دبئی(ایجنسیاں): دنیا میں آزادانہ تجارت کا سب سے بڑے بلاک کی بنیاد ایشیا کے 15 ملکوں نے رکھ دی ہے۔ نئے اتحاد میں امریکا شامل نہیں ہے جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا ایک حریف ایشیا پیسیفک گروپ سے بھی الگ ہو گیا تھا۔ آزادانہ تجارت کے اس معاہدے ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ (آر سی ای پی)پر اتوار کو ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی میں ہونے والی آن لائن علاقائی سربراہ کانفرنس میں دستخط کیے گئے۔ آر سی ای پی میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان)کے 10 رکن ممالک سمیت چین، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ معاہدے کا مقصد آنے والے برسوں میں کئی شعبوں میں ٹیرف میں کمی لانا ہے۔ خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق نیا تجارتی معاہدہ اس تجارتی معاہدے کے لیے مزید ایک دھچکا ہے جسے امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما نے فروغ دیا۔ ایشیا میں امریکی کردار پر سوالات کی فضا میں آزادانہ تجارت کا معاہدہ جنوبی ایشیا، جاپان اور کوریا کے ساتھ اقتصادی شراکت دار کی حیثیت سے چین کی حیثیت کو مزید مستحکم کر سکتا ہے۔ اس طرح دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین علاقے میں تجارت کے ضابطے مرتب کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں آ جائے گا۔ امریکہ آزادانہ تجارت کے نئے معاہدے کا حصہ ہے اور نہ ہی اوباما کی قیادت میں اس سے پہلے بننے والے ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی)میں شامل ہے۔ اس طرح دنیا کی سب سے بڑی معیشت ان تجارتی گروپس سے باہر ہو گئی ہے جو تیزی سے ترقی کرتے علاقوں پر محیط ہیں۔ چین کے لیے بینکنگ اینڈ فنانشل سروسز کارپوریشن آئی این جی کے چیف اکنامسٹ آئرس پینگ نے کہا ہے کہ آزادانہ تجارت کے نئے معاہدے جس کی تشکیل میں واشنگٹن کے ساتھ گہرے ہوتے اختلافات کی وجہ سے تیزی آئی، کی بدولت چین کو سمندر پار منڈیوں اور ٹیکنالوجی پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق معاہدے پر دستخط سے قبل اپنے خطاب میں ویت نام کے وزیراعظم گیوین شوان فوک نے کہا:’میں خوش ہوں کہ آٹھ سال تک پیچیدہ مذاکرات کے بعد آج ہم نے آزادانہ تجارت پر ہونے والی بات سرکاری طور پر مکمل کر لی ہے۔‘نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور بزنس سکول میں تجارت کے ماہرالیگزینڈر کیپری نے کہا ہے کہ آر سی ای پی سے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے معاملے میں چین کے علاقائی سطح پر جغرافیائی اور سیاسی ارادوں کو تقویت ملے گی۔ روڈ اینڈ بیلٹ سرمایہ کاری کا اہم چینی منصوبہ ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں چینی بنیادی ڈھانچے اور اثرورسوخ کو فروغ دینا ہے۔