جاوید اختر بھارتی
ہر سال کی طرح امسال بھی ماہ رمضان سایہ فگن ہوگیا، نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، چہل پہل میں بھی اضافہ ہوگیا لیکن جیسے ہی رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو کرونا وائرس کی رفتار بھی تیز ہوگئی جس کی وجہ سے مسلمانوں کی پیشانیوں پر تشویش کی لکیروں کے ابھرنے میں بھی اضافہ ہوگیا فی الحال تو مساجد میں نمازیں ادا کی جارہی ہیں لیکن کب کیا ہو جائے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ وقت اور حالات چاہے جیسے بھی ہوں مگر رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے کا ملنا اور زندگی میں بار بار ملنا یہ بہت ہی سعادت مندی کی بات ہے، خوش قسمتی کی بات ہے ۔ دوسرا پہلو بھی زیر غور ہوناچاہیے کہ زندگی میں بار بار رمضان المبارک کا مہینہ آئے اور اس کے باوجود بھی ایک مسلمان کی زندگی میں انقلاب نہ آئے تو یہ بدنصیبی کی بات بھی ہے۔ سنن و نوافل فرض کے برابر اور ایک فرض ستر فرض کے برابر پھر بھی ہم موبائل کی دنیا میں مست رہیں، پوائنٹ و کوئن تلاش کرتے رہیں ، انگلیوں پر گنتی کے ذریعے تسبیحات پڑھنے کے بجائے ہم اسی انگلیوں سے لوڈو کی گوٹیاں کھسکاتے رہیں تو یہ بدنصیبی در بدنصیبی کی بات ہے ۔
ہم افطار کا انتظام و اہتمام کریں تو اپنے دائیں، بائیں بھی نگاہ دوڑائیں، عزیز واقارب کا بھی خیال رکھیں ، رشتہ داروں اور بالخصوص غریب دوستوں و غریب رشتہ داروں کا ضرور خیال رکھیں۔ یہ سارے کام عبادت کا حصّہ ہیں اور اس عبادت کے حصے والے کام کو انجام دیتے ہوئے ریاکاری سے بچنا ضروری ہے۔ کسی کے ہاتھ میں کچھ رکھتے وقت اس کی عزت ، اس کا وقار، اس کی خودداری کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ تربیت کا مہینہ ہے، تقوی کا مہینہ ہے ، قرب خداوندی کا ذریعہ ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ خود چاہتاہے کہ میرا بندہ پنجوقتہ نمازوں کے ذریعے ، ذکر و اذکار کے ذریعے مجھ سے اپنا رشتہ مضبوط کرلے ، متقی و پرہیزگار بن جائے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ کبھی نہیں چاہتا ہے کہ میرا بندہ ایک پل کے لئے بھی جہنم میں جائے ۔اسی لئے تو رب ذوالجلال نے سال کے بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ مکمل طور پر اپنے بندوں کے لئے آفر بنا دیا۔ دنیاوی کمپنیاں جب آفر کا اعلان کرتی ہیں تو وہ گراہک کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنے فروغ اور اپنے مفاد کے لئے اور اپنا پھنسا ہوا مال پار گھاٹ لگانے کے لئے کرتی ہیں۔ لیکن اللہ ربّ العالمین نے بندوں کے مفاد کے لئے آفر کا اعلان کردیا کہ ائے میرے بندوں روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا میں ہی دوں گا۔ یوں تو زندگی اور موت، بیماری و شفا، عزت و ذلت، ترقی و تنزلی، عروج و زوال سب اللہ کے ہی اختیار میں ہے۔ انسان کے جسم میں خون کا دوڑنا، دلوں کا دھڑکنا، سانسوں کا چلنا، کانوں سے سننا، آنکھوں سے دیکھنا، دل و دماغ سے فیصلہ لینا ان سب کا ریموٹ کنٹرول تو اللہ کے پاس ہی ہے یعنی اسی کے اختیارات میں ہے۔ پھر بھی وہ کہے کہ فلاں کام کرو اور وہ کام صرف میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ بھی میں ہی دوں گا اسی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ ایسا مہینہ ہے کہ اس مہینے کی قدر کرنے سے اللہ اور بندے کے تعلقات گہرے ہوتے ہیں۔ عبد اور معبود کے درمیان رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔
خود مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ جب ایک چھوٹا بچہ روزہ رکھتا ہے تو پورا دن ماں اپنے بچے کا چہرہ دیکھتی رہتی ہے تو اللہ رب العالمین تو ستر ماؤں سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے پیار کرتا ہے پھر وہ کیسے اپنے روزہ دار بندوں کو نظر انداز کرسکتاہے میرے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ روزہ رکھنے سے تقوی کی صفت پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ وہ چیز ہے کہ جس سے انسان بھلائی کے راستے میں پیش قدمی کرتا ہے اور برے کاموں سے اجتناب کرتا ہے ۔ماہ رمضان نیکیاں کمانے اور اللہ کی رحمتیں حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ خوب شوق و ذوق اور شعور و خلوص کے ساتھ روزہ رکھیں۔ قرآن کی تلاوت کریں، صدقہ و خیرات کریں۔ پورا دن بھوکا رہنا ایک رسم نہ سمجھیں بلکہ پورا دن بھوکا رہیں تو یہ محسوس کریں کہ جو پورے سال اسی طرح بھوک و پیاس اور غربت کا شکار رہتا ہے تو اس کے اوپر کیا گذرتی ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم افطار کا انتظام و اہتمام کریں تو اپنے دائیں، بائیں بھی نگاہ دوڑائیں، عزیز واقارب کا بھی خیال رکھیں ، رشتہ داروں اور بالخصوص غریب دوستوں و غریب رشتہ داروں کا ضرور خیال رکھیں۔ یہ سارے کام عبادت کا حصّہ ہیں اور اس عبادت کے حصے والے کام کو انجام دیتے ہوئے ریاکاری سے بچنا ضروری ہے۔ کسی کے ہاتھ میں کچھ رکھتے وقت اس کی عزت ، اس کا وقار، اس کی خودداری کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
افسوس کے ساتھ انتہائی شرم کا مقام ہے کہ آج بہت زیادہ ایسے لوگ ہیں جو زکوۃ کا پیسہ دیکر بھی اپنی زبان سے اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ انہیں خوف کھانا چاہیے کہ کہیں زبان کٹ کر گر نہ جائے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے آپ نہ تو بخالت سے نکل سکتے ہیں اور نہ سخاوت میں داخل ہوسکتے ہیں ۔اس لئے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی تو تمہیں ہر حال میں کرنی ہے ۔یہ تمہارے لئے مجبوری بھی ہے اور ضروری بھی ہے۔ جب کیلا کھانا ہے تو چھلکے کو ادھیڑ کر پھینکنا ہی پھینکنا ہے۔ پھر اس کا تذکرہ کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم نے کیلا خریدا تو اس کا چھلکا اتار کر پھینک دیا پھر کیلا کھایا ۔اسی طرح جب زکوٰۃ کی ادائیگی کردی تو پھر کیا ضرورت ہے اس کے پر چار و پرسار کی۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد اس کا تذکرہ ریاکاری میں شامل کردے گا اور ریاکاری کا راستہ جہنم کی طرف جاتاہے ۔
زکوٰۃ کا انکار تو دھکے مار کر اسلام کے دائرے سے باہر کردیگا کیونکہ زکوٰۃ اسلام کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔ اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے جس پر عمل نہ کرنے والا تو گنہگار ہوگا لیکن انکار کرنے والا کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح رمضان المبارک کا روزہ بھی اسلام کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔ اس پر عمل کرنے والا خوش قسمت ہے اور عمل نہ کرنے والا گنہگار ہے اور اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے اور ہر مسلمان کو رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں سے مالامال کرے آمین یا رب العالمین ۔ n