ایم اے کنول جعفری
کانگریس کے سابق صدر اور ایوان زیریں میں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر جعلسازی اور انتخابی نتائج میں ہیراپھیری کے ذریعہ بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کا الزام لگایا۔اسی کے ساتھ سیاسی پارہ اُوپر چلاگیااور حکومت و حزب اختلاف کے رہنماؤںکے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشی کا دور شروع ہو گیا۔راہل گاندھی نے 7اگست 2025 کو نئی دہلی میںکانگریس کے نئے ہیڈکوارٹر اندرابھون میں منعقد پریس کانفرنس میں2024کے پارلیمانی انتخابات میں بڑے پیمانے پر ووٹ چوری کا الزام لگایا۔انہوں نے کرناٹک کی مہادیوپورہ اسمبلی حلقہ کے رائے دہندگان کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہاں ایک لاکھ سے زیادہ غلط ووٹ بنوائے گئے۔انہوں نے غلط ووٹ کے ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تمام شواہد تقابلی انداز میں اور کافی تحقیقات کے بعد جمع کیے گئے۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن پر سوال اُٹھائے جانے لگے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے راہل گاندھی کے نام لکھے خط میں کرناٹک کے چیف الیکٹورل افسر نے ان سے نااہل ووٹرس اور اہل ووٹرس کے نام ہٹانے کے الزامات پر حلف نامہ دینے کو کہا ہے،تاکہ ووٹرلسٹ میں شامل یا ہٹائے گئے اشخاص کے نام،پارٹ نمبر اور سیریل نمبر کی بابت ضروری کارروائی شروع کی جاسکے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹرلسٹ کوشفاف طریقے سے عوامی نمائندہ ایکٹ1950، ووٹر رجسٹریشن ایکٹ 1960 اور الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔ نومبر2024میں ڈرافٹ ووٹرلسٹ اور جنوری 2025 میں حتمی ووٹرلسٹ کانگریس کے ساتھ شیئر کی گئی تھی۔تب کانگریس کی جانب سے کوئی شکایت درج نہیںکرائی گئی۔
راہل گاندھی نے کرناٹک کی مہادیوپورہ سیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس سیٹ پر الیکشن کمیشن کی جانب سے تیار کردہ ووٹرلسٹ میں4-4ووٹرکارڈ بنے ہیںاور اس طرح اس سیٹ پر 1,00,250 ووٹ چوری ہوئے۔ووٹوں کی چوری کاکام کئی حلقوں میں کیاگیا۔اس لیے الیکشن کمیشن کو بہانہ بنانے کے بجائے سی سی ٹی وی فوٹیج اور الیکٹرانک ووٹرلسٹ دے دینی چاہیے۔راہل گاندھی کے مطابق جعلی ووٹوںکو5 طریقوں سے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ 11,965 ڈپلی کیٹ ووٹ بنائے گئے، 40,009 جعلی پتوںکا استعمال کیاگیا، 10,452ووٹ ایک ہی پتے پر رجسٹر پائے گئے، 4,132 ووٹ بغیر فوٹو یا غیرقانونی تصاویر کے ساتھ شامل کیے گئے اور33,692نئے ووٹ فارم نمبر6- کے غلط استعمال سے بنائے گئے۔نئے ووٹر کے فارم نمبر6-میں بے ضابطگیوں کا اندازہ اس تحقیق میں آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس فارم کے ذریعہ70سالہ ضعیفہ شکون رانی کو بھی ووٹرلسٹ میںشامل کیاگیا ہے۔ حیرت میں ڈالنے والی بات یہ بھی ہے کہ اس خاتون کا 4جگہوں پر ووٹرکارڈ بناہے اور اس نے 3جگہوں پر ووٹ ڈالا۔الیکشن کمیشن نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خاتون نے ایک ہی ووٹ ڈالا۔الزام ہے کہ آدتیہ سریواستو کے نام بھی 4ووٹرکارڈ ہیں۔انہوں نے کرناٹک کے علاوہ اترپردیش کے وارانسی میں بھی ووٹ ڈالا۔کانگریسی رہنما پون کھیڑا کے مطابق ووٹرلسٹ میں بڑے پیمانے پر فرضی ووٹ پائے گئے۔ گرکیت ڈانگ کا نام4الگ الگ بوتھوں پر درج ہے۔مہی پال سنگھ کے 2ووٹ مہادیوپورہ میں اور ایک وارانسی میں درج پایاگیا۔80نام ایک چھوٹے سے گھر میں رجسٹر پائے گئے تو68 نام ایک شراب خانے (153بیئر کلب) میں ووٹر کی شکل میںدرج ملے۔یہ معمولی لاپروائی نہیں،اسے جان بوجھ کر کیاگیا ہے۔ یہ حقائق الیکشن کمیشن کے اپنے ڈیٹا سے اخذ کیے گئے ہیں۔انہیں 6مہینے کی محنت کے بعد تیار کیاگیاہے۔اس میں ہر ایک نام کی جانچ کی گئی اور فوٹو کو دوسروں سے میچ کیاگیا۔ راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے باقی سیٹوں کا ڈیٹا نہیں دیا،تو کانگریس اس کام کو خود کرے گی اور باقی حلقوں کی حقیقت بھی سامنے لائے گی۔
حیرت کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے راہل گاندھی کے ذریعہ لگائے گئے الزامات اور اُٹھائے گئے سوالات کے جواب دینے کے بجائے ان سے حلف نامہ طلب کیا۔اس کے جواب میں راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ وہ ایک سیاست داں ہیں اور پارلیمنٹ میں پہلے ہی حلف لے چکے ہیں۔ان کی کہی بات ہی ان کا حلف ہے۔یہ ڈیٹا آپ(الیکشن کمیشن)کاہے۔انہوں نے اسے صرف عوام کے سامنے پیش کیا ہے۔اگر وہ غلط ہیں تو بتائیں کہاں غلط ہیں؟ راہل گاندھی نے سوال اُٹھایا کہ دنیا بھر کے تمام جمہوری ممالک میں حکومت مخالف رجحان ہوتا ہے، لیکن یہاں بی جے پی ہر مرتبہ اس لہر سے کس طرح محفوظ رہتی ہے؟ کیا یہ محض ان کی کارکردگی کا کمال ہے یا پھر نظام کی خامیاں انہیں تحفظ فراہم کرائے ہوئے ہے؟ راہل گاندھی کے ووٹوں کی چوری کے خلاصے کے بعد سیاسی رنگ منچ پر بھونچال آگیا ہے۔ برسراقتدار حکومت کے رہنماؤں کی جانب سے جہاں اسے ایک ناٹک یاطلبا کے کلاس میں دیاگیا لیکچر بتایا جا رہا ہے،وہیں حزب اختلاف جماعتوں نے راہل کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کو صاف شفاف بنانے کے لیے جتنی بھی کوششیں کی جائیں کم ہیں۔ الیکشن کمیشن کو جہاں انتخابات سے متعلق شکایات کو دُور کیاجانا چاہیے،وہیں حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن میں گڑبڑی کے لیے شکایت کی کوئی گنجائش نہ چھوڑے۔ جہاں تک گڑبڑیوں کا تعلق ہے تو اگر یہ حقیقت میں صحیح ہیںتو یہ سب ایک دو دن یا ایک الیکشن کی پیداوار نہیں ہے۔
گڑبڑیوں کو یہاں تک آنے میں دہائیاں لگی ہوں گی۔ الیکشن کمیشن کو پوری ایمانداری کے ساتھ ان الزامات اور شکایات کی جانچ کرانی چاہیے اور اگر کہیں کوئی شکایت پائی جاتی ہے تو اسے چھپانے کی کوشش کرنے کے بجائے اسے ہر ممکن طریقے سے دُور کیاجانا چاہیے۔اگر کوئی غلطی نہیں ہے تو الیکشن کمیشن کو اپنے ثبوتوں کے ساتھ سامنے آنا چاہیے اور راہل گاندھی کو بھی معافی مانگنی چاہیے۔ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے۔جمہوریت میں ہر شخص کو اپنی بات کہنے اور اس کا جواب پانے کا حق حاصل ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے راہل گاندھی الیکشن کمیشن سے سوال پوچھ رہے ہیں اور اس کا جواب دینے کے لیے برسر اقتدار حکومت کے رہنما منظرعام پر آ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اُوپر لگائے گئے الزامات کو زبانی طور پر خارج کر دینے بھر سے معاملے کا اختتام ممکن نہیں ہے۔ ووٹ چوری اور ملی بھگت سے انتخابات میں فتحیابی کا الزام جہاں الیکشن کمیشن کے لیے مناسب نہیں ہے،وہیں ملک کی سب سے بڑی جماعت اورحکومت کے لیے بھی فکر اور بے چینی کی بات ہونی چاہیے۔
راہل گاندھی نے کہا کہ پارلیمانی انتخابات میںبی جے پی25 سیٹوں کے فرق سے اقتدار میں آئی۔ان نشستوں پر فتحیابی کا فرق 33ہزار سے کم رہا۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن انہیں ڈیجیٹل ووٹر لسٹ مہیا نہیں کر رہا ہے۔ اگر ملک بھر سے رائے دہندگان کا الیکٹرانک ڈیٹا مل جائے تو وہ ثابت کر دیں گے کہ الیکشن میں بدعنوانی ہوئی ہے۔اس پر وزیرداخلہ امت شاہ کا کہنا ہے کہ ڈرافٹ ووٹرلسٹ پر حزب اختلاف جماعتوں کی جانب سے اب تک کوئی اعتراض درج کیوں نہیں کرایاگیا؟ دراصل ملک میں نظام کی خامی کا فائدہ برسراقتدار جماعتوں کے ذریعہ اُٹھاتے رہنے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جہاںتک انتخابی اصلاحات کا معاملہ ہے تو اس کا تعلق ہرگز سیاست سے نہیں ہے۔یہ معاملہ نظام کا ہے۔ ووٹر لسٹ کی تیاری میں شروع سے ہی خامیاں رہیں، اسی وجہ سے الیکٹورل رجسٹریشن رولز 1960 کا نظام وجود میں آیا۔الیکشن کمیشن کے وی کے سندرم کی قیادت میں اصلاحات کی گئیں۔سب سے زیادہ اصلاحات10ویں چیف الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کے دور میں کی گئیں۔ اصلاحات کے لیے ایک مرتبہ پھر جنگی موڈ میں آنا پڑے گا۔ ہمیں ایسا نظام بنانا ہوگا کہ جس میں کسی سیاسی جماعت پر چھیڑچھاڑ کا الزام نہ لگایا جا سکے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
jafrikanwal785@gmail.com