پیگاسس جاسوسی کیس نے پوری دنیا کی حکومتوں کو ایک نئی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ ہندوستان میں بھی اس سلسلہ میں کافی ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ اپوزیشن کے ہنگامہ کے سبب پارلیمنٹ مانسون اجلاس کے پہلے ہفتہ میں ایک دن بھی ٹھیک سے کام کاج نہیں کرپائی ہے۔ پیگاسس اسرائیل کی سرویلانس کمپنی این ایس او کا سافٹ ویئر ہے اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس کے ذریعہ پوری دنیا میں جاسوسی کا نیٹ ورک کام کررہا ہے۔ فرانس کی میڈیا آرگنائزیشن فاربیڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو اس نیٹ ورک سے لیک ہوئے 50ہزار فون نمبروں کا ڈاٹا ملا۔ چوں کہ ڈاٹا بیس تعداد کے لحاظ سے بہت بڑا اور دائرہ کے حساب سے 45 سے زائد ممالک کے سبب بین الاقوامی تھا، اس لیے اس کی تحقیقات کے لیے دنیا کے 16میڈیا اداروں کو ایپروچ کیا گیا۔ پھر ان اداروں کے رپورٹروں کا ایک گروپ بنا جس کی تحقیقات میں پایاگیا کہ کم سے کم 14ممالک کے موجودہ یا سابق سربراہوں سمیت کئی اہم شخصیات جاسوسی کے دائرہ میں ہیں اور ان سے لیک ہوئی معلومات کافی حساس ہوسکتی ہیں۔ لیک ہوئے نمبروں میں تقریباً 300سے زیادہ نمبر ہندوستان سے ہیں جس سے اندیشہ ہے کہ کئی لیڈروں، وزرا، سماجی کارکنان، صحافیوں اور یہاں تک کہ سابق چیف الیکشن کمشنر اور سابق سی بی آئی چیف جیسے افسران تک کے فون کی جاسوسی کی گئی ہے۔ اس معاملہ میں سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی این ایس او نے اپنی صفائی میں دو اہم باتیں کہی ہیں۔ پہلی سافٹ ویئر بنانے کے مقصد سے متعلق ہے جو اس کے مطابق مجرمین اور دہشت گردوں کو ٹریک کرنا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ اپنا سافٹ ویئر ذاتی خریداروں کو نہیں، بلکہ ملک کی حکومتوں کو ہی فروخت کرتی ہے۔ یعنی اگر پیگاسس سافٹ ویئر سے کوئی جاسوسی کرسکتا ہے تو وہ حکومتیں ہی کرسکتی ہیں۔
پیگاسس سے جڑے معاملہ پر سچ کا سامنے آنا اس لیے بھی ضروری ہے، کیوں کہ اس سے کئی حساس سوال وابستہ ہیں۔ این ایس او کی جانب سے صاف کیا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ 50ہزار کے ڈاٹا بیس میں ہر نمبر کی ہیکنگ ہوئی ہو۔ لیکن اس سے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کسی بھی نمبر کی ہیکنگ نہیں ہوئی۔ ٹورنٹو کی سٹیزن لیب کو بھیجے گئے 67نمونوں میں سے 37کے ہیکنگ کی تصدیق ہوئی ہے۔ ایسے ہی کئی سوال ہیں، جیسے 50ہزار نمبروں کا بھاری بھرکم ڈاٹا بیس کہاں سے ملا، اس کی پختہ معلومات نہیں ہے۔ ان نمبروں میں سے جن 1,571نمبروں سے متعلق معلومات شیئر کی جارہی ہیں، ان کے انتخاب کی بنیاد کیا تھی؟ یہ نمبر45ممالک سے متعلق ہیں، لیکن ہندوستان کے مانسون اجلاس سے قبل کی شام میں ہی کیوں لیک ہوئے؟ دیر شام تک ان نمبروں کو لیک کرنے کے پیچھے کیا کوئی خاص وجہ تھی؟
اب یہ تو وہ معلومات ہیں جو اس معاملہ میں دلچسپی رکھ رہے ہر شخص تک پہنچ چکی ہیں۔ ہنگامہ اس جواب کی تلاش سے متعلق ہے، جن پر ابھی بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔ جاسوسی والی فہرست میں اپنے صدر ایمینوئل میکروں کا نمبر آنے پر فرانس نے جانچ شروع کردی ہے۔ یوروپ کے زیادہ تر ملک اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ تنازع کی ’ماتربھومی‘ ہونے کے سبب اسرائیل نے بھی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ ہندوستان میں ابھی کوئی جانچ تو شروع نہیں ہوئی ہے، لیکن اپوزیشن سپریم کورٹ کی نگرانی والی کمیٹی سے لے کر جے پی سی جانچ کے لیے آواز بلند کررہا ہے۔ لیکن مرکزی حکومت میں جانچ کے سلسلہ میں زیادہ جوش نظر نہیں آرہا ہے۔ اس کے برعکس حکومت کی جانب سے جواب دینے کے لیے سب سے پہلے آگے آئے نئے آئی ٹی وزیر اشونی ویشنو نے اس کی ٹائمنگ پر ہی سوال اٹھا دیا کہ مانسونس اجلاس سے پہلے اس فہرست کا سامنے آنا ہندوستانی جمہوریت کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ اسی دن شام ہوتے ہوتے سامنے آئی دوسری فہرست میں اشونی ویشنو کا نام بھی سامنے آگیا، حالاں کہ یہ نام جس وقت فہرست میں شامل تھا، تب ویشنو نہ وزیر تھے اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی سے منسلک تھے، تب وہ بیوروکریٹ تھے۔ لیکن فہرست میں پرہلاد پٹیل جیسے وزیر اور اسمرتی ایرانی کے معاونین کے نام ضرور شامل ہیں۔ لیک ہوئے نمبروں پر حکومت کی جانب سے دوسری صفائی دینے کے لیے سابق آئی ٹی وزیر روی شنکر پرساد نے محاذ سنبھالا اور اسے ہندوستان مخالف ایجنڈا بتایا۔ اس کے بعد حکومت/بی جے پی کی جانب سے اس معاملہ میں دو مزید صفائی جڑی ہیں۔ پہلی یہ کہ جنہیں اپنا فون ہیک ہونے کا شک ہے، وہ اسے فارنسک جانچ کے لیے دے دیں- اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اور دوسری یہ کہ لیک ہوئے نمبر انٹرنیٹ سے اٹھائے گئے ہیں جس کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مبینہ بیان کو بنیاد بنایا گیا۔ حالاں کہ بعد میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہی نمبروں کی صداقت کی تصدیق کرتے ہوئے اس دعویٰ کو خارج کردیا۔ بہرحال اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس معاملہ پر جواب تو آرہے ہیں لیکن یہ جواب اس احساس کو مضبوط بنارہے ہیں کہ حکومت بنیادی سوال کے سیدھے جواب سے بچ رہی ہے- حکومت نے پیگاسس سافٹ ویئر خریدا یا نہیں؟
حکومت سے اس سوال پر اور شفافیت کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ فہرست میں شامل نام اور ان ناموں کو فہرست میں شامل کرنے کی ٹائمنگ بھی صورت حال کو پیچیدہ بنارہی ہے۔ اپوزیشن الزام لگارہے ہیں کہ فہرست میں جو نام شامل ہیں، وہ کہیں نہ کہیں یا تو حکومت کے صریح مخالف رہے ہیں یا حکومت کی شبیہ بنانے کے لحاظ سے اہم ہیں۔ پھر جس وقت ان کا نام فہرست میں شامل ہوا، اس کے آس پاس ہی ملک سے وابستہ کوئی نہ کوئی اہم واقعہ بھی ہے-چاہے وہ الیکشن ہو یا عدالتوں میں چل رہا ملک کے مستقبل سے جڑا کوئی اہم فیصلہ؟ کانگریس نے 2017-18 میں نیشنل سکیورٹی کاؤنسل کے بجٹ میں 300فیصد کے اضافہ پر سوال اٹھاکر اس تنازع کو نیا اینگل دے دیا ہے۔ کانگریس کو لگتا ہے کہ اسی مدت میں پیگاسس کی خرید ہوئی ہے اور اضافی بجٹ اسی خرید پر خرچ ہوا ہے۔
وہیں حکومت کی دلیلوں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لافل انٹرسیپشن ایک جانچا پرکھا عمل ہے- قانونی طریقہ سے فون کی نگرانی یا ٹیپنگ ملک میں برسوں سے چلی آرہی ہے۔ یہ بات سچ بھی ہے۔ سابق صدر گیانی ذیل سنگھ، سابق وزیراعظم چندرشیکھر، کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ رام کرشن ہیگڑے کی یادیں اگر دھندلی پڑگئی ہوں تو انہیں تازہ کرنے کے لیے موجودہ سی ایم اشوک گیلوت سے لے کر بی ایس یدی یورپا اور نیرا راڈیا کے نام حکومت بچانے سے لے کر حکومت گرانے کے تنازع سے جڑتے رہے ہیں۔ اس معاملہ پر چل رہے کئی مباحثوں میں یہ نام آگے کیے جارہے ہیں، حالاں کہ یہ باجواز بالکل نہیں ہے۔ دونوں معاملات میں بنیادی فرق ہے-ایک ٹیپنگ سے جڑا ہے، دوسرے کے تار ہیکنگ سے جڑے ہیں، جس پر ملک کا قانون بھی بالکل واضح ہے۔ 2000سے مؤثر آئی ٹی ایکٹ کا سیکشن69حکومت کو یہ حق دیتا ہے کہ اگر ملک کی حفاظت، شائستگی، اخلاقیات یا کسی جرم کو روکنے کے لیے اسے ضروری لگتا ہے تو وہ انٹرسیپشن کرسکتی ہے۔ لیکن اسپائی ویئر کے ذریعہ انٹرسیپشن غیرقانونی ہے اور اسی لیے یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اسے سائبر کرائم کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔
لاء فل انٹرسیپشن سے متعلق خدشات طویل عرصہ سے برقرار ہیں۔ دو سال پہلے بھی لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں پیگاسس کا معاملہ اٹھا تھا۔ تب بھی وہاٹس ایپ کال اور میسیج کی ٹیپنگ کے لیے اس سافٹ ویئر کے استعمال کے سوال پر قانون کے دائرہ میں نگرانی کی بات سامنے آئی تھی۔ لیکن یہ جواب تب بھی نہیں مل پایا تھا کہ کیا ہماری حکومت این ایس او کی کلائنٹ ہے اور اس ناطے کیا وہ بھی پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کرتی ہے؟
پیگاسس سے جڑے معاملہ پر سچ کا سامنے آنا اس لیے بھی ضروری ہے، کیوں کہ اس سے کئی حساس سوال وابستہ ہیں۔ این ایس او کی جانب سے صاف کیا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ 50ہزار کے ڈاٹا بیس میں ہر نمبر کی ہیکنگ ہوئی ہو۔ لیکن اس سے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کسی بھی نمبر کی ہیکنگ نہیں ہوئی۔ ٹورنٹو کی سٹیزن لیب کو بھیجے گئے 67نمونوں میں سے 37کے ہیکنگ کی تصدیق ہوئی ہے۔ ایسے ہی کئی سوال ہیں، جیسے 50ہزار نمبروں کا بھاری بھرکم ڈاٹا بیس کہاں سے ملا، اس کی پختہ معلومات نہیں ہے۔ ان نمبروں میں سے جن 1,571 نمبروں سے متعلق معلومات شیئر کی جارہی ہیں، ان کے انتخاب کی بنیاد کیا تھی؟ یہ نمبر45ممالک سے متعلق ہیں، لیکن ہندوستان کے مانسون اجلاس سے قبل کی شام میں ہی کیوں لیک ہوئے؟ دیر شام تک ان نمبروں کو لیک کرنے کے پیچھے کیا کوئی خاص وجہ تھی؟ اس معاملہ میں کسی بھی طرح کی حصہ داری سے حکومت کے انکار کے بعد تو ان سوالات کی جانچ اور بھی ضروری ہوگئی ہے۔ ملک کو یہ معلومات ملنی ہی چاہئیں کہ ہندوستان سے وابستہ معلومات جمع کررہی طاقتیں کون ہیں اور ان کا اصلی مقصد کیا ہے؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
جاسوسی کیس نے پوری دنیا کی حکومتوں کو ایک نئی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ ہندوستان میں بھی اس سلسلہ میں کافی ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ اپوزیشن کے ہنگامہ کے سبب پارلیمنٹ مانسون اجلاس کے پہلے ہفتہ میں ایک دن بھی ٹھیک سے کام کاج نہیں کرپائی ہے۔ پیگاسس اسرائیل کی سرویلانس کمپنی این ایس او کا سافٹ ویئر ہے اور دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس کے ذریعہ پوری دنیا میں جاسوسی کا نیٹ ورک کام کررہا ہے۔ فرانس کی میڈیا آرگنائزیشن فاربیڈین اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو اس نیٹ ورک سے لیک ہوئے 50ہزار فون نمبروں کا ڈاٹا ملا۔ چوں کہ ڈاٹا بیس تعداد کے لحاظ سے بہت بڑا اور دائرہ کے حساب سے 45 سے زائد ممالک کے سبب بین الاقوامی تھا، اس لیے اس کی تحقیقات کے لیے دنیا کے 16میڈیا اداروں کو ایپروچ کیا گیا۔ پھر ان اداروں کے رپورٹروں کا ایک گروپ بنا جس کی تحقیقات میں پایاگیا کہ کم سے کم 14ممالک کے موجودہ یا سابق سربراہوں سمیت کئی اہم شخصیات جاسوسی کے دائرہ میں ہیں اور ان سے لیک ہوئی معلومات کافی حساس ہوسکتی ہیں۔ لیک ہوئے نمبروں میں تقریباً 300سے زیادہ نمبر ہندوستان سے ہیں جس سے اندیشہ ہے کہ کئی لیڈروں، وزرا، سماجی کارکنان، صحافیوں اور یہاں تک کہ سابق چیف الیکشن کمشنر اور سابق سی بی آئی چیف جیسے افسران تک کے فون کی جاسوسی کی گئی ہے۔ اس معاملہ میں سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی این ایس او نے اپنی صفائی میں دو اہم باتیں کہی ہیں۔ پہلی سافٹ ویئر بنانے کے مقصد سے متعلق ہے جو اس کے مطابق مجرمین اور دہشت گردوں کو ٹریک کرنا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ اپنا سافٹ ویئر ذاتی خریداروں کو نہیں، بلکہ ملک کی حکومتوں کو ہی فروخت کرتی ہے۔ یعنی اگر پیگاسس سافٹ ویئر سے کوئی جاسوسی کرسکتا ہے تو وہ حکومتیں ہی کرسکتی ہیں۔
اب یہ تو وہ معلومات ہیں جو اس معاملہ میں دلچسپی رکھ رہے ہر شخص تک پہنچ چکی ہیں۔ ہنگامہ اس جواب کی تلاش سے متعلق ہے، جن پر ابھی بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔ جاسوسی والی فہرست میں اپنے صدر ایمینوئل میکروں کا نمبر آنے پر فرانس نے جانچ شروع کردی ہے۔ یوروپ کے زیادہ تر ملک اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ تنازع کی ’ماتربھومی‘ ہونے کے سبب اسرائیل نے بھی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ ہندوستان میں ابھی کوئی جانچ تو شروع نہیں ہوئی ہے، لیکن اپوزیشن سپریم کورٹ کی نگرانی والی کمیٹی سے لے کر جے پی سی جانچ کے لیے آواز بلند کررہا ہے۔ لیکن مرکزی حکومت میں جانچ کے سلسلہ میں زیادہ جوش نظر نہیں آرہا ہے۔ اس کے برعکس حکومت کی جانب سے جواب دینے کے لیے سب سے پہلے آگے آئے نئے آئی ٹی وزیر اشونی ویشنو نے اس کی ٹائمنگ پر ہی سوال اٹھا دیا کہ مانسونس اجلاس سے پہلے اس فہرست کا سامنے آنا ہندوستانی جمہوریت کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ اسی دن شام ہوتے ہوتے سامنے آئی دوسری فہرست میں اشونی ویشنو کا نام بھی سامنے آگیا، حالاں کہ یہ نام جس وقت فہرست میں شامل تھا، تب ویشنو نہ وزیر تھے اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی سے منسلک تھے، تب وہ بیوروکریٹ تھے۔ لیکن فہرست میں پرہلاد پٹیل جیسے وزیر اور اسمرتی ایرانی کے معاونین کے نام ضرور شامل ہیں۔ لیک ہوئے نمبروں پر حکومت کی جانب سے دوسری صفائی دینے کے لیے سابق آئی ٹی وزیر روی شنکر پرساد نے محاذ سنبھالا اور اسے ہندوستان مخالف ایجنڈا بتایا۔ اس کے بعد حکومت/بی جے پی کی جانب سے اس معاملہ میں دو مزید صفائی جڑی ہیں۔ پہلی یہ کہ جنہیں اپنا فون ہیک ہونے کا شک ہے، وہ اسے فارنسک جانچ کے لیے دے دیں- اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اور دوسری یہ کہ لیک ہوئے نمبر انٹرنیٹ سے اٹھائے گئے ہیں جس کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مبینہ بیان کو بنیاد بنایا گیا۔ حالاں کہ بعد میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہی نمبروں کی صداقت کی تصدیق کرتے ہوئے اس دعویٰ کو خارج کردیا۔ بہرحال اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس معاملہ پر جواب تو آرہے ہیں لیکن یہ جواب اس احساس کو مضبوط بنارہے ہیں کہ حکومت بنیادی سوال کے سیدھے جواب سے بچ رہی ہے- حکومت نے پیگاسس سافٹ ویئر خریدا یا نہیں؟
حکومت سے اس سوال پر اور شفافیت کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ فہرست میں شامل نام اور ان ناموں کو فہرست میں شامل کرنے کی ٹائمنگ بھی صورت حال کو پیچیدہ بنارہی ہے۔ اپوزیشن الزام لگارہے ہیں کہ فہرست میں جو نام شامل ہیں، وہ کہیں نہ کہیں یا تو حکومت کے صریح مخالف رہے ہیں یا حکومت کی شبیہ بنانے کے لحاظ سے اہم ہیں۔ پھر جس وقت ان کا نام فہرست میں شامل ہوا، اس کے آس پاس ہی ملک سے وابستہ کوئی نہ کوئی اہم واقعہ بھی ہے-چاہے وہ الیکشن ہو یا عدالتوں میں چل رہا ملک کے مستقبل سے جڑا کوئی اہم فیصلہ؟ کانگریس نے 2017-18 میں نیشنل سکیورٹی کاؤنسل کے بجٹ میں 300فیصد کے اضافہ پر سوال اٹھاکر اس تنازع کو نیا اینگل دے دیا ہے۔ کانگریس کو لگتا ہے کہ اسی مدت میں پیگاسس کی خرید ہوئی ہے اور اضافی بجٹ اسی خرید پر خرچ ہوا ہے۔
وہیں حکومت کی دلیلوں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ لافل انٹرسیپشن ایک جانچا پرکھا عمل ہے- قانونی طریقہ سے فون کی نگرانی یا ٹیپنگ ملک میں برسوں سے چلی آرہی ہے۔ یہ بات سچ بھی ہے۔ سابق صدر گیانی ذیل سنگھ، سابق وزیراعظم چندرشیکھر، کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ رام کرشن ہیگڑے کی یادیں اگر دھندلی پڑگئی ہوں تو انہیں تازہ کرنے کے لیے موجودہ سی ایم اشوک گیلوت سے لے کر بی ایس یدی یورپا اور نیرا راڈیا کے نام حکومت بچانے سے لے کر حکومت گرانے کے تنازع سے جڑتے رہے ہیں۔ اس معاملہ پر چل رہے کئی مباحثوں میں یہ نام آگے کیے جارہے ہیں، حالاں کہ یہ باجواز بالکل نہیں ہے۔ دونوں معاملات میں بنیادی فرق ہے-ایک ٹیپنگ سے جڑا ہے، دوسرے کے تار ہیکنگ سے جڑے ہیں، جس پر ملک کا قانون بھی بالکل واضح ہے۔ 2000سے مؤثر آئی ٹی ایکٹ کا سیکشن69حکومت کو یہ حق دیتا ہے کہ اگر ملک کی حفاظت، شائستگی، اخلاقیات یا کسی جرم کو روکنے کے لیے اسے ضروری لگتا ہے تو وہ انٹرسیپشن کرسکتی ہے۔ لیکن اسپائی ویئر کے ذریعہ انٹرسیپشن غیرقانونی ہے اور اسی لیے یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اسے سائبر کرائم کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔
لاء فل انٹرسیپشن سے متعلق خدشات طویل عرصہ سے برقرار ہیں۔ دو سال پہلے بھی لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں پیگاسس کا معاملہ اٹھا تھا۔ تب بھی وہاٹس ایپ کال اور میسیج کی ٹیپنگ کے لیے اس سافٹ ویئر کے استعمال کے سوال پر قانون کے دائرہ میں نگرانی کی بات سامنے آئی تھی۔ لیکن یہ جواب تب بھی نہیں مل پایا تھا کہ کیا ہماری حکومت این ایس او کی کلائنٹ ہے اور اس ناطے کیا وہ بھی پیگاسس سافٹ ویئر کا استعمال کرتی ہے؟
پیگاسس سے جڑے معاملہ پر سچ کا سامنے آنا اس لیے بھی ضروری ہے، کیوں کہ اس سے کئی حساس سوال وابستہ ہیں۔ این ایس او کی جانب سے صاف کیا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ 50ہزار کے ڈاٹا بیس میں ہر نمبر کی ہیکنگ ہوئی ہو۔ لیکن اس سے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کسی بھی نمبر کی ہیکنگ نہیں ہوئی۔ ٹورنٹو کی سٹیزن لیب کو بھیجے گئے 67نمونوں میں سے 37کے ہیکنگ کی تصدیق ہوئی ہے۔ ایسے ہی کئی سوال ہیں، جیسے 50ہزار نمبروں کا بھاری بھرکم ڈاٹا بیس کہاں سے ملا، اس کی پختہ معلومات نہیں ہے۔ ان نمبروں میں سے جن 1,571 نمبروں سے متعلق معلومات شیئر کی جارہی ہیں، ان کے انتخاب کی بنیاد کیا تھی؟ یہ نمبر45ممالک سے متعلق ہیں، لیکن ہندوستان کے مانسون اجلاس سے قبل کی شام میں ہی کیوں لیک ہوئے؟ دیر شام تک ان نمبروں کو لیک کرنے کے پیچھے کیا کوئی خاص وجہ تھی؟ اس معاملہ میں کسی بھی طرح کی حصہ داری سے حکومت کے انکار کے بعد تو ان سوالات کی جانچ اور بھی ضروری ہوگئی ہے۔ ملک کو یہ معلومات ملنی ہی چاہئیں کہ ہندوستان سے وابستہ معلومات جمع کررہی طاقتیں کون ہیں اور ان کا اصلی مقصد کیا ہے؟
اُپیندررائے
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)