اسرائیل کے ساتھ مصالحت اب سعودی عرب کی ترجیح نہیں : ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

صہیونی ریاست اور اس کی فوج و صہیونی آبادکاروں کے ذریعہ مسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی اور تشدد پسند صہیونی عناصر کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل و ضرب اور ان کی شب و روز تذلیل کے واقعات سے مجبور ہوکر جب حماس اور الجہاد الاسلامی کے مسلح جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا، اس وقت ان کے پلان میں شاید ہی یہ پہلو شامل رہا ہوگا کہ امریکہ کی نگرانی میں جاری سعودی عرب۔اسرائیل مصالحت کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے۔ لیکن حماس کے حملہ کے ردعمل میں اسرائیل نے غزہ میں واقعہ کربلا سے بھی زیادہ سنگین جو صورتحال پیدا کی ہے اور تمام انسانی قدروں اور عالمی قوانین کی جو تضحیک کی ہے اس کے نتیجہ میں یہ ضرور ہوگیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا سب سے اہم ملک اور مسلم دنیا کے لئے اسلامی عزت و عظمت کا مرکز سعودی عرب نے باضابطہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مصالحت کی گفتگو کو موخر کر رہا ہے۔ اس خبر کو سب سے پہلے رائٹرز نے دو موثوق ذرائع کے حوالے سے شائع کیا تھا اور بعد میں ’الجزیرہ‘ عربی نے بھی انہی حوالوں کے سہارے اس خبر کو شائع کیا ہے۔ اس خبر کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ ایران کے اشارہ پر حماس نے اسرائیل پر یہ حملہ کیا تھا تاکہ اسرائیل کے ساتھ مصالحت کے لئے سعودی عرب کی طرف سے جاری بات چیت کو پٹری سے اتار دیا جائے، جیسا کہ بالکل آغاز میں امریکی میڈیا میں اس پر اٹکلیں شروع ہوگئی تھیں۔ ایران کی اعلیٰ ترین قیادت نے بھی حماس کے حملہ کی تعریف ضرور کی، لیکن اس بات سے واضح طور پر انکار کیا کہ اس کے بارے میں انہیں کوئی جانکاری تھی۔ بہر کیف سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ مصالحت کے مسئلہ پر اپنے موقف میں جو تبدیلی کی ہے اس پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ رائٹرز نے اپنے دونوں ذرائع کے حوالے سے یہ خبر دی ہے کہ سعودی عرب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مصالحت کے پلان کو وہ روک دے گا، کیونکہ غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت و بربریت کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات پر دوبارہ سے غور و فکر کرنے کی کوشش کرے گا۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان حالات میں از سر نو ڈھنگ سے بات چیت کا سلسلہ ابھی شروع نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اب اس بات چیت کے سلسلہ کا آغازاس پر منحصرہوگا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کی طرف سے کیا تنازلات اور مراعات ملتی ہیں۔ سعودی عرب کے موقف میں آئی اس سختی اور فلسطین کے مسئلہ پر خارجہ پالیسی کی جہت طے کرنے میں نظر آنے والی فکری وضاحت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ گزشتہ ہفتہ جب امریکہ نے سعودی عرب پر یہ دباؤ ڈالا تھا کہ وہ حماس کی مذمت کرے تو سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اس امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے حماس کی مذمت سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا مطلب سعودی عرب کی قیادت نے امریکہ کی نگرانی میں اسرائیل کے ساتھ جاری مصالحت کی بات چیت کو دفاع، ٹیکنالوجی اور سیاحت کے میدان میں اپنے ملک کو ملنے والے فوائد کو دھیان میں رکھ کر شروع ضرور کیا تھا، لیکن فلسطینی عوام کے حقوق کی پامالی کے بدلہ میں اس مصالحت کو قبول کرنا کبھی اس کو منظور نہیں تھا۔ اس تناظر میں سعودی عرب کے تجزیہ نگار عزیز الغشیان کی رائے اگر پیش کر دی جائے تو اس پہلو کو سمجھنا تھوڑا آسان ہوجائے گا۔ الغشیان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مصالحت کا معاملہ پورے عالم عربی میں شجر ممنوعہ تو ہوا ہی کرتا تھا۔ اس جنگ نے بس اس کو آشکار کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ الغشیان عالم عربی میں عوام کے اس جوش و جذبہ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو فلسطین کے تئیں ان دنوں دوبارہ سے ابھر آیا ہے اور اس کا اثر یہاں کی قیادتوں کے فیصلوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ اس سلسلہ میں جب امریکہ کا ردعمل جاننے کی کوشش کی گئی تو امریکی نیشنل سیکورٹی کے مشیر جاک سولیوان نے اس ہفتہ وہائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں بتایا کہ مصالحت کی کوششیں موخر نہیں کی گئی ہیں بلکہ اس وقت ساری توجہ حالیہ چیلنجز پر مرکوز رکھی گئی ہے۔ اس سے صاف اشارہ ملتا ہے کہ سعودی اور اسرائیل مصالحت کے معاملہ میں اب سب کچھ ویسا نہیں رہا جیسا کچھ ہفتے قبل تک تھا اور اسرائیل ایک ہفتہ سے اہل غزہ پر جو مظالم ڈھا رہا ہے اس کی وجہ سے مستقبل قریب میں اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت بھی نہیں ہو پائے گی۔ اس اعتبار سے فلسطین کی تحریکات مقاومت کی یہ بڑی فتح ہے کہ انہوں نے اسرائیل کی بدنیتی اور فلسطینیوں کے تئیں ان کی نفرت کی شدت کو دنیا کے سامنے آشکار کر دیا۔
حماس کے حملہ کے ردعمل میں غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری اور اس سے پیدا ہونے والے انسانی بحران نے مشرق وسطیٰ کے نقشہ کو ہمیشہ کے لئے بدل دیا ہے اور اس خطہ میں آئندہ بڑی تبدیلیاں رونما ہونے کے آثار نظر آ نے لگے ہیں۔ سردست اس جہت میں ایک بڑی اور مثبت تبدیلی یہ آئی ہے کہ اسی برس کے مارچ و اپریل مہینے میں چین کی ثالثی کی بدولت ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ غزہ پر بمباری کے نتیجہ میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے فون پر بات چیت کی ہے۔ اس بات چیت کے بعد سعودی عرب کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ولی عہد نے رئیسی کو بتایا کہ سعودی عرب پوری کوشش کر رہا ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اور خطہ کے لیڈران سے بات چیت کرکے اس معاملہ کو مزید بڑھنے سے روکیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب اس بحران کو روکنے کے لئے اپنی کوششیں تیز سے تیز تر کئے ہوئے ہے۔ اس بیان میں مزید تفصیلات تو پیش نہیں کی گئی ہیں، لیکن اس بات پر زور ضرور دیا گیا ہے کہ شہریوں کو نشانہ نہ بنایا جائے اور معصوموں کو قتل نہ کیا جائے، کیونکہ یہ ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ساتھ ہی ایک بار پھر سعودی عرب نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا دفاع اس کی پالیسیوں کا لازمی عنصر ہے اور اس میں کسی قسم کی کمزوری پیدا نہیں ہوئی ہے۔ ایران کی جانب سے بھی اس بات چیت کی توثیق ہوئی ہے اور ایک بڑے ایرانی ذمہ دار کے حوالہ سے رائٹرز نے بتایا ہے کہ ولی عہد سے رئیسی کی بات چیت کا مقصد یہ تھا کہ فلسطین کی تائید کی جائے اور جنگ کو اس خطہ میں پھیلنے سے روکا جائے۔
یہ تبدیلیاں اس خطہ کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گی اگر سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی جڑیں گہری ہوجاتی ہیں تو اس سے عالم اسلام کو بہت فائدہ ہوگا۔ بتادیں کہ یہ دونوں ممالک اس خطہ کی اہم ترین قوتیں ہیں اور ان کے درمیان موجود رقابت کی وجہ سے ہی بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور امریکی و اسرائیلی کے مقاصد کی تکمیل ان کی رقابتوں کی وجہ سے معاون ثابت ہوتی ہیں۔ فکر اور عقیدہ کی سطح پر موجود اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اگر یہ دونوں ممالک ساتھ آتے ہیں اور فلسطین سمیت اس خطہ کے دیگر مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی سے کام لیتے ہیں تو ان کی ساکھ نہ صرف اسلامی دنیا میں بہت بڑھ جائے گی بلکہ عالمی قوتیں بھی انہیں نظر انداز نہیں کر پائیں گی اور اسرائیل کی من مانی اور جارحیت کا خاتمہ ہوجائے گا، جس کے نتیجہ میں فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی کی راہیں آسان ہو جائیں گی۔ فلسطین کا مسئلہ اس خطہ کے ممالک ہی حل کر سکتے ہیں، کیونکہ امریکی قیادت والا مغرب کا ٹولہ کئی بار یہ ثابت کر چکا ہے کہ ان میں انصاف اور غیر جانب داری کی کوئی رمق نہیں پائی جاتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جن عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ مصالحت کے معاہدہ پر دستخط کر لیا ہے کیا وہ بھی اس معاہدہ سے باہر آنے کا اعلان کرپائیں گے؟ بظاہر اس کا امکان تو نظر نہیں آ رہا ہے، لیکن اگر ایسا ہوپائے تو اسرائیل کو مجبورا اپنی پالیسیاں بدلنی ہوں گی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، کیونکہ حماس کے حملہ نے اسرائیل کی دھاک ختم کر دی ہے اور اب یہ باتیں عرب لیڈران کہنے لگے ہیں کہ اسرائیل ناقابل شکست نہیں رہا جیسا کہ مراقش کے سابق وزیر اعظم بن کیران نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایسی آوازیں اب تیز ہوں گی اور اسرائیل کا خوف دلوں سے نکلے گا، جس کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کو حل کرنا آسان ہوگا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS