قیصر محمودعراقی
بر صغیر کی وسیع و عریض دھرتی ایک لسانی میوزیم ہے جہاں مختلف بولیوں ، زبانوں اور لہجوں کا تنوع ملتا ہے ۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے تو اپنے ملک کا طول و عرض بھی اس ندرت سے خالی نہیں ۔ اردو اپنے لسانی مزاج ، خاندانی رسم الخط بلکہ نظریاتی اعتبار سے بھی صوبوں اور صوبوں میں بولی جا نے والی زبانوں کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہے اور صو بائی زبانوں کو نظریاتی اساس کی ایک لڑی میں پروتی ہے ۔ یہ دوسری صوبائی زبانوں کو ایک مر کزیت عطا کر تی ہے اور قومی رابطے کی حدود سے آگے نکل کر ملی و حدت بھی قائم کر تی ہے ۔ لسانی روا یات کا مطالعہ کیا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ اردو کا دامن علاقائی اور بین الا قوامی زبانوں کے بے شمار خوبصورت الفاظ ، تراکیب اور محا ورے سے بھرا پڑا ہے ، اردو کے ذخیراالفاظ پر بھی صوبائی زبانوں کا اثر مسلم ہے ۔ آج اردو دنیا کی ایک تسلیم شدہ اہم زبان ہے ، لیکن ابھی تک یقینی طور پر معلوم نہیں ہو سکا کہ اس نے کس زما نے میں اور کس زمین پر جنم لیا ؟ اس سلسلے میں بر صغیر کے محققین نے جو خاص خاص نظر یے پیش کئے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ارو زبان کا اصل مو لد سندھ ہے ۔ اس کا اظہار بہت سے محققین نے کیا لیکن اس نظریہ کو دلیل کے ساتھ سید سلیمان ندوی نے پیش کیا ۔ ان کے خیال میں مسلمان سب سے پہلے سندھ پہنچے اس لئے قیاس بات یہ ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولیٰ وادیٔ سندھ میں تیار ہوا ہو گا۔ ۷۱۲ء میں عرب مسلمانوں نے سندھ فتح کر لیا ، اسلامی لشکر شیراز ر اور عراق سے آیا تھا ، اس لشکر کے لوگ فارسی اور عربی جا نتے تھے ۔ مسلمانوں کی عربی و فارسی سب سے پہلے ہندوستان کی جس دیسی بولیوں سے مخلوط ہو ئیں وہ سندھی ، ملتا نی پھر پنجا بی اور آخر میں دہلوی تھیں ۔ چنانچہ مو جودہ اردو ان ہی بولیوں کی ترقی یافتہ اور اصلاح شدہ شکل ہے یعنی آج ہم جس کو اردو کہتے ہیں اس کا آغاز ہندوستان کی دیسی بولیوں عربی اور فارسی کے میل سے ہوا۔ اردو ہند کے مسلمانوں کی مشترک زبان ہے جو مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد،حکومت اور تمدنی روابط کی بدولت اس طرح وجود میں آئی کہ اسلامی زبانوں کے ہزار ہا الفاظ ہندی زبانوں میں شامل ہو گئے ۔
اردو زبان و ادب کو ابتدائی فروغ اگرچہ ارضِ دکن میں حاصل ہوا لیکن اس زبان کی تشکیل و تعمیر میں قدیم ترین صوبہ پنجاب میں بولی جا نے والی زبان نے اپنا اثر و عمل زیادہ استعمال کیا ۔ پنجابی زبان نے اردو کو ایک مخصوص لہجہ و آہنگ دیا اور اسے عام کار و باری کی سطح سے بلند کر کے پہلے شاعری کی منزل تک پہنچایا اور پھر ادبی نثر اور علمی اظہار کے جا وے پر ڈال دیا ، خود ار تقا ء کی فطری منا زل طے نہ کر سکی اور اس نے اپنی بیشتر قوت اردو کے فروغ و ارتقا میں صرف کر دی ۔ نتیجتاً پنجا بی زبان کی اپنی سرگرمیاں علاقائی سر حدو ں میں سمٹ کر رہ گئیں ۔ اہل پنجاب نے اردو کی نہ صرف سر پر ستی کی بلکہ تخلیق اظہار کے لئے اردو کو پنجا بی پہ فو قیت دی اور اردو پر اس خطے کے تہذیبی و تمدنی اثرات مثبت کر دئیے ۔ گزشتہ ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں بر صغیر میں جو ادب اردو زبان میں تخلیق ہوا اس میں پنجاب کے ادیبوں کی نا در تخلیق کا ری کا جو ہر بے حد نمایاں ہے اور اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس دور میں اگر چہ لکھنئو اور دہلی کو اردو کی مستندہ ٹکسالیں ہو نے کا درجہ حاصل تھا تا ہم خطہ پنجاب میں لا ہور کی ایک اہم ادبی مر کزی حیثیت مل چکی تھی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل اقتدار نے اردو سے بے نیازی کا ثبوت دیا اور نفاذ اردو کے عمل کو التوا میں ڈالنے اور اسے کمزور تر کر نے میں کوئی کثر اُٹھا نہ رکھی ، اس کے با وجود بھی اردو زبان جہاں جہاں پہنچی اس نے اپنے لئے خود ہی ایک ما حول ترتیب دیا، کسی ما حول کو اجنبی نہیں سمجھا بلکہ جہاں پہنچی اس خطے کی آب و ہوا، رہن سہن کے طور طریقے ، باشندوں کی بول چال غرض یہ کہ رسم و رواج تک کو اپنے اندر سمو یا اور ہر ما حول کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا۔ لکھنو ہو کہ دہلی ، حیدر آباد ہوکہ پنجاب ، سر حد پار بلو چستان ، سندھ ، پاکستان ہوکہ افغانستان اردو نے سب کے ساتھ سمجھو تا کیا، اس طرح اپنی ساکھ کو مضبوط کیا اور ہر دل عزیزی حاصل کی ۔ لیکن اردو سے ہمارے معاشرے کا بر تائو کچھ خاص اچھا نہیں ہے ، ہم سب جا نتے ہیں اردو ہماری ما دری زبان ہے ، پہلے اردو ہمارے تعلیمی اداروں سے دور ہو ئی اور اب تو حال یہ ہے کہ گھروں سے بھی خارج ہو تی جا رہی ہے بلکہ ہم خود بہت سوچ سمجھ کے ساتھ اسے اپنی زندگیوں سے نکال رہے ہیں اور اس کی جگہ ایک ایسی زبان کو د ے رہے ہیں جو نہ تو ہماری پہچان بن سکتی ہے اور نہ ہی کبھی ہم اُسے اپنا سکتے ہیں پر آج انگریزی زبان کو اردو پر ہر طرح سے فو قیت حاصل ہے اور ہماری نظر میں وہی مہذب اور پڑھا لکھا ہے جو انگریزی بول سکتا ہو اور سمجھ پاتا ہو۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں اردو کے تعارف سے بھی محروم نہ رہ جا ئیں ۔ میں انگریزی زبان کو موجودہ وقت کی ضرورت سمجھتا ہو ں پر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم اردو کے ساتھ زیادتی کر تے چلے جا ئیں ۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ جب ہم ’’تھینک یو‘‘ کو شکریہ پر تر جیح دیتے ہیں جبکہ اردو ہمیشہ ہمارے لئے ہر زبان سے پہلے ہو نی چاہئے۔
ہمارے لئے سیدھا راستہ کھُلا ہوا ہے کہ جہاں تک ہم سے ہو سکے یورپین لٹریچر اور یو رپین سائنس میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی ترقی کر لیں ۔جہاں تک ہم کو یو نیور سیٹی کے سچے خطا بات حاصل ہو سکتے ہیں ، کریں اور جب اس سے بھی زیادہ ہم میں ہمت ہو، آکسفورڈ کی یو نیور سیٹیوں میں تعلیم کو جا ئیں ، اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی ڈگریا ں حاصل کر نے کی کو شش کریں ۔ ہمارے ملک کو اور ہماری قوم کو اگر در حقیقت ترقی کر نی اور فی الواقع مکہ معظمہ ، قیصرہ ہندو کا سچا خیر خواہ اور وفاداررعیت بننا ہے تو اس کے لئے بجز اس کے اور کوئی راہ نہیں ہے کہ وہ علوم مغربی و زبان مغربی میں اعلیٰ درجہ کی ترقی حاصل کرے ، لیکن ساتھ اپنی زبان اردو پہ رشتہ بھی اُستوار رکھے ، ہمارے یہاں تو اردو کو صرف شاعری کی زبان سمجھ لیا گیا ہے ، حالانکہ انسانی سماجی اور سائنسی علوم میں ہندوستان میں ترقی اردو نے کی ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں ملتی ، لیکن کیا کیا جا ئے آزادی کے بعد سے اب تک صرف اردو زبان و ادب ہی نہیں بلکہ مسلمانوں سے تعلق رکھنے والی جو بھی چیزیں ہیں وہ قابل نفرت ہیں ۔ قرآن کریم ، حدیث ، اذان ، زبان و ادب ، فتوا اور مولوی سب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، آخر اردو کو ختم کر نے کی کو شش کیوں کی گئی ؟ اس کا قصور کیا ہے ؟ ہر شخص کو یہ بات معلوم ہے کہ اردو نے آزادی کے لئے جدوجہد کی ہے نہ کہ ملک کو تقسیم کر نے کے لئے ۔پھر بھی اردو کو پا کستان سے جو ڑتے ہو ئے اس پر ہر طرف سے تلوار چلائی گئیں ۔ محسوس یہ کیا جا رہا ہے کہ اردو والوں کے تعلق سے ہندی والوں کے دل صاف نہیں ہیں ، اردو کے اسا تذہ بھی اب اردو میں گفتگو نہیں کر تے ، معاشرے میں لو گ بھی شکریہ کی جگہ Thank you ، افسوس کی جگہ Sorry اور جنم دن کے مبارک باد کے مو قع پر Happy Birthday کہتے ہیں ۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی جو کہ ایک دوسرے کو پسند کر تے ہیں اور ایک دوسرے کو دل کی گہرائی سے چاہتے ہیں وہ بھی اپنی اپنی محبت کا اظہار I love you اور I love you too کہنے لگے ہیں ، ہمارے یہاں حکومت تو حکومت اردو کو مٹا نے کے لئے ہم اردو والے کو شان ہیں جبکہ بیرون ملک میں اردو کی ترقی ہو ئی ہے اور مزید ہو رہی ہے ، بغیر کسی مبا لغے کے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اردو دنیا کی تیسری سب سے زیادہ بولی جا نے والی زبان ہے ۔اس لئے اردو کے فروغ کے لئے صرف حکومت پر تکیہ کر نے کے بجا ئے اردو والوں کو اپنے طور پر بھی مختلف عمل اقدامات کر نے کی ضرورت ہے ۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے گھروں میں اردو کے رسالے اور اردو کے اخبارات پڑھے جائیں ۔ کہیں ایسانہ ہو کہ آنے والی نسلیں اردو زبان کو بالکل ہی بھول جائیں ۔ لہذا اردو کی بنیاد کو مضبوط کیا جا ئے تاکہ نئی نسل اردو سے محروم نہ رہے ۔ آج ہمیں یہ ڈر ہے کہ ہمارے عہد کے بچوں کو انگریزی سے اسقدر محبت ہوئی ہے کہ مستقبل میں کوئی اردو بولنے والا نہیں رہے گا ۔
rvr