عبدالماجد نظامی
10 نومبر 2025 کی شام دہلی کی فضا اچانک ایک زوردار دھماکے سے لرز اٹھی۔ تاریخی لال قلعہ کے قریب شام تقریباً 6 بج کر 52 منٹ پر ایک سفید رنگ کی ہنڈائی i20 کار دھماکے سے تباہ ہو گئی۔ لمحوں میں ہر طرف چیخ و پکار، دھواں، اور افراتفری پھیل گئی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق 13افراد جاں بحق اور دو درجن کے قریب زخمی ہوئے، جب کہ درجنوں گاڑیاں اور دکانیں نقصان کا شکار ہوئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ اتنا شدید تھا کہ قلعے کے اطراف کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور سڑک پر آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔ فوراً بعد پولیس، فائر بریگیڈ، اور بم ڈسپوزل اسکواڈ موقع پر پہنچے، علاقے کو سیل کیا گیا، اور دہلی بھر میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا گیا۔ وزیرِ داخلہ اور وزیرِاعلیٰ نے واقعے کو منظم دہشت گردی قرار دیتے ہوئے تحقیقات نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے حوالے کر دیں۔
ابتدائی تحقیقات سے یہ انکشاف ہوا کہ کار میں نصب دھماکہ خیز مواد امپرووائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس تھا جو جدید ٹائمر اور موبائل سگنل سے منسلک نظام کے ذریعے پھٹا۔ رپورٹوں کے مطابق، کار صبح سے ہی لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب پارک تھی۔ کچھ سی سی ٹی وی فوٹیجز میں دو نوجوانوں کو کار کے قریب دیکھا گیا، تاہم ان کی شناخت ابھی تک حتمی طور پر نہیں ہو سکی۔ ایک فارنزک رپورٹ کے مطابق دھماکے میں امونیئم نائٹریٹ اور آر ڈی ایکس کا مرکب استعمال ہوا، وہی مواد جو اس سے قبل ممبئی اور مالیگاؤں دھماکوں میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔ واقعے کی حساسیت کے پیشِ نظر دہلی پولیس کی اسپیشل سیل، این آئی اے، اور انٹیلی جنس بیورو نے مشترکہ انویسٹی گیشن شروع کی۔ متعدد شواہد اکٹھے کیے گئے، اور علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کی جانچ جاری ہے۔
تحقیقات کے دوران پولیس نے پانچ افراد کو حراست میں لیا جن میں تین افراد فریدآباد کی الفلاح یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز شامل ہیں۔ مرکزی ملزم کے طور پر ایک شخص ڈاکٹر عمر محمد کو نامزد کیا گیا ہے، جب کہ دو دیگر نوجوانوں، ڈاکٹر موسیٰ اور ڈاکٹر حذیفہ، سے تفتیش جاری ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان افراد کا تعلق ایک منظم نیٹ ورک سے ہے جو کئی ماہ سے اس کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ تاہم انسانی حقوق تنظیموں اور سول سوسائٹی نے ان گرفتاریوں پر سوال اٹھائے ہیں کہ کیا واقعی ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہیں؟ کئی ماہرینِ قانون نے بھی اس پر تنقید کی ہے کہ پوری تحقیق مکمل ہونے سے پہلے گرفتاریوں کو دہشت گردانہ نیٹ ورک قرار دینا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔
لال قلعہ جیسے تاریخی اور حساس مقام کے عین سامنے ایسا واقعہ رونما ہونا اس بات کی علامت ہے کہ سکیورٹی انفراسٹرکچر میں سنگین خامیاں موجود ہیں۔ یہ وہی مقام ہے جہاں 15اگست کو وزیراعظم بھارت قوم سے خطاب کرتے ہیں، جہاں ہر وقت سخت حفاظتی پہرہ ہوتا ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک مشکوک کار پورا دن اس مقام پر پارک کیسے رہی؟ سی سی ٹی وی نگرانی کے باوجود کوئی فوری ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟ خفیہ ایجنسیوں کو کوئی پیشگی اطلاع کیوں نہ ملی؟ یہ سوالات نہ صرف دہلی پولیس بلکہ مرکزی حکومت کی داخلی سلامتی پالیسی پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔
اس واقعے نے ایک بار پھر ہندوستانی عدالتی اور تحقیقاتی نظام پر وہی پرانے زخم تازہ کر دیے ہیں جہاں اکثر بے گناہ مسلمان نوجوانوں کو بغیر ثبوت کے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پچھلے بیس برسوں میں کئی ایسے کیسز ہوئے جہاں برسوں قید کاٹنے کے بعد عدالتوں نے ملزمان کو باعزت بری کیا۔ 9/11ممبئی ٹرین دھماکہ کیس میں 12 مسلمان 18 سال بعد بے گناہ ثابت ہوئے۔ مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں ۷ افراد ۱۷ سال بعد رہا ہوئے۔ مکہ مسجد اور حیدرآباد دھماکہ کیس میں تمام مسلمان ملزمان بے قصور ثابت ہوئے۔ ایسے مقدمات میں ملزمان کے خاندان سماج سے کٹ جاتے ہیں، روزگار ختم ہو جاتا ہے، اور بریت کے باوجود زندگی کی ساکھ بحال نہیں ہوتی۔ لال قلعہ کیس میں بھی اگر تفتیش منصفانہ نہ ہوئی، تو خطرہ ہے کہ تاریخ ایک اور ناانصافی کو دہرا سکتی ہے۔
اس تفتیش کے دوران کئی قانونی اور اخلاقی سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ کیا گرفتار شدگان کے خلاف کوئی فورنزک شواہد عدالت میں پیش کیے گئے؟ کیا ملزمان سے تشدد یا دباؤ کے تحت اعترافی بیانات لیے گئے؟ کیا انہیں وکیل سے ملاقات اور قانونی مدد کے مساوی مواقع دیے گئے؟ کیا تفتیش کے دوران سیاسی دباؤ یا میڈیا ٹرائل نے اثر ڈالا؟ اور کیا موقعِ واردات کی مکمل جانچ کسی آزاد ٹیم سے کرائی گئی؟ یہ سوالات نہ صرف تفتیش کی شفافیت کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ پورے انصاف کے نظام کو آئینہ دکھاتے ہیں۔
یہ واقعہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہمارا عدالتی و تفتیشی نظام اب بھی فرسودہ اور غیر سائنسی ہے۔ اصلاحات کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ سائنسی شواہد پر مبنی تفتیش کو فروغ دیا جائے، فورنزک، ڈیجیٹل ڈیٹا، اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو ترجیح دی جائے۔ پولیس اور تحقیقاتی اداروں کو سیاسی اثر سے آزاد کیا جائے تاکہ وہ غیر جانبداری سے تحقیقات کر سکیں۔ عدالتی نگرانی کا نظام قائم کیا جائے تاکہ کسی بھی زیادتی یا غلطی کی بروقت اصلاح ہو سکے۔ تفتیشی عملے کو انسانی حقوق، قانون، اور جدید تحقیقات کے اصولوں پر تربیت دی جائے، جب کہ تفتیشی رپورٹ عوامی سطح پر شائع کرنے کا نظام بنایا جائے تاکہ عوامی اعتماد بحال ہو۔ اگر کسی گرفتار فرد کے خلاف ثبوت ناکافی ہوں تو اسے فوراً رہا کیا جائے اور اسے مالی و سماجی معاوضہ فراہم کیا جائے۔
یہ وقت صرف شکایت کا نہیں بلکہ اجتماعی شعور اور جدوجہد کا ہے۔ مسلمانوں کو اس چیلنج سے نکلنے کے لیے اپنے اندر بیداری اور تنظیم پیدا کرنی ہوگی۔ قانونی تعلیم اور حقوق کا شعور عام کیا جائے، قابلِ اعتبار وکیلوں سے مستقل تعلق رکھا جائے، اور میڈیا میں مثبت نمائندگی کے ذریعے اپنا مؤقف دلیل کے ساتھ پیش کیا جائے۔ تعلیم اور روزگار پر توجہ دی جائے تاکہ کمزوری کو طاقت میں بدلا جا سکے۔ سماجی یکجہتی کو فروغ دیا جائے، مساجد، تنظیموں، اور تعلیمی اداروں کو اجتماعی قوت میں تبدیل کیا جائے۔ لال قلعہ بم دھماکہ محض ایک دہشت گردانہ واقعہ نہیں بلکہ ہمارے انصاف کے نظام، سکیورٹی ڈھانچے اور اجتماعی ضمیر کے امتحان کا موقع ہے۔ اگر اس واقعے کی تفتیش غیر جانبدارانہ، شفاف اور سائنسی بنیادوں پر نہیں کی گئی، تو نہ صرف بے گناہوں کی زندگی تباہ ہوگی بلکہ پورے معاشرے کا اعتماد بھی متزلزل ہو جائے گا۔ حکومت، عدلیہ اور عوام — تینوں کو مل کر انصاف کی بنیاد پر ایک نئے اعتماد کی تعمیر کرنی ہوگی، کیونکہ قومیں صرف بموں سے نہیں، ناانصافی سے ٹوٹتی ہیں۔ جب انصاف کمزور پڑ جائے تو امن خود بم بن جاتا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
editor. nizami@gmail.com






