ترقی کے خوشنما وعدے شرمندۂ تکمیل تو نہیں ہورہے ہیں لیکن اس کی کوکھ سے جو تباہی جنم لے رہی ہے وہ لامحدود تباہی و بربادی کے ساتھ ہی ہندوستان کے جغرافیائی خدوخال کی بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔ملک کے کئی حصے اس وقت شدید بارش اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ پہاڑی ریاستوں کی حالت قابل رحم ہوتی جارہی ہے۔ چٹانوں اور پہاڑیوں میں شگاف پڑرہاہے، چٹانیں اپنی جگہ چھوڑ کر نیچے کی جانب گررہی ہیں جس کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔لینڈسلائیڈنگ کی اس خطرناک صورتحال کی وجہ سے ہمالیائی ریاستوں خاص کرسکم اور اتراکھنڈ وغیرہ کا تو ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ بھی کٹ سا گیا ہے۔ اتراکھنڈ میں چار دھام یاترا روک دی گئی جس کی وجہ سے 6 ہزار عقیدت مند مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے ہیں۔جموں میں رات بھر تیز بارش کی وجہ سے ایک 30 سالہ خاتون کی ڈوب کر موت ہوگئی۔ ہماچل پردیش میں ندیوں کی طغیانی تباہی کانقیب بن گئی، شدید بارش اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے 76 سڑکیں بند ہو گئی ہیں۔ 69 واٹر سپلائی اسکیمیں اور 34 بجلی سپلائی اسکیمیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔
شمال مشرقی ریاستوں میں توحالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں کے دریا تیز ہیں، پانی کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مغربی بنگال کے پہاڑی علاقوں کی حالت بھی بہت خراب ہے۔ مغربی بنگال اور سکم کو ملانے والی قومی شاہراہ گزشتہ کئی دنوں سے لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے بند ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک میں کافی پریشانی ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی مکانات لینڈ سلائیڈنگ کا شکار ہو گئے۔ اس کے علاوہ تیستا کی طغیانی کی وجہ سے جلپائی گوڑی ضلع کے کئی علاقوں میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ آسام کے 30 اضلاع میں تقریباً 24.5 لاکھ لوگ اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ ریاست میں سیلاب کی وجہ سے اب تک 52 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بارش اور طوفان کی وجہ سے مٹی کے تودے گرنے سے 12 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے اب تک قاضی رنگا نیشنل پارک میں 114 جنگلی جانور بھی مر چکے ہیں۔ صورتحال کو دیکھتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے ٹیلی فون پر بات کی۔ انہوں نے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کو بھی مرکزی مدد کا یقین دلایا ہے۔یہ بارش راجستھان اور اترپردیش میں بھی تباہی بن گئی ہے۔ اترپردیش میں بارش کی وجہ سے 13 لوگوں کی موت کی اطلاع ہے۔گنگا سمیت 6 ندیاں خطرے کے نشان کے قریب بہہ رہی ہیں۔نیپال میں بارش کی وجہ سے بہار میں سیلاب کا خطرہ ایک بار پھر بڑھ گیا ہے۔ مہاراشٹر اور گجرات میں شہری علاقے مانسون کی بارش کا قہر جھیل رہے ہیں۔
یہ اس وقت کی صورتحال ہے جب ابھی مانسون شروع ہوا ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ بارش اچانک آگئی ہو۔ محکمہ موسمیات نے پہلے ہی شدید بارش کے حوالے سے وارننگ جاری کر دی تھی، لیکن اس وارننگ کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ملک میں ہر سال بارشوں اور سیلاب سے تقریباً 7 کروڑ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ہر سال اوسطاً 2130 افراد سیلاب میں مرتے ہیں۔ ایک لاکھ 20 ہزار جانور مر جاتے ہیں۔ 82.08 لاکھ ہیکٹیئر زراعت برباد ہو تی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات 2004 سے 2010 کے درمیان سالانہ 22 ملی میٹر کی شرح سے ہوتے تھے لیکن اب یہ 32 ملی میٹر سالانہ کی شرح سے پیش آئے۔ملک کی کسی نہ کسی ریاست میں ہر سال سیلاب آتا ہے لیکن اس پر قابو پانے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایاجاتا ہے۔آسام، مغربی بنگال اور بہار جیسی ریاستوں کا ایک بڑا علاقہ تقریباً ہر سال سیلاب کے المیے کا سامنا کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری حکومتیں اس کیلئے بجٹ مختص کرنے کے حوالے سے جتنی بے تاب نظر آتی ہیں، اس مسئلے سے مستقل طور پر چھٹکارا پانے کیلئے ان کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی بحران موسم سے متعلق سرگرمیوں میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ ہے اور یہ نہ صرف ہندوستان یا ایشیائی خطے میں بلکہ پوری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس لیے جب تک ہم موسمیاتی بحران سے نمٹنے کیلئے اقدامات پر توجہ نہیں دیں گے۔ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں۔ تاہم گزشتہ چند سالوں میں محکمہ موسمیات کی تشخیص میں بھی بہتری آئی ہے۔ شدید بارشوں، خاص طور پر ساحلی ریاستوں میں طوفان وغیرہ کے بارے میں بھی درست معلومات بروقت دستیاب ہوتی ہیں۔ اس سے لوگوں کو پہلے سے محفوظ مقامات پر پہنچانا ممکن ہو گیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ماضی کے واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔
[email protected]
بارش اور سیلاب کی تباہ کاریاں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS