ایم اے کنول جعفری
پریاگ راج میں چیک اپ کے لیے اسپتال لے جاتے وقت سابق رکن پارلیمنٹ و مافیا سرغنہ عتیق احمد اور اس کے بھائی سابق ایم ایل اے اشرف احمد کو پولیس اور میڈیا کارکنان کی موجودگی میں تابڑ توڑ گولیاں چلا کر موت کے گھاٹ اُتارنے کی واردات نہ صرف رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے، بلکہ اس سے ایک مرتبہ پھر اترپردیش میں پولیس انتظامیہ کی زبردست ناکامی اجاگر ہوئی ہے۔ پولیس دونوں کو گاڑی سے اُتار کر اسپتال لے جا رہی تھی کہ دونوں سامنے کھڑے میڈیا کارکنان کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے رُک گئے۔ اسی دوران میڈیا کا شناختی کارڈ پہنے، ہاتھ میں کیمرہ اور مائک لیے افراد نے پہلے عتیق کی کنپٹی سے پستول لگا کر گولی چلائی اور پھرا شرف کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ پولیس کی زبردست گھیرا بندی کے درمیان صرف 44سیکنڈ میں قتل کی واردات کو انجام دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ قاتل پوری پلاننگ اور تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ قاتلوں کا میڈیا مین کے رُوپ میں ہتھیار لے کر آنا جتنا حیرت میں ڈالنے والا ہے،اس سے زیادہ تعجب خیز اُن کا اندھا دھند گولیاں چلاتے رہنا ہے۔ ان کی دبنگئی کا اندازہ اسی سے ہوجاتا ہے کہ مقصد پورا ہونے کے بعد بھی وہ بھاگے نہیں، بلکہ اسلحے پھینک کر’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔پولیس کا قاتلوں کو روکنے،ان سے مقابلہ کرنے اور عتیق و اشرف کی حفاظت کرنے کے بجائے موقع سے بھاگ کھڑے ہونا اور تماشائی کی شکل اختیار کرنا پولیس کی ناکامی کو خط کشیدہ کرتا ہے۔عتیق اور اشرف کی حفاظت میں ایک انسپکٹر،سات دروغہ اور 13سپاہی لگے تھے ۔ ان سب پر تین بدمعاش بھاری پڑ گئے۔
کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ آئین سب سے اُوپر ہے،اس سے کھلواڑ کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی ۔مجرم کو سزا دینے کا حق عدالت کا ہے۔یہ حق کسی سرکار، نیتا یا قانون شکنی کرنے والے شخص کو نہیں دیا جا سکتا۔ ترنمول کانگریس لیڈر ممتابنرجی نے کہا کہ وہ یوپی میں قانون کے پوری طرح چرمرا جانے پر حیرت زدہ ہیں۔ یہ شرم ناک ہے کہ مجرم اب پولیس اور میڈیا کی موجودگی سے بے فکر ہوکر قانون اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ ایس پی صدر اکھلیش یادو نے کہا کہ یو پی جنگل راج کی گرفت میں ہے۔ قانون و آئین کی حکمرانی نہیں ہے۔ جرائم عروج پر ہیں۔ پولیس کی گھیرابندی اورمیڈیا کے سامنے منظم قتل حکومت کی ناکامی ہے۔بی ایس پی سپریمو مایا وتی نے کہا کہ گجرات سے عتیق و بریلی سے اس کے بھائی اشرف کو پریاگ راج لایا گیا اور یہاں پولیس حراست میں ان کی جان چلی گئی ۔ اُمیش پال معاملے کی طرح ہی یوپی سرکار کے قانونی نظم اور طریق کار پر کئی طرح کے سنجیدہ سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے کہا کہ یو پی میں مڈبھیڑ میں مارنا، بلڈوزر کی سیاست اور مجرموں کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ آل انڈیا اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے یوگی آدتیہ ناتھ سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یوپی میں قانون کے بجائے بندوق کی طاقت پر سرکار چلائی جا رہی ہے۔ ایوان بالا کے رکن کپل سبل نے ٹوئٹ کیا کہ اتر پردیش میں دو قتل: ’ایک عتیق اور اس کے بھائی اشرف کا اور دوسرا قانون کی حکمرانی کا۔‘
اترپردیش حکومت نے عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف احمد کے قتل کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس(ریٹائرڈ) اروند کمار ترپاٹھی کی سربراہی میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کرکے اس سے دو ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔کمیشن میںدودیگراراکین ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ جج برجیش کمار سونی اور سابق ڈی جی پی سبیش کمار سنگھ شامل ہیں۔15اپریل کی رات تقریباً 10:37 بجے عتیق احمد اور اشرف احمد کو پولیس کسٹڈی میں روٹین چیک اپ کے لیے پریاگ راج کے کالون اسپتال لے جاتے وقت میڈیا مین بن کر آئے تین بائیک سوار بدمعاشوں نے تابڑتوڑ گولیاں برساکر قتل کر دیا تھا۔ پولیس نے دوہرے قتل میں شامل ملزمان لولیش تیواری، موہت عرف سنی اور ارون موریہ کو تعطیل کورٹ میں پیش کیا،جہاں سے تینوں کو14دنوں کی عدالتی حراست میں جیل بھیج دیا۔حملہ آوروں کے ذریعہ 22گولیاں چلائی گئیں۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں عتیق کو آٹھ اور اشرف کو چھ گولیاں لگنے کی بات کہی جا رہی ہے۔رات میں دونوں کوپریاگ راج کے کساری مساری قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
اے ڈی جی قانون و بندوبست پرشانت کمار کے مطابق حملہ آوروں نے قتل کے لیے جو پستول استعمال کی، وہ ترکیہ کی بنی ہوئی ہے۔پولیس یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ ان کے پاس یہ جدید اسلحہ کہاں سے آیا؟ سوال کیا جا رہا ہے کہ ہندوستان میں سات لاکھ روپے قیمت کا ترک ساخت پستول جگانہ قاتلوں کے پاس کہاں سے آیا؟ تینوں الگ الگ اضلاع کے، ایک دوسرے سے انجان،پھر ایک ساتھ کیسے آئے؟ ان کے ہوٹل میں ٹھہرنے، بائک،میڈیا کے فرضی کارڈ و کیمرے وغیرہ کا انتظام کس نے کیا؟ پولیس کے جوانوں نے قاتلوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کیمرے کے سامنے صحت مند نظر آ رہے عتیق و اشرف کو طبی معائنہ کے لیے کیوں لے جایا گیا اور وہ بھی رات میں؟ کیا سفید پوشوں کا نام لینا ان کی موت کا سبب بنا؟ ایسے کئی سوال ہیں،جن کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزمان لولیش،سنی اور ارون کانٹریکٹ کلر ہیں اور ایک دوسرے کو پہلے سے نہیں جانتے تھے۔ ملزمان کا مقصد عتیق اور اشرف کا قتل کرکے جرائم کی دنیا میں شہرت حاصل کرنا تھا۔22سالہ لولیش تیواری(باندہ) نشہ خور،چھیڑخانی معاملے میں ڈیڑھ برس کی جیل کاٹ چکا ہے۔ ہمیر پور کرارا کے33سالہ موہت عرف سنی پر لوٹ،ناجائز وصولی اور دیگر جرائم کے 16 مقدمے درج ہیں۔قادری (کاس گنج) کے ارون موریہ حال رہائش پانی پت کی کرتوتوں سے گاؤں کے لوگ انجان ہیں۔
عتیق احمد کی پیدائش 10اگست1962کو الٰہ آباد میں تانگہ چلا کر اہل خانہ کی کفالت کرنے والے فیروز احمد کے یہاں ہوئی تھی۔ ہائی اسکول میں فیل ہونے کے بعد وہ بری سنگت میں پڑگیا۔ امیر بننے کے لیے لوٹ،اغوا اور رنگ داری کو انجام دینے لگا۔1989 میں اس نے سیاست میں قدم رکھا اور اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ اس کا مقابلہ شہر کے بڑے مافیا شوق الٰہی عرف چاند بابا سے تھا۔ ووٹوں کی گنتی سے دو روز قبل شام کو دونوں آمنے سامنے آگئے۔ پہلے بحث و تکراراورپھر تابڑتوڑ گولیوں کے درمیان چاندبابا کی موت ہوگئی۔ عتیق لگاتار پانچ مرتبہ ایم ایل اے اور 2004 میں الٰہ آباد کی پھول پور سیٹ سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوا۔ وہ اپنی اسمبلی سیٹ سے اپنے بھائی اشرف کو چناؤ لڑانا چاہتا تھا۔ 2002 میں راجو پال نے بھی سیاست میں قدم رکھا۔ بی ایس پی نے راجو پال کو ٹکٹ دے دیا۔ راجو پال نے اشرف کو ہرا دیا۔25جنوری 2005کو راجوپال کا دھوم گنج میں دن دہاڑے گولیاں برساکر قتل کردیا گیا۔ الزام عتیق اور اشرف پر لگا۔ 24فروری کو بی جے پی رہنما اُمیش پال قتل واردات نے پورے صوبے کو ہلا دیا۔اُمیش کی حفاظت میں لگے دو سپاہی بھی مارے گئے۔ اس کے پیچھے عتیق اور اشرف کا ہاتھ ہی نہیں بتایا گیا،بلکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں عتیق کے بیٹے اسد کو گولی چلاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ عتیق ا ورا شرف کے جرم کی داستان ختم ہو گئی۔ مجرموں کا ا نجام برا ہی ہوتا ہے۔انہیں عدالت سے سزا مل ہی رہی تھی،پھر خون سے ہاتھ رنگنے کی کیا ضرورت تھی؟
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]