پوتن بھارت نہیں آئیں گے

0

بھارت کی صدارت میں جی 20 کا سربراہ اجلاس 9 اور 10 ستمبر، 2023 کو ہوگا۔ برکس کے حالیہ جوہانسبرگ سربراہ اجلاس میں روس کے سربراہ ولادیمیر پوتن بہ نفیس نفیس شریک نہیں ہوئے تھے، کیونکہ یوکرین جنگ کے سلسلے میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے ان کے خلاف وارنٹ جاری کر رکھا ہے اور جنوبی افریقہ اس کورٹ کا ایک ممبر ہے۔ برکس اجلاس کے بعد سوال یہ پیدا ہوا تھا کہ کیا پوتن جی 20 سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت آئیں گے؟ اب کریملن کی طرف سے یہ بتا دیا گیا ہے کہ پوتن جی 20 سربراہ اجلاس میں شامل ہونے کے لیے بھارت نہیں جائیں گے۔ یہ بھارت کے لیے جھٹکا نہیں۔ پوتن کا سربراہ اجلاس میں بہ نفیس نفیس شریک نہ ہونا روس کی بھارت سے کسی ناراضگی کی وجہ نہیں ہے بلکہ دانشمندی کا ثبوت ہے۔ یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ دنیا کے حالات بدلے لیکن بھارت اورروس کے رشتے نہیں بدلے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے ناٹو کی تشکیل کی تھی۔ سوویت یونین نے اس کے جواب میں وارسا پیکٹ کی تشکیل کی تھی۔ دنیا امریکہ اور سوویت یونین کے دو گروپوں میں بٹی ہوئی تھی تو اس وقت کئی ممالک ان دونوں ہی گروپوں میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان میں سے کسی ایک گروپ میں شامل ہونے کا مطلب دوسرے گروپ کو خلاف کرنا ہے۔ اس وقت امریکہ اور سوویت یونین سے الگ رہنے والے ملکوں میں بے چینی تو تھی مگر اس بے چینی کو دور کرنے کے لیے کوئی ملک پہل نہیں کر پا رہا تھا۔ بھارت کے تعلقات امریکہ اور سوویت یونین دونوں سے اچھے تھے۔ دونوں اسے اپنے گروپ سے وابستہ کرنا چاہتے تھے۔ بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بڑی اچھی طرح جانتے تھے کہ کسی ایک گروپ سے وابستہ ہو جانے کا مطلب دوسرے گروپ سے کٹ جانا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی ملک کے دائرۂ اثر میں آئے بغیر بھارت کو آگے بڑھانے کی کوششوں پر پانی پھر جائے گا، چنانچہ پنڈت نہرو نے یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو، مصر کے صدر جمال عبدالناصر، انڈونیشیا کے صدر سکرنو اور گھانا کے صدر کوامے انکرومہ کے ساتھ مل کر ناوابستہ تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ اس تحریک کی اس وقت زیادہ ضرورت اس لیے بھی تھی کہ سرد جنگ انتہا کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کا ثبوت اگلے برس کیوبن میزائل کرائسس سے مل گیا۔ 1962 میں چین نے بھارت پر حملہ کر دیا اور اس جنگ سے یہ سمجھنا مشکل نہیں رہا کہ بھارت کے تعلقات کتنے ملکوں سے ہیں، وہ کسی گروپ سے وابستہ ہے یا نہیں، یہ باتیں تو معنی رکھتی ہیں لیکن سب سے زیادہ اہمیت کی حامل یہ بات ہے کہ وہ اپنے مفاد کا خیال کر پا رہا ہے یا نہیں۔ ایسا تو نہیں ہے کہ وہ کسی سے مرعوب ہوکر یا کسی سے رشتہ نبھانے کے چکر میں اپنے مفاد کی قربانی دے رہا ہے۔ اسی لیے کواڈ میں بھارت کی شمولیت پر روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے ناراضگی ظاہر کی تھی تو بھارت نے روس کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس کی آزاد خارجہ پالیسی ہے، کسی گروپ سے اس کے وابستہ ہونے کا مطلب یہ ہرگزنہیں ہے کہ اس کا اثر روس سے اس کے تعلقات پرپڑے گا۔
24 فروری، 2022 کوروس نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑی تو بھارت نے اس جنگ کی حمایت نہیں کی لیکن اس جنگ کی وجہ سے روس کے خلاف جس طرح متعدد ملکوںنے محاذ کھولا ہوا ہے، اس کے لیے بھی تیار نہیں ہوا جبکہ اس سلسلے میں بھارت پر دباؤ بنانے کی بہت کوشش کی گئی مگر بھارت کے لیے یہ بات ناقابل فہم نہیں تھی کہ جنگ کے جاری رہنے تک اس نے افغانستان کی تعمیر نو میں بڑا کردار ادا کیا اور اس خطے کا وہ سب سے زیادہ عطیہ دینے والا ملک تھا لیکن امریکہ نے انخلا کے وقت بھارت کی افغان پالیسی پر زیادہ توجہ نہیں دی، البتہ روس نے یہ بات نظرانداز نہیں کی کہ افغانستان میں بھارت نے بڑا کام کیا ہے اور اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے، اس لیے بھارت اورروس کی دوستی بھروسے والی دوستی ہے،البتہ دنیا کے حالات سے پوتن بے خبر نہیں ہیں۔ ان کا یہ صحیح فیصلہ ہے کہ وہ بہ نفیس نفیس جی20کے سربراہ اجلاس میں شامل نہیں ہو رہے ہیں مگر ان کی عدم شمولیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ بھارت-روس تعلقات مختلف نہج پر ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں دنیا کے حالات سے بڑی اچھی طرح با خبر ہیں اور ایک دوسرے کے رشتوں کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS