کانگریس کے لیڈر اور گاندھی خاندان کے چشم و چراغ کی پد یاترا میں پارٹی میں روح سی پھونک دی ہے۔ یاترا کے ابتدائی ایام میں ہی پارٹی کیڈر میں جوش و خروش دیکھ کر پارٹی کے اندر وہ حلقے جو اس وقت کی قیادت اور پارٹی کی صورت حال سے ناخوش تھے وہ متاثر نظرآئے اور وہ گروپ جو کہ اعلیٰ کمان کا حریف تصور کیا جاتا تھا اس کے لہجے میں بھی تبدیلی نظر آنے لگے تھی بعد ازاں جب کانگریس صدر کے انتخابات کا ماحول بنا تو پارٹی کی تنظیم میں سرگرمی نظر آئی تو اہم لیڈروں کا باغی گروپ جس کو G-23کہا جارہا تھا اس نے بھی پارٹی انتخابات میں نہ صرف یہ سرگرمی سے حصہ لینے کا اعلان کیا بلکہ اعلیٰ کمان کے قریب سمجھے جانے والے امیداور ملکہ ارجن کھڑگے کی حمایت کا اشارہ دیا اگر چہ صداری عہدے کے دوسرے امیدوار کا تعلق جی۔23ہی سے تھاکانگریس صدر کی انتخابی مہم جیسے جیسے آگے بڑھتی رہی جی-23سے وابستہ گروپ میں پارٹی میں ایسا لگا کہ کھڑگے کے مد مقابل کھڑے ہونے والے امیدوار ششی تھرور کو پارٹی کے پرانے اور وفادار کیڈر کی حمایت نہ ملے۔
بہر کیف صدارتی عہدے کا اثر کافی دور تک محسوس ہوا اسی دوران راہل گاندھی کے قریبی سمجھے جانے والے راجستھان کے لیڈر سچن پائلٹ اور وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کے درمیان ناچاقی کی خبریں آنے لگیں۔ پارٹی کے ایک بڑے طبقہ میں یہ تاثر گیا کہ شاید راہل گاندھی اور سونیا گاندھی اپنے پرانے وفادار اشوک گہلوت کو کانگریس صدارتی عہدے پر فائز دیکھنا چاہتی ہیں اس طرح وہ دوسرے وفادار سچن پائلٹ کو راجستھان کے وزیراعلیٰ کا عہدہ دے کر مطمئن کردینا چاہتی تھی اسطرح کانگریس اعلیٰ ایک تیر سے دو شکارکرتا ہے۔ مگر پارٹی کے اعلیٰ کمان اس پورے معاملہ میں چوٹ کھاگئی اشوک گہلوت جو کی ایک تجربے کار اور جہاں دیدہ انسان ہیں اعلیٰ کمان کی منصوبوں کو بھانپ گئے وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کو چھوڑنے کے لیے شروع ہی سے تیار نہیں تھے اگر چہ انہوں نے اس با ت کا برملا اعلان نہیں کیا تھا۔ مگر امیدوار کی نامزدگی چند روز قبل جب یہ بات سامنے آئی کہ کوئی بھی پارٹی لیڈر چاہے وہ کتنا ہی بڑا یا چھوٹا ہو ایک وقت میں ایک ہی عہدے پر فائز رہے گا۔راجستھان اسمبلی کے الیکشن 4سال قبل ہوئے تھے ایک نوجوان لیڈر کے طور پر وہ اب انتظار کررہے ہیں کہ کب اعلیٰ کمان اشوک گہلوت کو ہٹا کر جو کہ 71سال کے ہوچکے ہیں۔ ان کو وزیر اعلیٰ بنانے کا خیال رہے کہ 45سالہ سچن پائلٹ کا شمار ایک جارح منتظم اور پارٹی ورکر کے طور پر ہوتا ہے۔ کم عمری میں پارٹی نے اہم ذمہ داریاں دیں۔ اشوک گہلوت صرف 47سال کی عمر میں راجستھان کے وزیر اعلیٰ بنے لیکن آج پیرانہ سالی کے باوجوداشوک گہلوت اپنے عہدے سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ اعلیٰ کمان کو نرم اور گرمی دونوں دکھا چکے ہیں ۔ ان کو طوطے کی طرح نگاہ بدلنا آتی ہے ۔وہ وقت آنے پر سرنگوں ہوجانا جانتے ہیں۔وہ ایک چالاک لومڑی کی طرح 107میں کانگریس کے 80ممبران اسمبلی کو اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں جو ان کے وفادار ہیں۔کانگریس یونٹ میں ان کے خلاف کوئی لہر نہیں، وہ اسمبلی انتخابات کے لئے ایک سال قبل سے اشتہارات کے ذریعہ عوام میں مقبولیت بنانے کے لیے میڈیا میں اشتہار دے رہے تھے۔ایسے حالات میں سچن پائلٹ کی دال گلتی ہی نظر نہیں آرہی ہے۔
کانگریس کے صدر کی انتخابی مہم سے قبل اشوک گہلوت اس بات کی توقع کررہے تھے کہ وہ پارٹی کے صدر کے عہدے پر رہتے ہوئے وزیر اعلیٰ عہدے کی بھی ذمہ داری سنبھال لیں گے مگر ایسا نہیں ہوا اور اعلیٰ کمان نے ایک پرانی قرار داد کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کردیا کہ گہلوت کو صدر بننے کے بعد وزیر اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ اشوک گہلوت کو یہ قبول نہ تھاکہ وہ وزرات اعلیٰ سے سبک دوش ہوجاتے۔ بہر کیف راجستھان کے وزارت اعلیٰ کانگریس کے صدر کے عہدے پر رشہ کشی کے دوران بھی راہل گاندھی کی پد یاترا دھوم دھام سے چلتی رہی اور اب جب کہ تصفیہ طلب تمام امور طے ہوچکے ہیں اور یہ بات تقریباً طے ہے کہ اشوک گہلوت اپنی وزارت پر قائم رہیں گے تو سچن پائلٹ کے پیٹ میں مروڑ ہونا غیر فطری نہیں ہے پچھلے اسمبلی الیکشن میں ریاستی کانگریس کے صدر کی حیثیت سے جو سرگرم رول ادا کیا اور مہارانی وسندھرا راجیہ سندھیا کے15سالہ دور اقتدار اور کانگریس شاندار جیت کے بعد برسرااقتدار آئی مگر زبردست محنت کے باوجود سچن پائلٹ کو وزیراعلیٰ نہیں بنایا گیا اور اشوک گہلوت کو یہ کرسی ملی۔ صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران راہل گاندھی کی پدیاترا کی شروعاتی ابتدائی ایام میں ان دونوں کا لیڈروں کا جھگڑا قومی سطح پر پارٹی کے لیے سبکی کا سبب بنا۔ بہر کیف تمام مسائل کے خاتمہ کے بعد راہل گاندھی کی پدیاترا جاری ہے مگر اب بھی سچن پائلٹ کو لگتا ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے جس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ ایسے حالات میں پارٹی کے نو منتخب صدر ملکا ارجن کھڑگے کے سامنے راجستھان کے اندرونی معاملات کس طرح حل ہوں گے ایک بڑا چیلنج ہے ۔ کھڑگے اپنی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو غیر جانب دار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سچن پائلٹ کے کیمپ میں بے چینی ہے اگر چے سچن پائلٹ کا کیمپ بڑا نہیں ہے۔مگر انہوں نے بڑی محنت کے ساتھ راجستھان میں پارٹی کو کھڑا کیاہے اوراسمبلی میں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے اس وقت ہماچل پردیش اور گجرات میں انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے۔سچن پائلٹ ہماچل پردیش میں پارٹی کے لیے مہم چلارہے ہیں جب کہ گجرات کی ذمہ داری اشوک گہلوت پر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں کے انتخابات ختم ہونے کے بعد جب الیکشن کا نمبر راجستھان کا آئے گا تو اس وقت کانگریس کی اعلیٰ قیادت کیا حکمت عملی وضع کرتی ہے تاکہ راجستھان میں پارٹی کے اقتدار کو باقی رکھا جاسکے۔ لیکن سچن پائلٹ اپنے آپ کو پارٹی کا ایک وفادار لیڈر بنا کر پیش کررہے ہیں۔ مگر یہ رویہ کب تک رہے گا مگر اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
qqq
راجستھان: پائلٹ کی دال گلنے والی نہیں ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS