لاپروائی اور پروپیگنڈا مہم

0

یوکرین پر روسی یلغارکا آج نواں دن ہے۔ برفانی ریچھ پوری طاقت کے ساتھ یوکرین کو روندتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یوکرین کے نیوکلیائی پاور پلانٹ بھی اس کی زد پر ہیں اور یہ دھمکی بھی مل چکی ہے کہ نیوکلیائی جنگ سے بھی گریز نہیں کیاجائے گا۔ اس جنگ نے پورے یوروپ کو بارود کے ڈھیر پر لاکھڑا کیا ہے۔ ان سب کے باوجود اقوام متحدہ اب تک زبانی مذمت اور یوکرین کی اخلاقی حمایت سے آگے نہیں بڑھ پائی ہے۔ یہ جنگ نہ وقتی اشتعال کا نتیجہ ہے اور نہ ہی اس نے کسی حادثہ کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کی داغ بیل اسی وقت پڑ گئی تھی جب سوویت یونین ٹوٹ کر ٹکروں میں بکھرا۔امریکہ کی توسیع پسندی اور ناٹو کے جارحانہ عزائم نے اس جنگ کی بنیاد کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ناٹو کو تحلیل کردیا جاتا کیونکہ سوویت یونین کی سرخ آندھی کو پیوند خاک بنانے کیلئے ہی یہ فوجی اتحاد قائم کیاگیا تھا۔ سوویت یونین کو منہدم کردیاگیا، روسی معیشت زوال کا شکار ہوگئی اور روس اپنے گھٹنوں پرگر چکایعنی ناٹو اتحاد نے اپنا مقصد حاصل کرلیا تو اسے تحلیل کردیاجاناچاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیاگیا، اس کے برخلاف مغربی سامراج نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی منڈیوں اور اثر و رسوخ کے دائروں کو مشرق کی طرف پھیلانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ ناٹو اس حکمت عملی کا کلیدی حصہ رہا اور اب روس سے الگ ہونے والا یوکرین بھی اسی ناٹو اتحاد میں شامل ہونے کا امیدوار ہے۔ اگر یوکرین،ناٹو کا حصہ بن جاتا ہے تو روس چاروں جانب سے مغربی افواج سے گھر جائے گا۔ روس، ناٹو اورا مریکہ کی اس پالیسی کو اچھی طرح سمجھ کر ہی اپنی تیاریاں کرتا رہا اور آج وہ اس مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں وہ انہدام سے قبل تھا۔ روس یوکرین کی سرحد پرمہینوںپہلے فوجیں جمع کر کے ناٹو کی روس کو گھیرے میں لا کر تنہا کرنے کی پالیسی کوختم کرنے کا ناقوس پھونک چکا تھاپوری دنیا جنگ کے یقینی خدشات سے مہینوں پہلے آگاہ ہوگئی تھی۔
یہ وہ پس منظر ہے جس میں روس- یوکرین جنگ ہورہی ہے اور جس کے تیسری عالم گیر جنگ میں بدلنے کابھی سنگین خدشہ ہے۔ ہرمتوازن اورا من پسند اس جنگ کے خاتمہ اوراس کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کی ترکیب کررہاہے۔مختلف ممالک جنگ شروع ہونے سے قبل ہی اپنے اپنے شہریوں کا انخلا کراچکے ہیں۔ اس کے برخلاف ہندوستان نہ صرف اپنے شہریوں کو واپس لانے میںتاخیر کا شکار رہا بلکہ اب جنگ سے انتخابی فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔یوکرین میں تقریباً 20 ہزار ہندوستانی طلبا مختلف شہروں میں زیر تعلیم تھے جنہیں جنگ شروع ہونے سے قبل حکومت، ہندوستان واپس لانے کی ذمہ داری پوری نہیں کرسکی۔حالات کی سنگینی اور جنگ کی خوفناکی خود اس بات کا تقاضاکرتی ہے کہ ہندوستان کی پہلی ترجیح اپنے طلبا اور شہریوں کی محفوظ واپسی ہونی چاہیے لیکن ایسانہیں ہے، اس معاملہ میں وہی لاپروائی دیکھی جارہی ہے جو کورونا وائرس کا پھیلائو روکنے میں کی گئی۔کوروناکی دوسری لہر کے وقت انتخابات سر پر تھے، اس بار بھی ویسی ہی صورتحال ہے۔ یوکرین میں حالات بیان سے باہر ہیں۔ یوکرین میں پھنسے ہوئے ہندوستانی طالب علموں کی تصاویر منظرعام پر آنے سے نہ صرف ان کے والدین بلکہ پورا ملک پریشان ہے۔ یوکرین میں پھنسے ہوئے ہندوستانی طلبا کھانے پینے کیلئے ترس رہے ہیں، انہیں مدد ملنے کے بجائے ان پر لاٹھیاں برسائی جارہی ہیں، مقامی پولیس اور فوج کی طرف سے گولی مارنے کی مسلسل دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ طلبا کی فون کالز اور ویڈیوز میں مدد کیلئے کی جا رہی درخواستیں بتا رہی ہیں کہ ہندوستان حکومت یا تو حالات کی سنگینی سے ناواقف رہی ہے یا پھر قصداً اسے نظر انداز کیاگیا ہے۔
اس وقت چار مرکزی وزرا کوخصوصی سفیر بناکر طلبا کی محفوظ واپسی کے کام پر لگایاگیاہے۔طلبا کے انخلا کیلئے بھیجے جانے والے یہ خصوصی سفیر اپنے کام سے زیادہ تصویریں کھنچوانے اور ویڈیو بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور کامیابی کا سہرا سجانے کو اتنے بے چین کہ دوسرے ملکوں کے وفود سے ان کا جھگڑا بھی ہورہاہے۔ طیاروں کی پرواز بھی اس وقت تک نہیں شروع ہورہی ہے جب تک کہ یہ وزیر تالیاں بجوا کر ویڈیو نہ بنوالیں۔ دوسری طرف اندرون ملک بھی یوکرین میں پھنسے ہوئے ہندوستانی شہریوں اور طلبا کو واپس لانے کے نام پر ایسی سیاست ہورہی ہے جس کا کوئی بھی معقولیت پسند تصور نہیں کرسکتا ہے۔
اب بھی وقت ہے حکومت انتخابی اور وقتی فائدہ کے محدوددائرہ سے باہر نکل کر یوکرین میں پھنسے ہوئے اور وہاں سے واپس لوٹنے والے طلبا کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کرے۔ بغیر کسی پروپیگنڈے کے ان طلبا کی محفوظ واپسی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ یہاں ہندوستان میں ان کے آگے کی تعلیم کا منصوبہ بنائے تاکہ ان کی پڑھائی کا تسلسل برقرار رہ سکے اوران کا مستقبل غیر یقینی نہ ہو۔ورنہ یہ پروپیگنڈا مہم اور لاپروائی طلبا کیلئے خطرناک تو ہوگی ہی ملک بھی عرصہ تک اس کے مضر اثرات سے نہیں نکل پائے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS