راجستھان کے گزشتہ کئی اسمبلی انتخابات پر اگر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو یہ اندازہ ہو جاتاہے کہ اس ریاست کے لوگوں نے ایک بار بی جے پی کو تو ایک بار کانگریس کو راج کرنے کا موقع دیا ہے۔ کچھ اسی طرح سے جیسے اترپردیش کے لوگ کیا کرتے تھے اور اسی لیے گزشتہ اسمبلی انتخابات کے وقت یہ سوال اہم تھا کہ کیا بی جے پی مسلسل دو بار اقتدار میں رہ سکنے میں کامیاب ہو پائے گی اور یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔ بی جے پی مسلسل دوسری بار اترپردیش میں شاندار کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اسی طرح راجستھان پر اب لوگوں کی نظریں ہیں کہ کیا اشوک گہلوت کی حکومت اس روایت کو توڑنے میں کامیاب ہو پائے گی کہ حکمراں جماعت کو مسلسل دو بار حکمرانی کا موقع نہیں ملتا۔ اس سوال کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان سخت مقابلہ ہوا تھا اور آخر تک یہ کہنا مشکل تھا کہ کون سی پارٹی حکومت بنانے جا رہی ہے لیکن حکومت بنانے میں کانگریس ہی کامیاب رہی۔ دونوں پارٹیوں کے مابین مقابلہ کتنا سخت تھا، اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتاہے کہ بی جے پی اور کانگریس کے ووٹوں میں صرف 0.53 فیصد کا ہی فرق تھا، البتہ سیٹوں کی بات کی جائے تو اس میں خاصا فرق تھا۔ کانگریس کو مجموعی طور پر 100 سیٹیں ملی تھیں۔ 2013 کے اسمبلی انتخابات کے مقابلے اسے 79 سیٹوں کا فائدہ ہوا تھا یعنی 2013 میں کانگریس کی جتنی سیٹیں تھیں، اس سے تقریباً 5 گنا زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں وہ کامیاب رہی تھی۔ اسے 2013 کے اسمبلی الیکشن کے مقابلے 2018 میں 6.23 فیصد ووٹ زیادہ ملے تھے۔ مجموعی طور پر اسے 39.30 فیصد ووٹ ملے تھے۔ دوسری طرف 2013 میں بی جے پی کی جتنی سیٹیں تھیں، 2018میں اس سے آدھے سے بھی کم سیٹیں اسے ملیں۔ اسے 90 سیٹیں کم ملیں۔ مجموعی طور پر اسے 73 سیٹیں ہی ملیں۔ سیٹوں میں اتنے بڑے خسارے کی وجہ ووٹ فیصد کا گرنا تھا۔ 2013 کے اسمبلی انتخابات کے44 فیصد سے زیادہ ووٹوں میں 6.37 فیصد کمی ہوگئی۔ اسے مجموعی طور پر 38.77 فیصد ہی ووٹ ملے، اس لیے اس بار بی جے پی کے لیے چنوتی یہی نہیں ہے کہ وہ اپنے ووٹ فیصد میں حیرت انگیزاضافہ کرے، چنوتی یہ بھی ہے کہ وہ لیڈروں کے اندر خانے کی سیاست پر قابو وقت رہتے پائے۔ اندرخانے لیڈروں کی چپقلش کانگریس کے لیے بھی ایک مسئلہ ہے۔ وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کا رشتہ جگ ظاہر ہے لیکن اشوک گہلوت عوامی بہبود کے اعلانات سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ انٹی اِن کمبنسی کا سامنا ان کی پارٹی کو نہ کرنا پڑے اور وہ مسلسل دوسری بار اقتدار میں آکر تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اپنی کوششوں میں انہیں کتنی کامیابی ملتی ہے، اس سلسلے میں کوئی بھی حتمی بات کہنا مشکل ہے، کیونکہ راجستھان اسمبلی کے انتخابی نتائج پر پیش گوئی کبھی بھی آسان نہیں رہی۔ 2008 سے 2018 کے اسمبلی انتخابات کو ہی اگر دیکھ لیا جائے تو عوام نے ایک بار موقع کانگریس کو اور ایک بار بی جے پی کو دیا ہے۔ 2013میں بی جے پی بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی تو 2008 میں کانگریس۔ فی الوقت کانگریس کی حکومت ہے، اس لیے روایت کی پاسداری کرنے پر اگر راجستھان کے لوگ بضد رہے، بی جے پی موقع سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی تواس بار بی جے پی کی امیدوںکے امکان کا دروازہ کھل سکتاہے، وہ بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے مگر جیت اگر کانگریس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، تو یہ اشوک گہلوت کی بڑی جیت ہوگی۔n
راجستھان: روایت کچھ اور رہی ہے!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS