آپؐ پر پوتن کا قابل تعریف بیان

0

اظہار رائے کی آزادی کے نام پر یوروپی ممالک میںجو تماشے ہوتے رہے ہیں، کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں کئی یوروپی لیڈروں کے بیانات مضحکہ خیز ہی نہیں، افسوسناک رہے ہیں مگر روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ مقدس شخصیات کی اہمیت سے وہ واقف ہیں اور اظہار رائے کے دائرے سے بھی۔ پوتن نے سالانہ پریس کانفرنس میں 23 دسمبر، 2021 کو واضح الفاظ میں کہا کہ ’حضرت محمدؐ کی بے حرمتی کرنا اظہار رائے کی آزادی کے تحت نہیں آتا ہے۔‘ ان کے مطابق، آپؐ کی بے حرمتی کرنا ’مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے اور جو لوگ اسلام کو مانتے ہیں، ان کے مقدس جذبات کو مجروح کرنا ہے۔‘ روسی صدر نے وہ بات کہہ دی جو دنیا بھر کے مسلمان برسوں سے سمجھانے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی ہر فرد کو ہونی چاہیے مگر اس آزادی کا دائرہ اتنا وسیع نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے کے جذبات مجروح ہونے لگیں لیکن اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کہیں مقدس شخصیات کے خاکے بناکر تو کہیں کسی اور طرح سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس پر اگر کسی مسلمان نے جذباتی ہوکر ردعمل کا اظہار کر دیا تو اس کا استعمال مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے کیا گیا۔ اسلاموفوبیا پہلے بھی تھا، البتہ 9/11 کے بعد اس میں کافی اضافہ ہوگیا۔ ان حملوں کے بعد جارج ڈبلیو بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑنے کا اعلان کیا تھا اور اسے ’صلیبی جنگ‘ بتایا تھا۔ اسے مسلم مخالف لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ شروع کرنے کا اشارہ سمجھ لیا، اس طرح کے بیانات آنے لگے کہ سارے مسلمان دہشت گرد نہیں مگر سارے دہشت گرد مسلمان ہیں۔ کئی ممالک اپنے علاقوں کے علیحدگی پسندوں کو دہشت گرد کہنے لگے۔ تھائی لینڈ کی حکومت تھائی لینڈ کے جنوبی حصے کے پاتانی، یالا اور ناراتھیوات صوبوں کے علیحدگی پسندوں کو دہشت گرد کہنے لگی تو چینی حکومت سنکیانگ کے اویغور علیحدگی پسندوں کو دہشت گرد کہنے لگی۔ ایسا ہی دوسرے ملکوں کی حکومتوں نے بھی کیا مگر ان ملکوں کے مقابلے سنکیانگ میں حالات زیادہ خراب ہوگئے، کیونکہ چینی حکومت نے دہشت گردی مخالف کارروائی کے نام پر تمام اویغور مسلمانوں کے خلاف ستم کا ایک سلسلہ شروع کر دیا، انہیں صعوبت خانوں میں رکھا جانے لگا، انہیں مذہبی فرائض ادا کرنے پر سزا دی جانے لگی مگر اویغوروں کے معاملے پر چینی حکومت کو گھیرنے کی امریکہ کی جدوجہد کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی، کیونکہ فرانس میں اسلام کی مقدس ترین شخصیت کے خاکے کی حمایت اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کی جا رہی تھی۔دیگر یوروپی ملکوں میں بھی حالات یہی تھے۔
براک اوباما کے امریکہ کا صدر بننے تک امریکی لیڈروں کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ مسلمانوں میں امریکہ کی شبیہ مسخ ہوئی ہے۔ ہٹلر اور میسولینی کے مذموم عمل کو ان کے ہم مذہب لوگوں سے نہیں جوڑا گیا تھا مگر 9/11 کے حملوں کو مسلمانوں سے جوڑا گیا جس کے اثرات دنیا بھر کے مسلمانوں پر پڑے، اس لیے مسلمان اگر امریکہ کو مسلم مخالف ماننے لگے ہیں تو انہیں کون غلط کہہ سکتا ہے۔ ان ہی باتوں کے مدنظر اوباما نے قول وعمل سے یہ دکھانے کی ہرممکن سعی کی کہ امریکہ نہ اسلام مخالف ہے، نہ ہی مسلم مخالف ہے۔ مسلمانوں کے تئیں ڈونالڈ ٹرمپ کا قول و عمل اوباما سے برعکس تھا مگر بائیڈن پھر سے امریکہ کو اسی ڈگر پر لانا چاہتے ہیں جس پر اوباما اسے رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے امریکہ میں اسلاموفوبیا کے خلاف بل پاس ہوا ہے اور اس کی حمایت خود بائیڈن نے کی ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان میں اسلامو فوبیا کے خلاف بل کی حمایت میں 219 ڈیموکریٹس نے ووٹ ڈالے مگر 212 ری پبلکنس نے اس کی حمایت نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ اسلاموفوبیا کے خلاف بل کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس پر حتمی جواب دینا مشکل ہے، البتہ یہ بل دنیا کے بدلتے حالات کا اشارہ ہے۔ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ 2028 تک چین اقتصادی محاذ پر امریکہ کوپیچھے چھوڑ دے گا، مطلب یہ کہ چین سے نمٹنے کے لیے امریکہ کو جو کچھ کرنا ہے، 2027 تک ہی کرنا ہوگا، چنانچہ وہ چین کو ہر طرح سے گھیرنے کی جدوجہد کر رہا ہے، اویغوروں کے معاملے پر بھی وہ چین کو گھیرنا چاہتا ہے اور اطمینان بخش طریقے سے وہ ایسا تب تک نہیں کر پائے گا جب تک اسلاموفوبیا کے حوالے سے ٹھوس کام نہیں کرے گا، چنانچہ اسلاموفوبیا کے خلاف بل کا امریکی نمائندگان میں پیش کیا جانا حیرت کی بات نہیں، حیرت اس پر بھی نہیں کہ امریکہ کے حریف روس کے سربراہ ولادیمیر پوتن نے اس وقت کو ایک ایسے ایشو پر بیان کے لیے چنا جو مسلمانوں کے لیے بے حد اہم ہے، حیرت اس بات پر ہے کہ ہری دوار میں ہوئے ’دھرم سنسد‘ میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیے گئے جبکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بدلتی دنیا میں اسلام اور مسلمان ایک اہم ایشو ہیں اور دنیا کی تبدیلی انہیں نظرانداز کرکے ممکن نہیں۔ اب یہ بحث کا الگ موضوع ہے کہ اس تبدیلی کا اثر مسلمانوں پر پہلے منفی اور پھر مثبت پڑے گا تو کیسا پڑے گا!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS