خواجہ عبدالمنتقم
کسی بھی ملک کا آئین یادستور یا قانون اساسی اس کی مقدس ترین قانونی کتاب ہوتی ہے اور اس میں شامل بنیادی حقوق، بنیادی فرائض اور دیگر امور کی با بت دفعات کو شامل کرنے کی واحد غرض یہی ہوتی ہے کہ عوام کے تمام شہری، سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی، ثقافتی و مذہبی حقوق کی حفاظت کی جائے۔ اگر کسی بھی ملک کے دستور میں وہاں کے عوام کو ان حقوق کی مکمل ضمانت نہیں دی جاتی تو ہمیشہ یہ خدشہ بنا رہتا ہے کہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے، کب ان کے حقوق کو پامال کردیں اور ان کی آزادی خطرے میں پڑجائے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آزادی کا مطلب، اس کا مقصد یا اس کی غرض بے لگام آزادی نہیں ہوتی ۔ آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ جو چاہیں کرسکیں۔ ایسی آزادی تو صرف جنگل راج میں ہی حاصل ہوسکتی ہے ورنہ آزادی ہمیشہ مختلف پابندیوں یا تحدیدات کے ساتھ عطا کی جانے والی آزادی ہوتی ہے۔
آج کے معاشرے میں انتشاری صورت حال اورسماجی برائیوںپر قابو پانے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہندوستان کے عوام بھارت کے آئین کی دفعہ 51الف میں درج بنیادی فرائض،جن کی تفصیل مابعد درج ہے، ایمانداری اور صدق دلی سے انجام دیں۔ سپریم کورٹ نے بھی موجودہ صورت حال میں ان بنیادی فرائض کی اہمیت کے مدنظر مرکزی حکومت سے ایک مفادعامہ سے متعلق معاملے میںکچھ عرصہ قبل یہ سوال کیاتھا کہ بنیادی فرائض کو بنیادی حقوق کی طرح کیوں نہ قابل نفاذ بنایا جائے۔ اس معاملے کی دوسری پیشی پر حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ بنیادی فرائض کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے لیے ضروری اقدام کیے جا رہے ہیں،کچھ کیے جاچکے ہیں اور کچھ متوقع ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اسکولوں کے نصاب میں پہلے ہی شامل کیا جاچکا ہے اور تشہیری پروگراموں کے ذریعہ عوام میں ان کے تئیں بیداری پیدا کرنے اور انہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان فرائض پر عملدرآمدگی کیوں ضروری ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس ضمن میں قانون سازی کے کسی عمل کی ضرورت نہیں ہے، عاملانہ کارروائی ہی کافی ہے۔ ویسے بھی قانون سازی عاملہ کے دائرۂ اختیار میں آتی ہے۔ عدلیہ تو صرف مشورہ ہی دے سکتی ہے۔
اس سے قبل کہ ہم بنیادی فرائض کے بنیادی حقوق کی طرح قابل نفاذ ہونے سے متعلق سپریم کورٹ کے مرکزی حکومت سے کیے گئے سوا ل کی اہمیت و معنویت کی بات کریں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے بنیادی فرائض کیا ہیں اور انہیں بھارت کے آئین میں کب اور کیوں شامل کیا گیا تھا۔یہ فرائض سورن سنگھ کمیٹی کی سفارش پر آئین کی 42ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیے گئے تھے۔ شروع میں ان میں صرف دس فرائض کو شامل کیا گیا تھا لیکن 2002میں ان میں چھوٹے بچوں کی تعلیم سے متعلق 13 واںفرض’’(ک)‘‘ آئین کی 86ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا۔
.51الف۔بنیادی فرائض۔ بھارت کے ہر شہری کا یہ فرض ہوگا کہ وہ۔۔۔ (الف)آئین پر کاربندر ہے اور اس کے نصب العین اور اداروں، قومی پر چم اور قومی ترانے کا احترام کرے۔
(ب) ان اعلیٰ نصب العین کو عزیز رکھے اور ان کی تقلید کرے جو آزادی کی تحریک میں قوم کی رہنمائی کرتے رہے ہیں۔
(ج) بھارت کے اقتدار اعلیٰ ، اتحاد اور سا لمیت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرکے ان کا تحفظ کرے۔
(د) ملک کی حفاظت کرے او ر جب ضرورت پڑے، قومی خدمت انجام دے۔
(ہ) مذہبی ، لسانی اور علاقائی وطبقاتی تفرقا ت سے قطع نظر بھارت کے عوام الناس کے مابین یک جہتی اور عام بھائی چارے کے جذبے کو فروغ دے نیز ایسی حرکات سے بازر ہے جن سے خواتین کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہو۔
(و)ملک کی ملی جلی ثقافت کی قدر کرے اور اُسے برقرار رکھے ۔
(ز) قدرتی ماحول کو جس میں جنگلات، جھیلیں، دریا اور جنگلی جانور شامل ہیں محفوظ رکھے اور بہتر بنائے اور جانداروں کے تئیں محبت و شفقت کا جذبہ رکھے۔
(ح) دانشور انہ رویے سے کام لے کر انسان دوستی اور تحقیقی و اصلاحی شعور کو فروغ دے۔
(ط) قومی جائداد کا تحفظ کرے اور تشدد سے گریز کرے۔
(ی) تمام انفرادی اور اجتماعی شعبوں کی بہتر کار کردگی کے لیے کوشاں رہے تاکہ قوم متواتر ترقی و کامیابی کی منازل طے کرنے میں سر گرم عمل رہے۔
(ک)اگر ماں-باپ یا ولی ہے، چھ سال سے چودہ سال تک کی عمر کے اپنے بچے یا وارڈ،جیسی بھی صورت ہو، کے لیے تعلیم کے مواقع فراہم کرے۔
جہاں تک بنیادی حقوق کی بات ہے وہ اس خصوصیت کے حامل ہیں کہ اگر ان میں سے کسی بھی حق کی خلاف ورزی ہو تووہ شخص جس کا حق تلف ہوا ہے، آئین کی دفعہ32یا دفعہ 226کے تحت بالترتیب سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں رٹ داخل کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنیادی حقوق کو Justiciable Rights یعنی قابل چارہ جوئی حقوق کہا گیا ہے جب کہ بھارت کے آئین میں دیے گئے ہدایتی اصولوں کو یہ درجہ حاصل نہیںہے۔ ان کی قانونی نوعیت بنیادی حقوق سے بالکل مختلف ہے چونکہ انہیں بنیادی حقوق کی طرحJusticiable Rights یعنی قابل چارہ جوئی حقوق کا درجہ حاصل نہیں۔بہ الفاظ دیگر ان کی خلاف ورزی کی صورت میںآئین کی دفعہ32یا دفعہ 226کے تحت بالترتیب سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں رٹ داخل نہیں کی جاسکتی ۔ یہ مانا کہ نہ صرف ہمارے آئین بلکہ ایسے ممالک کے دساتیر کی رو سے بھی جنہوں نے ہمیشہ بنیادی حقوق یا انسانی حقوق کی وکالت یا حمایت کی ہے، بنیادی حقوق ناقابل تنسیخ مانے جاتے ہیں لیکن پھر بھی یہ حقوق مختلف پابندیوں اور مختلف تحدیدات کے تابع عطا کیے گئے ہیں۔ اگر چہ عدالت کی مختلف نظیروں کے مطابق اب ان میںسے کچھ حقوق کو کسی حد تک حقوق مطلق (Absolute Rights)کا درجہ دیا جاچکا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آزادی کا مقصد لا قانونیت ہے کیونکہ ان حقوق کا استعمال پابندیوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ اب رہا سوال یہ کہ مناسب پابندیاں کیا اور کون سی ہیں اس کی وضاحت وقتاً فوقتاًہماری عدالتیں کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے آئین میں بھی یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ ان حقوق کا استعمال اس طرح کیا جانا چاہیے کہ ان سے امن عامہ اور اخلاق عامہ پر منفی اثر نہ پڑے۔
اگر عدلیہ بنیادی حقوق کے تحفظ کے معاملے میں حسب معمول اسی طرح مثبت کردار ادا کرتی رہے، انتظامیہ فعال رول ادا کرتی رہے اور عوام اپنے بنیادی فرائض ایمانداری سے انجام دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا ملک ایک خطۂ جنت نظیر نہ بنے لیکن روم کی تعمیر میں وقت تو لگتا ہی ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]