رفح: جنگ کا آخری محاذ ہے؟

0

جنگ کرنے یا جنگ کو طوالت دینے کا جواز ہمیشہ صحیح نہیں ہوتا۔ عراق کے خلاف حملہ کرنے کا کوئی جوازتھا؟ لیکن جنگ کے لیے جواز بنایا گیا۔ یوکرین پر روس کو یہ شبہ تھا کہ وہ ناٹو کا رکن بن سکتا ہے۔ یہ شبہ دور کرنے کی یوکرین نے سنجیدگی سے کوشش نہیں کی۔ روس نے اس کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اس کے بعد امریکہ اور اس کے یوروپی اتحادیوں نے کیا روس کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ فکر نہ کرے، یوکرین کو ناٹو کی رکنیت نہیں دی جائے گی؟ بلکہ ایسا نہیں ہوا اور امریکہ اور اس کے یوروپی اتحادیوں نے یوکرین کی مدد کرنی شروع کر دی۔ اس سے یہ ہوا کہ جنگ بڑھتی چلی گئی، اسے ختم کرنے کے لیے روس سے مذاکرات کی امیدیں معدوم ہوتی چلی گئیں۔ ادھر 7 اکتوبر، 2023 کو حماس کے حملوں میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے تو اس وقت ایک سپرپاور کی حیثیت سے امریکہ کا فرض تھا کہ وہ تنازع کو بڑھنے نہ دے،مسئلۂ فلسطین کو حل کرائے تاکہ اس طرح کے حملے پھر کبھی نہ ہوں مگر امریکی حکومت نے جواب دینے کے لیے اسرائیلی حکومت کا حوصلہ بڑھایا، اس کا ساتھ کئی یوروپی ملکوں نے بھی دیا۔ اسپتالوں، اسکولوں، ایمبولنسوں، امدادی کاموں میں لگے لوگوں اورصحافیوں پر اسرائیلی بمباری کو امریکی لیڈروں نے جائز ٹھہرانے کی کوشش کی یا اس پر خاموش رہے۔ بیشتر یوروپی ممالک نے بھی ایسا ہی کیا جبکہ دنیا کے زیادہ تر ملکوں نے غزہ میں عام لوگوں، خاص کر بچوں کو جانیں گنواتے ہوئے دیکھ کر بار بار یہ کوشش کی جنگ ختم ہو جائے، لیکن امریکہ کی یہ پوری کوشش رہی کہ جنگ ختم نہ ہو۔ اس نے بظاہر جزوقتی جنگ بندی کے لیے کوشش کی اور اس سلسلے میں سنجیدگی دکھانے کی کوشش بھی کی، مگر اس کوشش کی حقیقت اس وقت سامنے آگئی جب اس نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی نئی کھیپ کی سپلائی کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی۔ ظاہر ہے، اس نے ہتھیار کسی میوزیم میں سجاکر رکھنے کے لیے نہیں بھیجے بلکہ انہیں غزہ میں استعمال کرنے کے لیے بھیجا اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ غزہ میں ان کا استعمال عام لوگوں پر بھی ہو رہا ہے بلکہ اب تک زیادہ تر جانیں عام فلسطینیوں کی ہی گئی ہیں۔ ایسی صورت میں امریکہ سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے تھا کہ کیا حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ کے تمام فلسطینیوں کو وہ ختم کروا دینا چاہتا ہے؟ لیکن سوال پوچھے تو کون پوچھے؟ علاقے کے مسلم ممالک کی طاقت یمن جیسے ملکوں کے خلاف تو نظر آئی، ان کے باہمی ٹکراؤ کی وجہ سے شام تباہ ہوگیا، مگر یہ سب انہوں نے اپنے مفاد کے لیے کیا۔ ان کو اپنے مفاد سے زیادہ کیا چیز عزیز ہے؟ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ان کے مفاد پر ضرب پڑنے والی ہے،کیونکہ غزہ جنگ رفح تک پہنچ گئی ہے اور ایسی صورت میں اس سوال کا اٹھنا فطری ہے کہ کیا یہ جنگ کا آخری محاذ ہے یا جنگ اس سے آگے بڑھے گی؟ اگر جنگ اس سے آگے بڑھے گی تو کیا مصر بھی اس کی زد میں آئے گا؟ خطے کے کچھ اور ممالک بھی اس کی زد میں آئیں گے؟ اور کیا وہ اس وقت بھی امریکہ کے خوف سے خاموش تماشائی بنے رہیں گے یا جواب دیں گے؟ کیا وہ واقعی جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں یا ان کے پاس اسی طرح کی طاقت ہے جیسی طاقت عراق کے پاس تھی؟

سوال یہ بھی ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں نے اسرائیلی بمباری کو جس طرح برداشت کیا ہے، کیا اسی طرح جنگ کی توسیع پر دیگر ممالک کے لوگ برداشت کر پائیں گے؟ اب بھی یہ بات بحث کا موضوع ہے کہ غزہ جنگ کی توسیع کی وجہ سے فلسطینی جاں بحق ہو رہے ہیں، رفح میں اسرائیلی فضائی حملوں کی شدت یہ بتا رہی ہے کہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہونے جا رہی،بحث کا موضوع یہ بھی ہے کہ رفح کے بعد کی صورتحال کے بارے میں خطے کے ممالک نے کیا سوچا ہے؟ بظاہر ان کا اطمینان دیکھتے ہوئے حیرانی ہوتی ہے اور یہ اطمینان انہیں اس بات کا ہے کہ جنگ کی آگ ان کے خطے تک نہیں پہنچے گی جبکہ جنگ کی آگ بھڑک اٹھے تو اس کی سمت کے بارے میں پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایک سے زیادہ افریقی اور یوروپی ممالک کو اس بات کا احساس ہے کہ جو ہو رہا ہے،اچھا نہیں ہو رہا ہے، یہ مشرق وسطیٰ کو ہی نہیں،دنیا کو ایک بڑی جنگ کی طرف لے جا رہا ہے اور وقت رہتے جنگ کی آگ ٹھنڈی نہ کی گئی تو بعد میں یہ آسانی سے ٹھنڈی نہ کی جا سکے گی۔ اسی لیے کئی ممالک اب کھل کر بولنے لگے ہیں۔ فلسطینیوں کے حق کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ اسرائیلی حملوں پر اپنے واضح موقف کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ اسپین کی خاتون وزیردفاع نے یہ کہنے میں جھجک محسوس نہیں کی ہے کہ ’غزہ میں جنگ اصل میں نسل کشی ہے۔‘ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ’نسل کشی‘ امریکہ کو انصاف لگتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غزہ جنگ نے امریکہ کے انصاف اور ناانصافی کوسمجھنا آسان بنا دیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS