کرناٹک میں کانگریس کی شاندار جیت کے بعد پارٹی کے حوصلے بلند ہیں۔ پارٹی کی لیڈرشپ بھی اپنا رول سرگرمی سے ادا کرتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔ کرناٹک میں دو سینئر لیڈروں ڈی کے شیوکمار اور سدارمیا کے درمیان سخت اختلافات تھے مگر ایک دوراندیش سیاست کی طرح کانگریس کے نومنتخب صدر ملکارجن کھڑگے نے دونوں میں اختلافات کم کرانے میں کافی اہم رول ادا کیا۔ الیکشن جیتنے سے پہلے مہم کے دوران کھڑگے کی مستقل مزاجی اور دوراندیشی کام کر رہی تھی۔ انہوں نے شیوکمار اور سدارمیا کے اختلافات کو اس لئے آسانی سے حل کرلیا کیونکہ وہ خود کرناٹک کے ہیں اور ان کو زمینی حالات کا علم تھا۔ کھڑگے نے دونوںپارٹی لیڈروں کے اختلافات کو پارٹی کے انتخابی مہم میں حائل نہیں ہونے دیا اورنہ ہی کسی بھی پلیٹ فارم پر دونوں کے اختلافات عوام کے سامنے آسکے۔ الیکشن جیتنے کے بعد جب ریاستی حکومت کی قیادت کی بات آئی تو ایسا لگا کہ شاید جس محنت اور مشقت کے ساتھ کانگریس کی مرکزی اورریاستی قیادت نے کام کیا تھا وہ ملیامیٹ ہوجائے مگر خوش قسمتی سے اعلیٰ کمان نے ان اختلافات کو کانگریس کی نئی حکومت کے قیام میں حائل نہیں ہونے دیا اورانتخابی نتائج آنے کے 36 گھنٹے کے اندراندر قیادت اور کابینہ کی تشکیل کے اہم فیصلے ہوگئے۔ جس دوران کرناٹک میں حکومت سازی کی طرف بڑھ رہی تھی اور نتائج آنے شروع ہوگئے تھے اسی دوران سچن پائلٹ کا وہ دھرنا شروع ہوگیا جس میں انہوں نے اپنی پارٹی کی سرکار پر بی جے پی کے دور اقتدار کی بدعنوانیوں کی جانچ کرانے پر زور ڈالنا شروع کردیا۔ یہ وہ انتخابی ایشو تھا جوکانگریس اور بی جے پی دونوں کو براہ راست متاثر کرنے والا اور چوٹ پہنچانے والا تھا۔ کئی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں ہیں کہ اشوک گہلوت نے ایک چالاک لومڑی کی طرح بی جے پی کے اندرونی اختلافات کو اپنی حکومت کو بچانے کے لئے استعمال کرلیا اور وسندھرا راجے کی مدد سے بی جے پی کی وہ مہم ناکام ہوگئی جو مدھیہ پردیش میں انہی کے بھتیجے کے ذریعہ کامیاب ہوگئی تھی۔ راجستھان میں گزشتہ ساڑھے چار سال سے اشوک گہلوت کی قیادت میں حکومت بہت شاندارانداز سے کام کر رہی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ راجستھان میں پارٹی کو کھڑا کرنے کے لئے سچن پائلٹ نے بڑی محنت کی تھی۔ ان کا جوش اور کرشمائی انداز عوام کو بھایا اور انہوں نے کانگریس کی تنظیم کو مضبوط بنایا۔ یہ کام اس لئے بھی مشکل تھا کیونکہ راجستھان میں طویل عرصے سے بی جے پی کی حکومت تھی اور وسندھراراجے جیسی جہاں دیدہ چالاک سیاست داں بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی لیڈرشپ کو پداتے ہوئے تین مرتبہ اپنی میقات پوری کرچکی تھی۔ عام کانگریسی ورکر کا حوصلہ پست تھا یہ سچن پائلٹ کی محنت کا پھل تھا کہ اس قدر مضبوط قیادت والی بی جے پی کی حکومت اقتدار سے باہر ہوگئی۔ اگرچہ اقتدار سے بے دخل ہونے میں بی جے پی حکومت کا اینٹی انکمبینسی فیکٹر بھی تھا۔ مگر اس سے قطع نظر ایک بات اپنی جگہ درست ہے کہ اگر سچن پائلٹ نہ ہوتے تو شاید اتنی بڑی کامیابی نہیں مل پاتی۔ آج کے حالات ایسے ہیں کہ سچن پائلٹ 2020سے اپنی ہی پارٹی کی سرکارکے خلاف کبھی دبے اور کبھی کھلم کھلا انداز میں بیانات دے رہے ہیں۔ 2020 میں بی جے پی ان کی ناراضگی اور بے اطمینانی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ سچن پائلٹ نے اس دوران نائب وزیراعلیٰ کی حیثیت سے سرکار سے استعفیٰ دے دیا تھا اور وہ تبھی سے گہلوت سرکار کے ساتھ براہ راست تصادم میں رہے ہیں۔ گزشتہ روز یہ صورت حال ختم ہوتی ہوئی نظرآئی جب کانگریس کے صدر ملکاارجن کھڑگے اورراہل گاندھی نے دونوں لیڈروں سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت کو اس بات کے لئے راضی کرلیا کہ وہ اسمبلی کا الیکشن جوکہ سال رواں کے آخر میں متوقع ہے متحد ہوکر لڑیںگے۔ سچن پائلٹ نے مدھیہ پردیش کے لیڈر جیوتی راتیہ سندھیا کا حشر بھی دیکھ لیا ہے۔ جن کو ریاستی قیادت پریشان کر رہی ہے۔ پارٹی کی قیادت اور نہ ہی یہ دونوں لیڈر یہ بتا سکے ہیں کہ طویل عرصے سے متصادم دونوں لیڈروں کے درمیان کیافارمولہ طے پایا ہے۔ چند روز قبل کانگریس پارٹی کے سابق ترجمان سنجے کمار جھا نے ایک ٹویٹ کیا تھا جس میں انہوںنے ایک پارٹی کے مخلص اور خیرخواہ کی طرح مشورہ دیا تھا کہ 2020 کے اتھل پتھل سے قبل جو بھی پوزیشن مذکورہ دونوں لیڈروں کی تھی وہ بحال کردی جائے تو فی الحال کانگریس کے اندر دھینگامشتی کو کسی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ سنجے جھا کا مقصد یہی تھا کہ یہ دونوںلیڈر سدارمیا اور شیوکمار کی طرح اپنے اختلافات بائے طاق رکھ دیں اورراجستھان میں پارٹی کو اسی طرح جیت سے ہمکنار کریں جس طرح کرناٹک میں ہوا۔ راجستھان میں اگرچہ صورت حال کافی مختلف ہے اور اشوک گہلوت کی سرکار کے خلاف اینٹی انکمبینشی فیکٹر بھی ہے۔ مگر یہ بات بھی صحیح ہے کہ اشوک گہلوت نے ایک اچھے منتظم کی طرح حکومت چلائی ہے۔ انہوں نے کچھ ایسے اقدامات کئے ہیں جو عوام میں کانگریس پارٹی کی حکومت کو مقبول بنانے میں اہم رول ادا سکتے ہیں۔ غریبوںکے لئے چلائی جارہی اسکیم جس خوبصورت انداز میں کام کر رہی ہے اس کا اثر دکھائی دے رہا ہے۔ اشوک گہلوت نے وزیر مالیات کی حیثیت سے اس قسم کا بجٹ پیش کیا تھا جو عوام کی فلاح وبہبود اور یہاں کے غریب طبقے کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔ اشوک گہلوت سرکار نے پرانی پنشن اسکیم کو بحال کرکے سرکاری ملازمین کے دل میں جگہ بنائی تھی اوراس اعلان نے نہ صرف یہ کہ راجستھان بلکہ دوسری ریاستوں میں بھی بی جے پی کی حکومتوں کے لئے پریشانی پیدا کردی ہے۔ کئی ریاستوں کے سرکاری ملازمین مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کو بھی پرانی پنشن اسکیم کا فائدہ ملنا چاہئے۔ راجستھان کے الیکشن میں ابھی چار پانچ مہینے کا وقت ہے اگر پارٹی زمینی سطح پر سچن پائلٹ جیسے نوعمر اور گرم خون نوجوان کو ایک بار پھر میدان میں اتارتی ہے تو اس کا فائدہ ملے گا۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ راجستھان میں بی جے پی کی حالت صحیح نہیںہے۔ بی جے پی کے کئی لیڈر وزیراعلیٰ کے عہدے کے دعویدار ہیں اورایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے رہتے ہیں۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت ان لیڈروں میں اتحاد کرانے یا وسندھرا راجے جیسی طاقتور اور کرشماتی شخصیت کی سیاستداں سے کتنا فائدہ اٹھالے گی یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ مرکز اور وسندھرا راجے کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت ان کے طورطریقوں سے خوش نہیں ہے۔ وہ رانیوںکی طرح دربار سجاکر سیاست کرتی ہیں اوراس کا نتیجہ بھگتنے کے لئے فی الحال بی جے پی تیار نہیں ہے اور حالات یہ بتاتے ہیں کہ ان کے نخرے برداشت کرنا بھی بی جے پی کے لئے آسان نہیں ہوگا کیونکہ سچن پائلٹ کی زوردارمہم کے بعد یہ ممکن نہیں کہ بی جے پی وسندھرا راجے کو چاہے مصلحت کے تحت ہی قبول کرلے۔ وسندھرا راجے کے دوراقتدارمیں بدعنوانیوں کے سخت الزامات ہیں اور کانگریس پارٹی 2018 میں ان کی ناکامیوں، بدعنوانیوں اور تاناشاہی کوانتخابی ایشوبناکر ہی مسند اقتدار تک پہنچی تھی۔ اگر سچن پائلٹ وسندھرا کے خلاف انکوائری کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ایشو دوبارہ وسندھرا اور بی جے پی دونوں کومشکلات میں ڈال سکتا ہے اورایسا بھی نہیں کہ بی جے پی وسندھرا کو نظرانداز کرکے گجیندرسنگھ شیخاوت، گلاب سنگھ کٹاریہ یا کسی تیسرے لیڈر کے ہاتھ میں کمان دے دے۔
یادرہے کہ راجستھان میں ایک تیسری طاقت بینیوال کی قیادت تیسرا محاذ بھی کروٹ لے رہا ہے۔ سچن پائلٹ کے بارے میں تو کہا جارہا تھا کہ شاید وہ بینیوال کے ساتھ جاکر کانگریس اور بی جے پی کے خلاف تیسرے محاذ کو کھڑا کر لیں مگر آج کے بدلے ہوئے حالات میں یہ بھی ممکن ہے کہ سچن پائلٹ بینیوال کو اپنے مراسم کی وجہ سے کانگریس کے قریب لے آئیں اور مقابلہ منتشر بی جے پی اور متحدہ کانگریس میں ہوجائے۔ ظاہر ہے براہ راست مقابلہ میں بی جے پی کو زیادہ فائدہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔
راجستھان : کیا واقعی کانگریس متحد ہوگئی ہے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS