ئی دہلی:مہشور شاعر راحت اندوری نے آج آخری سانس لی۔ راحت صاحب نے دنیا کو الوداع کہا ہے لیکن پیچھے ادب کی وہ وراثت چھوڑ گئے ہے جو نئی نسل کے لئے ہمیشہ خزانے سے کم نہیں ہوگی۔وہ کورونا وائرس کوویڈ ۔19 کی تصدیق کے بعد، 70 سالہ راحت اندوری کو رات گئے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ جہاں انہوں نے آج آخری سانس لی۔ راحب صاحب کو آج رات 9:30بجے چھوٹی خزرانی (اندور ) قبرستان میں تدفین ہوگی۔
راحت اندوری نے آج صبح اپنے کورونا مثبت ہونے کے بارے میں بتایا تھا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا اور کہا ، "میرا کورونا ٹیسٹ کل کیا گیا جب میں نے کووڈ کے ابتدائی علامات دیکھی،جس کی رپورٹ پازیٹو آئی ہے۔ میں اوربندو اسپتال میں داخل ہوں۔ براہ کرم دعا کریں کہ میں اس بیماری کو جلد سے شکست دے دو۔ایک اور التجا ہے ،مجھے یا گھر پر لوگوں کو فون نہ کریں،آپ کو خیریت ٹویٹر اور فیس بک پر ملے گی۔ "
آج اچانک ،راحت صاحب کے انتقال کے بعد ،تمام محبت کرنے والے صدمے میں ہیں۔ کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ محفلوں اورمشاعروں کو کئی سالوں کئی رونق رہے راحت صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔راحت کو صاحب کورونا وبا میں بھی سوشل میڈیا کے ذریعہ بیداری پھیلاتے رہے ۔
اب ان کی وفات کے بعد،بہت سارے لوگ جو انہیں پسند کرتے ہیں وہ اپنی بہترین شاعری کے ذریعے ان کو یاد کر رہے ہیں۔
اپنی شاعری سے لاکھوں کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے مشہور شاعر،ہردل عزیز،راحت اندوری کا انتقال مدھیہ پردیش اورملک کے لئے کافی بڑا نقںصان ہے۔ میں نے ایشور سے دعا کرتا ہوں کی روح کو سکون ملےاور ان کے گھروالوں اور چاہنے والوں اس غم کی گھڑی میں کو برداشت کرنے کی طاقت دے
بڑا شاعر وہ ہے جو شعر بطور شاعر نہیں بلکہ عاسق کہے۔ جب لوگ راحت اندروری صاحب کو سنتے ہے یا پڑھتے ہیں تو انہیں ایک شاعر نظر آتا ہے جو اپنا ہر شعر بطور عاشق کہتا ہے ۔وہ عاسق جس کو اپنے ادب کے دم پر آج ہندوستان میں عوام کی بے پناں محبت حاصل ہے۔
راحت صاحب کی سب سے خاص بات یہ رہی کہ ان کی شاعری میر غالب کی زمین پر ایک الگ ہی طرح کی شاعری ہے۔ وہ میر اور غالب کے خاندان کے ضرور ہیں لیکن راحت صاحب کی پہچان ان کی اپنی ہے۔ انہوں نے تو خود بھی کہا ہے ۔
ہر تاریخ کسی نہ کسی وجہ سے بہت خاص ہے۔ یکم جنوری 1950 کا دن بھی دو چیزوں کی وجہ سے بہت خاص ہے۔ اسی دن ہولکر کی سلطنت نے ہندوستان میں شمولیت کے لئے ایک خط پر دستخط کیے۔ اس خاص تاریخ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ راحت صاحب یکم جنوری 1950 کو پیدا ہوئے تھے۔اسی دن،رفعت اللہ صاحب کے گھر راحت صاحب پیدا ہوئے،جو بعد میں ہندوستان کی پوری عوام کے مثترکہ غم کو بیان کرنے والے شاعر ہوئے۔
راحت صاحب کوبچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ پہلا مشاعرہ دیواس میں پڑھا گیا۔ دراصل،جب راحت صحاب نویں جماعت میں تھے،ان کے اسکول نوتن ہائیر سیکنڈری اسکول میں ایک مشاعرہ ہونا تھا۔ راحت صاحب کی ڈیوٹی شاعروں کی خدمت کرنے پرلگی۔ جانیسار اختر سے راحت صاحب آٹوگِراف لینے پہنچے اور کہا "میں بھی شعر پڑھنا چاہتا ہوں،اس کے لئے کیا کرناہوگا"جانیسار اختر صاحب نے کہا پہلے کم سے کم پانچ ہزار شعر یاد کرو۔راحت صاحب پولے اتنے تو مجھے یاد ہیں۔جا نیسار اختر صاحب نے کہا تو پھر اگلا شعر جو ہوگا ہو تمہارا ہوگا۔ اس کے بعد جانیسار اختر نے آٹوگراف دیتے ہوئے اپنے شعر کا پہلا مصرع لکھا’ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح‘راحت صاحب کے منہ سے دوسرا مصرع بے ساختا نکلا’ہم نے چاہا ہے تمہے چاہنے والوں کی طرح ‘
راحت اندوری صاحب نے بابری مسجد کے انہدام کے لئے شعر کہا تھا۔ وہ کہنے لگے-
مجھ میں ہر روز ایک مسجد ٹوٹ رہی ہے
دسمبر اس کالونی میں روزانہ آتا ہے
راحت اندوری کی سب سے خاص بات یہ رہی کہ ہو عوام کے خیالات کو بیاں کرتے رہے۔اس پر زبان اور لہجہ ایسا کہ کیا اندور اور کیا لکھنئو کیا دہلی اور کیا لاہور،ہر جگہ کے لوگوں کی بات ان کی شاعری میں ہوتی ہے ۔ 1986میں راحت صاحب کراچی میں ایک شعر پڑھتے ہیں اور لگاتار پانچ منٹ تک تالیوں کی گونچ ہال میں سنائی دیتی ہے ۔ اور جب دہلی میں بھی وہی شعر پڑھتے ہیں تو اسی طرح کا ماحول یہاں بھی ہوتا ہے ۔
لاکھوں کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے راحت اندوروی نے دنیا کو الوداع کہا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS