مسماری پر پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ کی روک

0

الزام عائد ہوتے ہی ملزم کا گھر مسمار کرنے کا سلسلہ گزشتہ برسوں میں دراز ہوا ہے۔ انصاف کرنے کے اس نئے چلن پر عدالت سے خود نوٹس لے کر توجہ دینے کی امید کی جا رہی تھی۔ نوح میں 31 جولائی، 2023 کو فرقہ وارانہ تشدد ہوا۔ اس کا دائرہ گروگرام تک پھیل گیا۔ 2ہوم گارڈ سمیت 6 افرد تشدد کی نذر ہوگئے۔ اس کے بعد ناجائز تعمیرات ہٹانے کے نام پر ملزمین کے گھروں اور دکانوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایسی صورت میں کچھ سوالوں کا اٹھنا فطری تھا۔ تعمیرات اگر ناجائز تھیں تو انتظامیہ کو اس کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟ بلڈوزر سے گھروں اور دکانوں کو مسمار کر کے انصاف کرنے کی اسے اتنی جلدی کیوں تھی؟ معاملوں میں عدالت کے فیصلے کا انتظار اس نے کیوں نہیں کیا؟ مگر آج پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے خود سے نوٹس لیتے ہوئے نوح میں بلڈوز سے گھروں اور دکانوں کو مسمار کرنے پر روک لگا دی۔ جسٹس جی ایس سندھ والیا اور جسٹس ہرپریت کور جیون کی ڈویژن بینچ نے مسماری کی کارروائی کو روکنے کی ہدایت کے ساتھ ایک نوٹس جاری کرکے اس سلسلے میں ہریانہ حکومت سے جواب مانگا ہے۔
یہ سچ ہے کہ دیر سے ملا انصاف، انصاف دینے سے انکار کے مساوی ہوتا ہے، چنانچہ کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ انصاف دینے میں تاخیر نہ ہو، مگر اتنی بھی جلدی نہیں کی جانی چاہیے کہ انصاف دینے کے عمل پر ہی سوال اٹھنے لگے۔ اب سوال یہ ہے کہ بلڈورز سے انصاف دینے کا جو چلن چلا ہے، اس میں انصاف کے تقاضوں کو کس حد تک پورا کیا جاتا ہے؟ اس سوال کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ایک کے قصور کی سزا دوسروں کو نہیں دی سکتی، حتیٰ کے ماں یا باپ کو بھی نہیں۔ اگر ایک کے کیے کی سزا اس کے ساتھ بے قصور لوگوں کو دی جائے گی تو اس سے معاشرے میں بے چینی پیدا ہوگی اور بے چین سماج کے خوشحال بننے یا مستقل طور پر پرامن رہنے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ اس کے باوجود بلڈور سے انصاف کے چلن کا دائرہ کیوں بڑھتا رہا ہے؟ یہ حیرت کی بات ہے۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ اس طرح انصاف دینے کا انداز مقبول ہوا ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ایک ریاست کے بعد دوسری، پھر تیسری اور اسی طرح کئی ریاستوں میں بلڈوزر سے گھر اور دکانیں مسمار کرنے کا دائرہ بڑھتا رہا۔ لیڈران یہ احساس عوام کو دلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ اس طرح وہ قصوروار کے خلاف جلدی اور مؤثر کارروائی کر رہے ہیں۔ یہ سوال خود اپنے آپ میں اہمیت کا حامل ہے کہ الزام کی بنیاد پر ہی کسی فرد کا گھر کیوں مسمار کیا جاتا ہے؟ کیا ملزم کو مجرم مان کر سزا دینے کا حق کسی حکومت کو ہے؟ اگر حکومت یہ کہتی ہے کہ وہ انصاف کر رہی ہے اور اس نے قصوروار کے خلاف ہی کارروائی کی ہے تو ایسی صورت میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت ہی الزام کی بنیاد پر ملزم کو مجرم مان لے گی، پھر عدالت میں اس کے مقدمے کی سنوائی کی کتنی گنجائش رہ جائے گی؟ اس کے باوجود عدالت اگر سنوائی کرتی ہے تو وہ سزا کیا سنائے گی، سزا تو پہلے ہی اسے مل چکی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ایک فرد کو جس الزام کی بنیاد پر قصوروار مانا گیا ہے، اگر وہ الزام ہی دشمنی یا کسی امتیاز کی وجہ سے دانستہ طور پر اسے پھنسانے کے لیے لگایا گیا تھا اور وہ بے بنیاد ثابت ہوجاتا ہے، پھر عدالت کیا فیصلہ سنائے گی؟ کیا وہ حکومت سے کہے گی کہ اس کا گھر بنواکر دے؟ اگر وہ ایسا کہتی ہے، حکومت حکم کی تعمیل کرتے ہوئے گھر بنواکر دے دیتی ہے، پھر بھی انصاف کیا پورا ہو جائے گا؟ گھر مسمار کیے جانے کی وجہ سے ملزم پر جو ذہنی دباؤ پڑا اور گھر والوں کو پریشان دیکھ کر جو نفسیاتی دباؤ پڑا، سماج میں اس کی شبیہ جس طرح مسخ ہوئی، ان چیزوں کے بدلے کیا ہوگا؟ کیا اس کا وہ وقت اسی حالت میں لوٹانا ممکن ہوگا، جیسا الزام کی بنیاد پر قصوروار مانتے ہوئے اس کا گھر مسمار کیے جانے سے قبل تھا؟ ان سوالوں کے علاوہ یہ سوال بھی جواب طلب ہے کہ اگر الزام ایک فرد پر لگا ہے اور کوئی گھر اس بنیاد پر گرایا جاتا ہے کہ اس میں وہ رہتا ہے تو گھر میں رہنے والے بقیہ لوگوں کو سزا کس بات کی دی گئی؟ کیا قانون کی کتابوں سے الگ انصاف کا کوئی نیا چلن چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملزم کے ساتھ ان تمام لوگوں کو بھی سزا دی جائے جو اس کے ساتھ رہتے ہیں، بھلے ہی وہ ملزم نہ ہوں؟ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ انصاف دینے کا عمل آسان نہیں ہوتا۔ جیسے دیر سے دیا گیا انصاف ناانصافی کے مترادف ہوتا ہے، اسی طرح انصاف کرنے میں اتنی جلدی بھی اچھی نہیں ہوتی کہ انصاف کرنے کا عمل ہی سوالوں کے دائرے میں آجائے اور وہ بے انصافی معلوم ہو۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS