تعلیم کا مقصد ہرفرد کو شعور سے آراستہ کرنا اور ان تمام رکاوٹوں کو دورکرنا ہے جو اس (عظیم)مقصد کے حصول میں آڑے آ رہی ہوں۔سماج کی بنیادایسے اصولوں پررکھی جانی چاہئے جن کے مقاصد کو حاصل کرنے کے ذرائع کیا ہوں اس پراختلاف ہوسکتاہے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے تعلیم کے نصاب ،نظام اور تعلیمی پالیسی کی شروعات ہوتی ہے۔
تعلیمی پالیسی کے معاملہ میں کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا ہے کہ اس کے خیالات حرف آخر ہیں ۔اس معاملہ میں تبادلہ خیال اور تجربات کرنے کی بہت گنجائش ہے۔ سماجی نفسیات ہم کو بتاتی ہے کہ افراد کو بڑی تعداد میں کنٹرول کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان کو فوجیوں کی طرح ڈرل (مشق)کرائی جائے۔ان کے اندر کے احساسات کو بیدار کیا جائے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کیاجائے کہ وہ کہیں ابتدائی دور کے مخلوق نہ بن جائیں ، لہٰذا ان کی ذہنی تربیت کی جائے تاکہ ان کے ایک طرح کی خیالات وضع ہوجائیں۔وہ ایک جیسا ہی سوچیں اور ایک جیسا ہی محسوس کریں ۔مشوروں اور تجاویز پران کا ردعمل ارباب اقتدار اور سرپرستوں کے(مزاج)مطابق ہی سامنے آنا چاہئے۔ ماہرین تعلیم اور وہ افراد جو تعلیم کے موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں ان کو غیر مبہم اور صاف صاف قدم اٹھانے ہی ہوں گے۔یہاں ایسا نہیں ہیں کہ ہم تفصیلات میں الجھے رہیںکہ اسکول جانے اور نکلنے کی عمرکو بڑھایا جائے اور کچھ مضامین کو نصاب میںشامل کرایاجائے۔ تعلیم کا پورا مقصد ہی طے کرنا ہوگا اور یہ مقصد سماج کے پس منظر کو دھیان رکھتے ہوئے ہی طے کرنا ہوگا،جہاں پر اس تعلیم یافتہ شخص کو زندگی بسر کرنی ہے ، ہم کسی طرح کا سماج وضع کرنا چاہتے ہیں اور مستقبل میں فرد کسی طرح کا ہوگا ،وہ کیسا ہونا چاہئے ،فرد کا سماج کے ساتھ کیا رشتہ ہے،یہ وہ سوالات ہیں جو بنیادی سماجی اہمیت کے حامل ہیں اور ان سوالوں کا جواب فلسفیانہ نقطہ نظرسے تلاش کیا جاناچاہئے۔میرے خیال میں اس کا صرف ایک ہی صحیح جواب ہے ، ایک ہی چابی سے وہ دروازہ کھلتا ہے وہ چابی جس سے تمام دروازے کھل جائیں اس معاملہ میں فرد کو آگے آنا ہوگا۔٭٭

(مضمون نگارمنتظم،ماہرتعلیم،قلمکار،اداکارہیں اورپرنسپل ایم وی ڈی ایم، امراوتی مہاراشٹرہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS