عبدالعزیز
راجستھان مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی ہار ایک عجوبہ قسم کی کہی جاسکتی ہے۔ ریاستوں کا سیاسی ماحول کچھ تھا اور رزلٹ بالکل برعکس آیا۔ سارے تجزیے اور سروے کچھ بتا رہے تھے اور نتیجہ کچھ اور ہی سامنے آیا۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی جیت یقینی بتائی جارہی تھی۔ چھتیس گڑھ کے سابق وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل اپنی ریاست کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ بی جے پی میں کوئی لیڈر ہی نظر نہیں آرہا تھا۔ سابق وزیراعلیٰ رمن سنگھ کی جگہ نریندر مودی کا چہرہ تھا جو بگھیل کے مقابلے میں پیش کیا جارہا تھا۔ مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کو کنارے لگا دیا گیا تھا، وہاں بھی نریندر مودی کا چہرہ دکھایا جارہا تھا۔ کانگریس کمل ناتھ کے چہرے پر الیکشن لڑ رہی تھی۔ یہی حال راجستھان کا تھا۔ راجستھان میں کہا جارہا تھا کہ کانگریس اور بی جے پی میں کانٹے کی ٹکر ہے۔ کوئی بھی پارٹی جیت سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہی جارہی تھی کہ راجستھان میں اشوک گہلوت کے منصوبے بہت ہی مقبول ہیں۔ اشوک گہلوت اور نریندر مودی میں راست مقابلہ تھا۔ آخر کیا وجہ تھی کہ کانگریس کو بی جے پی یا مودی نے بری طرح شکست فاش دی اور کانگریس دیکھتی رہ گئی۔
پہلی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ جن تین ریاستوں میں کانگریس کی کراری ہار ہوئی، اس میں راہل گاندھی یا ہائی کمان کے مشورے کو نظرانداز کیا گیا۔ کرناٹک یا تلنگانہ کی طرز پر مرکز کے مشورے کے باوجود عمل نہیں کیا گیا۔ کرناٹک میں یا تلنگانہ میں سروے کے مطابق امیدوار کھڑے کیے گئے تھے۔ سروے میں جن کو دکھایا گیا کہ فلاں فلاں حلقے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، انہی کو ٹکٹ دیا گیا۔ جبکہ تینوں ریاستوں میں ریاستی قیادتوں نے سروے کو نظرانداز کیا۔ کمل ناتھ، بگھیل اور گہلوت نے اوور کانفیڈنس (زیادہ اعتماد اور خوش فہمی) کا مظاہرہ کیا اور اپنی مرضی کے امیدوار کھڑے کیے۔ جیوتی رادتیہ سندھیا کے کانگریس سے باہر ہونے کے لیے کمل ناتھ کو ہی ذمہ دار مانا جارہا ہے۔ درازیٔ عمر کے باوجود گاندھی پریوار کی وفاداری سے کمل ناتھ پارٹی میں مختار کل بنے رہے۔ کہا یہی جارہا ہے کہ جیوتی رادتیہ سندھیا کو کمل ناتھ اور دگ وجے سنگھ نے کانگریس میں ٹکنے نہیں دیا، جس کی وجہ سے سابقہ حکومت سے جیت کے باوجود کانگریس اقتدار سے محروم ہوگئی اور مرکز تماشائی بنا رہا۔ الیکشن میں کمل ناتھ کی سخت ہندوتو والی حکمت عملی مضر ثابت ہوئی۔ بابا باگھیشور کے سامنے کمل ناتھ سرنگوں ہوئے۔ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ سے بھی بے رخی برتی۔ بھوپال میں انڈیا اتحاد کا اجلاس کمل ناتھ کی ضد کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کے ساتھ کمل ناتھ کی بے اعتنائی بھی جگ ظاہر ہے۔ اس وجہ سے اکھلیش یادو بیحد ناراض ہوئے اور کانگریس کے خلاف سخت قسم کا بیان دے دیا۔ 50سے زیادہ سیٹوں پر اکھلیش نے اپنے امیدوار کھڑے کردیے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے دس پندرہ سیٹوں پر کانگریس کا نقصان بھی ہوا۔ کمل ناتھ کا ہندوتو والا رنگ سیکولر لوگوں نے ناپسند کیا۔ کمل ناتھ کو بے جا اختیارات دینے سے مدھیہ پردیش میں بی جے پی کو سیاسی فائدہ حاصل ہوا اور بی جے پی کو شاندار جیت درج کرانے میں کامیابی ملی۔
راجستھان میں اشوک گہلوت پہلے ہی سے انانیت کے شکار تھے۔ وہ سچن پائلٹ کے معاملے میں ساری اخلاقی حدود توڑ چکے تھے۔ سچن پائلٹ کسی وجہ سے کانگریس سے باہر جاتے جاتے رہ گئے۔ مرکز نے مداخلت نہ کی ہوتی تو راجستھان میں کانگریس کو مزید شرمناک ہار کا سامنا کرنا پڑتا۔ بگھیل چھتیس گڑھ میں یقینا مقبول ترین لیڈر تھے مگر وہ بھی کمل ناتھ اور اشوک گہلوت کے نقش قدم پر چل رہے تھے جس کی وجہ سے کانگریس کو چھتیس گڑھ کی حکومت سے بھی محروم ہونا پڑا۔ راہل گاندھی کا مشورہ مذکورہ ریاستوں میں اگر مانا جاتا اور کرناٹک و تلنگانہ کی طرز پر کانگریس الیکشن لڑتی تو تینوں ریاستوں میں کانگریس کی جیت یقینی تھی۔
کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ بھی بی جے پی کے مقابلے میں کمزور تھا۔ خاص طور سے بوتھ مینجمنٹ بی جے پی کے مقابلے میں مضحکہ خیز تھا۔ کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے کامیاب صدر ثابت نہیں ہوئے۔ ورکنگ کمیٹی کی تشکیل میں بھی تاخیر سے کام لیا جس کی وجہ سے بہت دنوں تک کانگریس کنفیوژن کا شکار رہی۔ کانگریس کی ایک بہت بڑی کمزوری الیکشن میں ناکامی کے بعد پوسٹ مارٹم کا نظام بھی رسمی طور پر ہی ہوتا رہا۔ مثلاً یہ کہا جاتا رہا کہ الیکشن میں جو ناکامی ہوئی ہے، اس سے بہت کچھ سیکھا اور سمجھا جائے گا اور عوام کے حق میں کام کیا جائے گا۔ ووٹنگ فیصد میں اضافہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ سب کہا جاتا رہا لیکن جن عناصر کے ذریعے کانگریس ناکام ہوتی تھی، ان عناصر کو ہٹایا نہیں جاتا تھا۔راہل گاندھی، پرینکا گاندھی اور ملکارجن کھرگے نے انتخابی مہم میں غیر معمولی محنت کی مگر ان تینوں کی محنت پر چند اناپسند لیڈروں نے پانی پھیر دیا۔
رندیپ سرجے والا پہلے بڑھ چڑھ کر جائزے اور پوسٹ مارٹم کی بات کرتے تھے پھر ان کی جگہ جے رام رمیش نے لے لی۔ پنجاب، اتراکھنڈ، اترپردیش، گوا اور منی پور میں 2022 میں کانگریس کی کراری ہار ہوئی تو جے رام رمیش نے بآواز بلند کہا تھاکہ ’’پارٹی اپنا احتساب کرے گی۔ تنظیم کو پہلے سے چست اور مستعد بنانے کی کوشش کرے گی۔ مایوس ضرور ہیں مگر ہماری ہمت پست نہیں ہوئی ہے۔ ہم الیکشن ہارے ہیں مگر ہمت نہیں۔ ہم نئے حوصلے اور جذبے کے ساتھ واپس آئیں گے اور بہت کچھ تبدیلیاں لائیں گے۔‘‘ جے رام رمیش تاریخی باتیں بھی دہراتے رہے کہ کس طرح کانگریس نے20 سال پہلے شکست کھائی تھی پھر 2004 میں واپس آئی تھی۔ وہ یہ بھی کہتے ہیںکہ ’’تینوں ریاستوں میں ووٹ فیصد میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی 46.27فیصد، کانگریس 42.23فیصد۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی 48.55فیصد، کانگریس 40.44فیصد اور راجستھان میں بی جے پی 41.69فیصد، کانگریس 39.53فیصد کے فرق سے ہاری ہے۔‘‘
کانگریس کی ہار سے اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ میں بھی کمزوری ابھر کر سامنے آئی۔ محترمہ ممتا بنرجی نے حسب توقع کانگریس کی ہار کو کانگریس کے نقصان سے تعبیر کیا ہے اور کانگریس کی کمزوری بتاتے ہوئے اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘سے کنارہ کشی کا اشارہ دیا ہے اور اپنی سربراہی منوانے میں کانگریس کی کمزوری کو بہانہ بنایا ہے۔ یہ ممتا بنرجی کی عادت ہے کہ اتحاد کو انتشار میں اکثر وبیشتر بدلنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ اس کے برعکس بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی جو اپوزیشن اتحاد انڈیا میں نہیں ہیں، نے تینوں ریاستوں کے الیکشن کے رزلٹ کو عجوبہ بتایا ہے اور اسے جانچنے اور سمجھنے کی رائے پیش کی ہے۔ اس طرح انہوں نے اتحاد سے اپنے آپ کو قریب کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ حالانکہ الیکشن سے پہلے ان کے بیانات سے کانگریس کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
اگر صحیح طریقے سے تینوں ریاستوں کا جائزہ لیا جائے تو دیکھا یہ جائے گا کہ تلنگانہ میں جہاں راہل گاندھی اور نریندر مودی کا ایک دوسرے سے مقابلہ تھا، وہاں راہل گاندھی اپنی حکمت عملی اور پالیسی میں بیحد کامیاب رہے۔ ایک نئے اور نوجوان لیڈرمسٹر ریونت ریڈی کو کانگریس کا صدر مقرر کیا اور تلنگانہ کے الیکشن کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھی۔ مسٹر ریڈی غیر معمولی محنت سے انتخابی مہم چلاتے رہے اور راہل گاندھی کے مشورے کے مطابق کام کرتے رہے۔ تین ریاستوں میں نریندر مودی کا مقابلہ راہل گاندھی سے نہیں تھا بلکہ اشوک گہلوت، کمل ناتھ اور بھوپیش بگھیل سے تھا۔ حقیقت میں یہ تینوں لیڈران مودی کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ راہل گاندھی کی قیادت کمزور نہیں ہوئی ہے۔ تلنگانہ کی جیت سے ان کی لیڈرشپ پہلے جیسی ہی رہی۔ امید یہ ہے کہ ان 3ریاستوں میں ملی شرمناک شکست کے بعد کانگریس ذمہ دار لیڈروں کے خلاف کارروائی کرے گی اور نوجوان لیڈروں کو آگے لانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ شکست کے لیے ذمہ دار یہ لیڈران اپنی انانیت سے کانگریس کو بہت کچھ نقصان پہنچا چکے ہیں۔ امید یہی ہے کہ راہل گاندھی اور صدر کانگریس ملکارجن کھرگے کانگریس کا مزید نقصان برداشت نہیں کریں گے۔
[email protected]
تین ریاستوں میں کانگریس کی شکست کے اسباب: عبدالعزیز
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS