سنجیو پانڈے
ایران کے صدارتی الیکشن کے نتائج آگئے ہیں۔ اقتدار اب انتہائی قدامت پسند ابراہیم رئیسی کے ہاتھ میں ہوگا۔ وہ ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی ہیں۔ حالاں کہ صدارتی الیکشن میں ایرانی ووٹروں کی بے حسی اس وقت موضوع بحث ہے، لیکن اس سے بھی بڑی تشویش کی بات صدارتی الیکشن میں آزادخیال ایرانی لیڈروں کا حاشیہ پر جانا ہے۔ اس سے متعلق عالمی برادری میں بے چینی پیدا ہونا فطری ہے۔ صدارتی الیکشن میں آزادخیال لیڈر عبدالناصر ہیماتی ہار گئے۔ ابراہیم رئیسی ایران کے پہلے صدر ہوں گے، جن پر عہدہ سنبھالنے سے پہلے امریکی پابندی عائد ہوئی ہے۔ ان پر حقوق انسانی کی خلاف ورزی اور سیاسی قیدیوںکو موت کی سزا دینے جیسے الزامات ہیں۔ رئیس ایسے وقت میں صدر منتخب ہوئے ہیں، جب ایک مرتبہ پھر وہانا میں ایران کے ساتھ عالمی طاقتیں ایٹمی معاہدہ کے تعلق سے بات چیت کررہی ہیں۔
ابراہیم رئیسی صدر کا الیکشن تو جیت گئے ہیں، لیکن بین الاقوامی ماحول ان کے مطابق نہیں ہے۔ گھریلو اور باہری محاذ پر ان کے لیے بڑے چیلنجز ہیں۔ سب سے زیادہ مشکل معاشی محاذ پر ہے۔ دراصل ایران کے سامنے آرہے معاشی چیلنجز بحران کو مزید بڑھانے والے ہیں۔ اس کا راست اثر مشرق وسطی کی جغرافیائی سیاست پر پڑے گا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خراب ہوتی ایران کی معاشی حالت نے ہی یہاں شدت پسندوں کی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔ امریکی پابندیوں کے سبب ایران کی معاشی حالت خستہ حال ہوچکی ہے اور یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ ایران کے آزادخیال لیڈر حاشیہ پر چلے گئے۔ اس لیے ان حالات میں اقتدار میں تبدیلی کے لیے صرف ایران کو ذمہ دار ماننا غلط ہوگا۔
ابراہیم رئیسی کی جیت امریکی صدر جوبائیڈن کیلئے نئے مسائل لے کر آسکتی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ ایران سے تعلقات کو نارمل بنانے کی سمت میں کام کرنا چاہتا ہے۔ ایٹمی معاہدہ بحال کرنے کیلئے بائیڈن انتظامیہ متفق ہوتا نظر آرہا ہے۔ بائیڈن اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ چین اور روس بہت ہی چالاکی سے مغربی ایشیا سے لے کر جنوبی ایشیا تک اپنے اثر کو بڑھا رہے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ افغانستان میں بھی ایرانی دراندازی سے فکرمند ہے۔ شام سے لے کر عراق تک میں ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں ایران کے اقتدار میں آئی تبدیلی سے بائیڈن انتظامیہ کیسے نمٹے گا یہ وقت بتائے گا۔
گزشتہ کچھ برسوں میں امریکی پالیسیوں نے ایران میں شدت پسندوں کی طاقت میں خوب اضافہ کیا۔ ڈونالڈٹرمپ کی مدت کار میں ٹرمپ انتظامیہ کی ایران پالیسی نے آزادخیال ایرانی لیڈروں کو کمزور کرکے رکھ دیا۔ جب کہ یہ آزاد خیال لیڈر امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک سے بات چیت کے حامی رہے ہیں۔ سبکدوش ہونے والے صدر حسن روحانی کی حکومت لبرل گروپ کی حکومت مانی گئی۔ روحانی نے مغربی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بنانے کی کم کوششیں نہیں کیں۔ روحانی حکومت نے ایران اور 6عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی معاہدے کو انجام دیا تھا۔ یہی نہیں، ان کی حکومت نے 2015میں ہوئے ایٹمی معاہدہ کو بچائے رکھنے کی بھی پوری کوشش کی لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے روحانی کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ ٹرمپ کی ایران پالیسی کے سامنے روحانی بے بس ہوتے جارہے تھے۔
دراصل ٹرمپ کے کچھ مشیر جن کے سعودی عرب اور اسرائیل میں بڑے معاشی مفادات ہیں، ایران سے بہتر تعلقات قطعی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے امریکہ-ایران کے رشتے نارمل ہونے ہی نہیں دیے۔ اتنا ہی نہیں، وہ اپنے منصوبوں میں کافی کامیاب بھی رہے۔ 2018میں امریکہ نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کو توڑ دیا۔ جب کہ ایٹمی معاہدہ میں شامل دیگر ملک ڈونالڈ ٹرمپ کے اس فیصلہ کے خلاف تھے۔ یہ ممالک آج بھی ایٹمی معاہدہ بحال کرنے کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے اس فیصلہ نے ایران کی گھریلو سیاست میں آزاد خیال لوگوں کو کمزور کیا۔ اس واقعہ کے بعد ایران کی گھریلو سیاست میں کشیدگی میں اضافہ ہونے لگا۔ امریکہ سے بات چیت کے حامی آزاد خیال ایرانی لیڈروں پر شدت پسند طاقتوں کا حملہ تیز ہوگیا۔ ایران میں سرگرم شدت پسند امریکہ کے ساتھ کسی بھی طرح کی بات چیت کے خلاف ہیں۔ ان طاقتوں نے امریکہ سے بات چیت کی ہر کوشش کی مخالفت کی۔ ایٹمی معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ان کے دباؤ میں ہی ایران کا ایٹمی پروگرام بھی تیز کیا گیا۔ ایسے میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ابراہیم رئیسی کی جیت میں امریکی انتظامیہ کا بالواسطہ تعاون ہے اور یقینی طور پر امریکی صدر بائیڈن کو اس کا نتیجہ بھی معلوم ہوگا۔ ایرانی شدت پسند دل سے ڈونالڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کررہے ہوں گے، جن کے سبب آزادخیال حاشیہ پر چلے گئے۔ حالاں کہ شدت پسندوں کی جیت سعودی عرب کے شاہی خاندان کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ اسرائیل بھی اس تعلق سے پریشان ہے۔ کیوں کہ رئیسی کی جیت سے سب سے زیادہ خوش شام کے صدر بشارالاسد ہیں۔ انہوں نے رئیسی کو فوراً مبارکباد دی۔ حالاں کہ سعودی عرب کے اتحادی یونائٹیڈ عرب امارات نے ایران سے رشتو ںکو بہتر کرنے کے مدنظر رئیسی کی جیت کا خیرمقدم کیا۔
ایران میں سرگرم آزادخیال لیڈروں کا نظریہ رئیسی کے تئیں اچھا نہیں ہے۔ 1979کے ایران کے اسلامک انقلاب کے بعد کئی الیکشن ہوئے۔ لیکن سب سے کم ووٹنگ اس مرتبہ ہوئی۔ 2017میں ہوئے الیکشن کے مقابلہ اس مرتبہ ووٹنگ سینٹرز پر ووٹروں کی بھیڑ کم تھی۔ پانچ کروڑ 90لاکھ ووٹروں میں سے 2کروڑ 89لاکھ ووٹروں نے ہی رائے دہی کا استعمال کیا۔ رئیسی کو ایک کروڑ79لاکھ ووٹ ملے ہیں۔ووٹنگ فیصد کا کم ہونا بتاتا ہے کہ ایران میں عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ ووٹنگ میں حصہ نہیں لینے والے غیرمطمئن آبادی میں شامل ہیں۔ حالاں کہ خامنہ ای اور رئیسی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ کم ووٹنگ فیصد کا اہم سبب ایران مخالف علاقائی اور مغربی طاقتوں کا ایران کے اندر مداخلت ہے۔ کم ووٹنگ فیصد کا ایک سبب کورونا بھی بتایا جارہا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی ایرانی لیڈروں نے صدارتی الیکشن کے بائیکاٹ کی اپیل بھی کی تھی۔ یقینی طور پر اس اپیل کا بھی اثر ووٹنگ پر پڑا ہے۔
ایران لمبے عرصہ سے معاشی محاذ پر سنگین چیلنجز کا سامنا کررہا ہے۔ شدت پسندوں کی جیت کے بعد ایران پر بین الاقوامی دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔ اس سے معاشی حالات اور بدتر ہوسکتے ہیں۔ ایران کی معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ تیل کاروبار ہے، جو برسوں سے امریکی پابندیوں کی مار جھیل رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں ہی ایران کی معیشت تقریباً 12فیصد سکڑگئی ہے۔ یہی نہیں، ایرانی ریال کی قیمت میں کمی(devaluation) بھی ہوئی ہے۔اس کی وجہ ایران کے کاروباری طبقہ کی قوت ارادی کمزور ہوئی ہے۔ پھر امریکی پابندیوں کا راست اثر ایران کے متوسطہ طبقہ پر پڑا ہے۔ یہ طبقہ مسلسل مغرب سے بات چیت کا حامی رہا ہے۔ اس نے ایران میں آزادخیال طاقتوں کی حمایت کی لیکن امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں نے اس آزادخیال متوسط طبقہ کی ہی کمر توڑ دی۔ امریکی پابندیوں سے یہ طبقہ کافی متاثر ہوا ہے۔ موجودہ وقت میں ایرانی متوسط طبقہ کل آبادی کا 30فیصد سے زیادہ تھا۔ تشویش کی دوسری بات ایران میں بڑھتی غریبی بھی ہے۔ تقریباً تین کروڑ ایرانی غریبی کی زد میں ہیں۔ متوسطہ طبقہ کا بڑا حصہ غریبی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ امریکی پابندیوں سے ایران میں ترقیاتی کام بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ملک میں سڑک کی تعمیرات سے منسلک 14بڑی کمپنیوں میں سے 13کمپنیاں دیوالیہ ہوگئی ہیں۔ اس کا اثر ایرانی ریولیوشنری گارڈ پر پڑا ہے۔ ریولیوشنری گارڈ سے منسلک تعمیراتی کمپنی خاتمہ الانبیا نے کئی تعمیراتی کام اپنے ہاتھوں میں لے لیے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ ریولیوشنری گارڈ بھی ابھی تک ایران کی خراب ہوتی معیشت کے لیے ایران کے آزاد خیال لیڈروں کو ذمہ دار ٹھہراتی رہی ہے۔
ابراہیم رئیسی کی جیت امریکی صدر جوبائیڈن کیلئے نئے مسائل لے کر آسکتی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ ایران سے تعلقات کو نارمل بنانے کی سمت میں کام کرنا چاہتا ہے۔ ایٹمی معاہدہ بحال کرنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ متفق ہوتا نظر آرہا ہے۔ بائیڈن اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ چین اور روس بہت ہی چالاکی سے مغربی ایشیا سے لے کر جنوبی ایشیا تک اپنے اثر کو بڑھا رہے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ افغانستان میں بھی ایرانی دراندازی سے فکرمند ہے۔ شام سے لے کر عراق تک میں ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں ایران کے اقتدار میں آئی تبدیلی سے بائیڈن انتظامیہ کیسے نمٹے گا یہ وقت بتائے گا۔
(بشکریہ: جن ستّا)