مفتی عبدالمنعم فاروقی قاسمی
رمضان کی آمد سے عین قبل آپ ؐ نے صحابہ ؓ کو جمع فرماکر خصوصیت کے ساتھ اس کی فضیلت سے آگاہ فرمایا۔ حضرت سلمان فارسیؓ ۔فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ ؐ نے حضراتِ صحابۂ کرام ؓکے سامنے شعبان کی آخری تاریخ یعنی رمضان المبارک کی آمد سے عین قبل ایک نہایت اہم ،جامع اور بلیغ خطبہ دیا( مشکوۃ ،کتاب الصوم ،حدیث :۱۹۶۵)۔ رسول اللہ ؐ نے اپنے اس جامع ترین اور نہایت اہم خطبہ میں اپنی امت کو آٹھ باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے
(۱) رمضان کی عظمت : اس عظیم خطبہ میں آپ ؐ نے اس ماہ مبارک کی عظمت واہمیت، بزرگی ، خصوصی برکات ، د وسرے مہینوں پر اس کی برتری اور ذات الٰہی سے اس کی خاص نسبت بیان فرمائی ، جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبارک اللہ تعا لی کی طرف سے عطا کردہ عظیم اور ایک قیمتی تحفہ ہے جو اس امت کو خصوصیت کے ساتھ عنایت ہوا ہے۔
(۲) شب قدر کی قدردانی: اس جامع ترین خطبہ میں رسول اللہ ؐ نے شب قدر کا تذکرہ فرمایا کہ یہ رمضان المبارک کی خاص نعمتوں میں سے ایک ہے، شبِ قدر جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہوتی ہے ، یہ وہ عظیم اور نہایت بابرکت رات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے ،یہ وہ مبارک رات ہے جس میں قرآن ِ مجید کا نزول ہوا ہے ،اس ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں سے افضل بتایا گیا ہے ،اس رات اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے اور ان کے سردار جبرئیل ِ امین ؑ اُترتے ہیں ، یہ رات غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک سراپا سلامتی ہی سلامتی اور رحمت ہی رحمت ہے۔
(۳)روزوں کی فرضیت : اس اہم خطبہ میں نبی کریم ؐ نے رمضان المبارک کی اہم ترین عبادت روزہ کا ذکر فر مایا ، ہجرت کے دوسرے سال واقعہ بدر سے تقریبا ایک ماہ اور چند روز قبل رمضان المبارک کے پورے ماہ کے روزے فرض کئے گئے ، رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان ،عاقل ،بالغ اور مرد وعورت پر فرض ہیں ،یہ اسلام کاا ہم رکن ہے اس کا منکر کافر اور بلا عذر چھوڑ دینے والا سخت گنہگار ہوگا ۔
اُن لوگوں کا طبقہ ہے جو اپنے نفسوں پر بہت ظلم کر چکے ہیں اور ان کا حال بڑا ابتر رہا ہے اور اپنی بداعمالیوں سے وہ گویا دوزخ کے پورے پورے مستحق ہو چکے ہیں وہ بھی جب رمضان کے پہلے اور درمیانی حصے میں عام مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھ کے اور توبہ واستغفار کرکے اپنی سیاہ کا ریوں کی کچھ صفائی اور تلافی کر لیتے ہیں تو اخیر عشرہ میں ( جو دریائے رحمت کے جوش کا عشرہ ہے ) اللہ تعالی دوزخ سے ان کی بھی نجات اور رہائی کا فیصلہ فرمادیتا ہے۔ ( معارف الحدیث ج۴ ص ۱۰۳) ۔
(۴) نماز تراویح: اس خطبہ میں آپ ؐ نے نماز تراویح کی طرف توجہ دلائی ہے اور اسے رمضان المبارک کی اہم عبادات قرار دیتے ہوئے اس کی فضیلت اور اس کی ادائیگی پر ثواب کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جولوگ ایمان واحتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں نوافل ( نماز ِ تراویح ) پڑھیں گے ان کے پچھلے سب گناہ معاف کر دئے جائیںگے ( مشکوۃ :۱۲۹۶)۔
(۵)نفل پر فرض کا ثواب:رسول اللہ ؐ نے اپنے اس بلیغ خطبہ میں رمضان المبارک کی برکتوں اور رحمتوں کا ذکر فرمایا اور اس کے حصول کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ماہ مبارک کی برکت سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب نوازتے ہیں اور اپنے غیبی اور لامحدود خزانوں سے بے پایاں عنایت فرماتے ہیں ۔جو کوئی اس ماہ میں نوافل اداکرتا ہے تو اس پر اسے فرائض کا اجر دیا جاتا ہے اور جو فرائض ادا کرتا ہے تو اسے ستر فرضوں کا اجر وثواب عنایت ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ماہ مقدس کو گویا اس امت کے لئے نیکیوں کا موسم بہار بنادیا ہے جو شخص بھی اپنے دامن کو نیکیوں سے بھر نا چاہئے وہ بھر سکتا ہے اور نیکیوں کے ذریعہ اپنے لئے اعمال صالحہ کے پہاڑ کھڑے کر سکتا ہے۔
(۶) رمضان صبر کا مہینہ : لفظ صبر تین حروف پر مشتمل ہے جس کے معنی ہیں نفس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضہ کر رہی ہو، لفظ صبر ہے تو چھوٹا سا جملہ مگر اس میں پوری کائنات سمٹی ہوئی ہے،ہمت ،حوصلہ ،بھلائی ،تحمل ،خیر اور سکون سب کو شامل ہے ،ر سول اللہ ؐ نے اپنے جامع ترین خطاب میں ماہ رمضان المبارک کو صبر کا مہینہ قرار دیا ہے ،یعنی اس ماہ کی اہم ترین عبادت روزہ آدمی کے اندر صبر وہمت پیدا کرتی ہے ،جب وہ دن بھر بھوک پیاس برداشت کرتا ہے اور کھانے پینے پر قدرت وطاقت رکھنے کے باوجود محض حکم الٰہی کی تعمیل میں روزہ رکھتا ہے اور بھوک وپیاس کو صبر و حوصلے کے ساتھ برداشت کرتا ہے تو اس میں صابرانہ قوت پیدا ہونے لگتی ہے جو آگے چل کر اسے تقرب الٰہی کی منزل تک پہنچاتی ہے ،کیونکہ صبر ایک ایسی نعمت ہے جسے ملتی ہے اسے کامیابی سے ہمکنار کر دیتی ہے۔
(۷) غمخواری و رزق میں کشادگی کا مہینہ: رمضان المبارک کی ایک اور اہم چیز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ماہ مقدس غمخواری وہمدردی کا مہینہ ہے ، لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرنا رحمن کو بہت پسند ہے ،وہ انسانوں کی خدمت واعانت اور ان کے ضروریات کی تکمیل میں مدد کرنے والوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حقیقی انسانیت یہی ہے کہ آدمی صرف خود کا نہیں بلکہ خدا کے ان بندوں کا لحاظ کرے جو مفلوک الحال اور تمہاری اعانت ومدد کے مستحق ہیں ،اپنے لئے جینے والا شخص انسان نما تو ہو سکتا ہے لیکن انسان نہیں ہو سکتا، مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی ،خیر خواہی اور غمخواری کے بغیر خالق سے تعلق و محبت ہر گز نہیں ہو سکتا،اگر کوئی اس کے بغیر محبوبیت خداوندی کا دعویٰ کرتا ہے تو یہ صرف اس کا گمان اور دھوکہ ہے ، جو انسانوں کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے تو وہ خدا کی رحمت وشفقت کا مستحق قرار پاتا ہے۔
(۸)تینوں عشروں کی خصوصیات: اس اہم ترین خطاب میں آپ ؐ نے رمضان کے تینوں عشروں کی الگ الگ فضیلت بیان فرمائی ہے اور ان کی فضیلتوں سے بھر پور استفادہ کی طرف توجہ دلائی ہے ،چنانچہ آپ ؐ کا ارشاد ہے : اس ماہ ِ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اوردرمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ نار جہنم سے آزادی ہے( مشکوۃ: ۱۹۶۵)۔ مولانا منظور نعمانی ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ : رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہے ،درمیانی حصہ مغفرت ہے ، اورآخری حصہ جہنم سے آزادی کا وقت ہے۔اس کی دل کو لگنے والی توجیہ اور تشریح یہ بھی ہے کہ رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے والے بندے تین طرح کے ہوسکتے ہیں (۱) وہ اصحاب ِ صلاح وتقویٰ جو ہمیشہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام رکھتے ہیں اور جب کبھی ان سے کوئی خطا اور لغزش ہوجاتی ہے تو اسی وقت توبہ واستغفار سے اس کی صفائی وتلافی کر لیتے ہیں تو ان بندوں پر تو شروع مہینہ ہی سے بلکہ اس کی پہلی ہی رات سے اللہ کی رحمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔(۲)وہ طبقہ ان لوگوں کا ہے جو ایسے متقی اور پرہیز گار تو نہیں ہیں لیکن اس لحاظ سے بالکل گئے گزرے بھی نہیں ہیں ،تو ایسے لوگ جب رمضان کے ابتدائی حصے میں روزوں اور دوسرے اعمال ِ خیر اور توبہ واستغفار کے ذریعہ اپنے حال کو بہتر اور اپنے کو رحمت ومغفرت کے لائق بنا لیتے ہیں تو درمیانی حصے میں ان کی بھی مغفرت اور معافی کا فیصلہ فرمادیا جاتا ہے۔(۳) اُن لوگوں کا طبقہ ہے جو اپنے نفسوں پر بہت ظلم کر چکے ہیں اور ان کا حال بڑا ابتر رہا ہے اور اپنی بداعمالیوں سے وہ گویا دوزخ کے پورے پورے مستحق ہو چکے ہیں وہ بھی جب رمضان کے پہلے اور درمیانی حصے میں عام مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھ کے اور توبہ واستغفار کرکے اپنی سیاہ کا ریوں کی کچھ صفائی اور تلافی کر لیتے ہیں تو اخیر عشرہ میں ( جو دریائے رحمت کے جوش کا عشرہ ہے ) اللہ تعالی دوزخ سے ان کی بھی نجات اور رہائی کا فیصلہ فرمادیتا ہے( معارف الحدیث ج۴ ص ۱۰۳) ۔ n