امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے انتخاب نے پوری دنیا کے سیاست دانوں اور سفارت کاروں کے حساب وکتاب کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کے کئی حصوں میں بشمول ناٹو، جی سی سی،مغربی ایشیائی ممالک اور روس سے متعلق امور نے ڈونالڈ ٹرمپ کے نکتہ نظر جوبائیڈن کی پالیسیوں سے بالکل مختلف ہے۔ جوبائیڈن اپنے ملک کے سرمایہ یا افرادی قوت کو کہیں اور کھپانے میں یقین نہیں رکھتے۔ یہ بات وہ کئی مرتبہ باور کراچکے ہیں کہ ناٹو پر امریکہ کا خرچ زیادہ ہورہا ہے اوران کی رائے ہے کہ یہ رقم اندرون ملک امریکیوںپر خرچ کی جائے توان کی زندگی کا معیار بہتر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے تمام ملکوں سے اپنی فوجوں کو واپس بلانے کی بات کہی تھی اور اپنی پہلی میقات میں بھی انہوںنے افغانستان کی سرزمین کو امریکی فوجوں سے انخلا کے لئے ایک سفارتی پہل کی تھی اور ایک سمجھوتہ کے بعد افغانستان سے امریکہ کی قیادت والی ناٹو فوج کو واپس بلایا گیا تھا۔ امریکہ کے الیکشن کے نتائج پر افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کا ردعمل بڑا محتاط تھا۔ طالبان جمہوریت کو قبول نہیں کرتے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ جمہوری اقدار اسلامی اقدار سے متصادم ہے۔ لہٰذا انہوںنے بڑے نپے تلے انداز میں ڈونالڈ ٹرمپ کے انتخاب پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ طالبان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا نے 2021میں ان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے اب تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ طالبان کے کسی بھی ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں مگر ہندوستان کی قیادت نے افغانستان کے ساتھ اپنے دیرینہ عوامی سطح کے تعلقات کو نہ صرف یہ کہ برقرار رکھا بلکہ بڑھایا بھی ہے۔ حامد کرزئی اوراشرف غنی کے دور اقتدار میں بھی ہندوستان نے افغانستان میں کافی سرمایہ کاری کی تھی اوراس کی وجہ سے افغانستان کی بدحال معیشت اورانتظامی ڈھانچہ ازسرنو تعمیر ہوسکا تھا۔ آج کے حالات میں افغانستان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ آئیسولیشن کوختم کرے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے کئی ادارے افغانستان میں کام کر رہے ہیں اور کئی مغربی ممالک کے رضاکار بھی سماج کے حساس ترین طبقات کو مدد پہنچانے کے لئے اپنے رضاکار بھیج رہے ہیں۔ مگر یہ رضاکار اپنے طورپر بغیرطالبان پر انحصار کئے عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ اب طالبان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ اب تک ایک دہشت گرد گروپ کے طورپر سمجھا جاتا ہے کس طرح عالمی سطح پر اپنی قبولیت کو بحال کرے گا۔
افغانستان کی طالبان حکومت کو سعودی عرب اور پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک نے تسلیم نہیں کیا تھا اورلگاتار مغربی ممالک طالبان پر یہ دبائو ڈالتے رہے تھے کہ وہ اپنے نظام کو جمہوری بنائے، خواتین کو ترقی اور خوشحالی کے لئے وافر مواقع فراہم کرے۔ ان کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی اجازت دے، کام کرنے کی سہولت دے۔ مگر طالبان تقریباً ڈھائی دہائی گزرنے کے باوجود اپنے پرانے قبائلی نظام کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ممکن بنانے کے لئے قطر نے ہی اہم رول ادا کیا تھا۔ امریکی انتظامیہ اور طالبان لیڈرشپ کے درمیان دو دہائیوں تک چلی جنگ کے بعد دوحہ میں ہی سمجھوتہ ہوا تھا۔ مگر جوبائیڈن حکومت نے اقتدار میں آتے ہی جس پھوہڑپن کا مظاہرہ کیا تھا اس کے اندوہ ناک مناظرپوری دنیا نے دیکھے تھے۔2021 کی تاریک راتوں میں امریکہ کے فوجیوں نے کئی جنگی اڈے خالی کردیے تھے اور راتوں رات افغانستان سے غائب ہوگئے تھے۔ ان حالات میں وہ طبقہ جوکہ امریکہ کے ساتھ تعاون کر رہا تھا اپنے آپ کو بے یارومددگار پاکر اس قدر بے چین ہوگیا کہ بہت سے لوگوں نے ہوائی جہازوں سے لٹک لٹک کر افغانستان چھوڑنے کی کوشش کی تھی۔ یہ دنیا کی تاریخ کا سب سے شرمناک اور افسوسناک دور تھا جس میں افغانستان کے لوگ بالکل بے یارومددگار چھوڑ دیے گئے تھے۔ کئی ملکوں نے اس تجربے سے ایسا سبق سیکھا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ افغانستان کے علاوہ کئی مغربی ایشیا کے ممالک میں امریکی فوجیں ہیں اوریہ سب تمام فوجیں وہاں کے ایک بڑے طبقے کے تعاون سے مقیم ہیں۔ اگر موجودہ منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ عراق، شام یا کسی دوسرے ملک سے اپنی فوجیں واپس بلاتے ہیں تو ان کی واپسی کیا اسی طرح ہوگی جس طرح افغانستان سے ہوئی تھی، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ کیونکہ یہ ٹرمپ کی دوسری اورآخری میقات ہوگی۔
افغانستان میں اس وقت طالبان کے علاوہ کوئی دوسری طاقت نہیں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی میقات میں افغانستان کے ایک سفارت کار ظلمے خلیل زاد کے ساتھ مل کر افغانستان سے اخراج کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس سمجھوتہ کے تحت امریکہ کو بگرام فوجی اڈے کو اپنے تحویل میں رکھنا تھا۔ مگر جوبائیڈن کی بدنظمی اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے امریکی فوجیں اچانک واپس آگئیں۔ اس سانحہ کے بعد سے اب تک افغانستان میں کوئی مضبوط ڈھانچہ نہیں بن سکا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے طالبان پر دبائو ڈالنے کے لئے افغانستان کے بڑے سرمایہ کو جاری نہیں کیا ہے اوریہ سرمایہ ابھی تک امریکی بینکوںمیںہے۔ طالبان اگرچہ کئی ملکوں کے ساتھ غیررسمی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔اس میں ہندوستان کے علاوہ چین بھی شامل ہے۔ امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان میں جو خلا پیدا ہوگیا تھا اس کو بھرنے کے لئے یہ دونوں ممالک کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ ان دونوںملکوں کے اسٹریٹجک نکتہ نظر سے بھی کافی اہم ہے۔ گزشتہ چار سال میں امریکہ نے افعانستان کے متعلق کوئی بھی اچھا فیصلہ نہیں کیا اور اس کی رقم کو منجمد کرکے طالبان پر دبائو ڈالنے کے علاوہ جوبائیڈن انتظامیہ نے کوئی بھی حکمت عملی اختیار نہیں کی۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ ڈونالڈٹرمپ اپنی پہلی میقات میں چھوڑے گئے مشن کو پورا کریںگے یا ایسے ہی افغانستان کے عوام کو طالبان کے ہاتھوں میں چھوڑ کر اپنی ذمہ داریوں سے پلہ جھاڑ لیںگے۔
طالبان کی کوشش رہے گی کہ وہ امریکی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرے۔ آج کے بدلے ہوئے حالات، ایشیا اورمغربی ایشیا کے کئی حصوں میں کئی اور شدت پسند گروپ سرگرم ہوگئے ہیں۔ جن کے خلاف طالبان سرگرم ہے۔ اس خطے میں اسلامک اسٹیٹ خرسان (آئی ایس کے پی) جیسے گروپ فساد اور قتل وغارت گری مچانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ افغانستان کے لوگ ایک بہت طاقتور اورنظریاتی طورپر سخت قوم ہے۔ افغانستان کے قرب وجوار کے ممالک میں صورت حال اس قدر پرامن نہیں ہے کہ افغانستان کے طالبان کو ایک بار پھر انہی ناپسندیدہ عناصر کے ہتھے چڑھنے دیا جائے۔لہٰذا طالبان سے مذاکرات کئے جائیں اور ان کو مین اسٹریم میں شامل کیا جائے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فلوریڈا کی کانگریس ممبر مائیک ویٹ کواپنا سیکورٹی مشیر بنانے کا اعلان کیا ہے۔ وہ افغانستان میں فوجی خدمات انجام دے چکے ہیں اورمیدان جنگ کے دنوں اور ہتھکنڈوں سے واقف ہیں۔ انہوں نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا میں کافی اہم رول ادا کیا تھا۔ ٭٭