خواجہ عبدالمنتقم
دنیا کا کوئی بھی مذہب یا قانون اور انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کوئی بھی دستا ویز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کوئی بھی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر کسی کی، خواہ وہ گنہگار ہو یا بے گناہ، جان لے لے یا کسی فرقۂ مخصوص کے خلاف زہر اگلے یا کسی کے ساتھ بدکلامی کرے۔ سزا دینا یا نہ دینا عدلیہ کا کام ہے۔ ہمارے آئین کی دفعہ21 میں بھی واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ جان،عزت نفس اور شخصی آزادی کے تحفظ کا حق سماج کے ہر طبقے کے ہر فرد کو حاصل ہے، چاہے وہ حاکم ہو یا محکوم، ظالم ہو یا مظلوم، مالک ہو یا نوکر، عورت ہو یا مرد، منصف ہو یا قیدی۔ کسی شخص کو اس کی جان یا شخصی آزادی سے قانون کے ذریعہ قائم کیے ہوئے ضابطہ کے سوا کسی اور طریقہ سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ متضرر شخص کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور اس کے ساتھ سراسر ناانصافی ہوگی۔ کسی بھی مہذب سماج میں جہاں قانون کا اطلاق ہوتا ہے، یہ بدترین جرم ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں جہاں آئین کو حیثیت سر بفلک حاصل ہے اور جسے ہمارے سپریم کورٹ کے ججز نے گیتا، قرآن کریم اور بائبل کے مشابہ کہا ہے، لنچنگ اور بدکلامی کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے اور جب ایسا ان ذمہ دار افسران کی موجودگی میں کیا جائے جنہیں نظم و نسق قائم رکھنے اور اس طرح کے عوامل پر نظر رکھنے کی ذمہ داری سونپی کی گئی ہے، تو اور بھی زیادہ افسوس ہوتاہے! کئی دہائی قبل سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس کرشنا ایر نے کہاتھا کہ جب رکشک ہی بھکشک ہوجائے تو یہ ایک بدترین صورت حال کا مظہر ہوتا ہے۔
لنچنگ کی اصطلاح قانون کی کتابوں میں عرصۂ دراز سے موجود ہے مگر ہمارے ملک میں اس کا چہار طرفہ شور گزشتہ چندسال کی ہی دین ہے۔ لنچنگ اس صورت حال کی مظہر ہے جب کچھ لوگوں کا گروہ کسی شخص کو کسی مبینہ ارتکاب جرم کے لیے باقاعدہ مجاز عدالت کے روبرو سماعت اور فیصلہ کے بغیر گھیر کر اس کے ساتھ تشدد آ میز رویہ اختیار کرے،مارے پیٹے اور یہاں تک کہ اسے ہلاک کردے یا اس کا اقدام کرے۔ یہ انسانی حقوق کی بھی سراسر خلاف ورزی ہے۔جہاں تک انسانی حقوق کی تعریف کا سوال ہے یہ تعریف تحفظ انسانی حقوق ایکٹ،1986کی دفعہ2 (د) میں اس طرح دی گئی ہے:
’’انسانی حقوق سے مراد ہے کسی فرد کی زندگی، آز ادی، مساوات اور عظمت کی نسبت ایسے حقوق جن کی آئین کی رو سے ضمانت دی گئی ہو یا جو بین الاقوامی معاہدوں میں شامل کیے گئے ہوں اور بھارت میں عدالتوں کے ذریعے قابل نفاذ ہوں۔‘‘
اس تعریف پر محض نظرطائرانہ ڈالنے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے ملک کا ہرباشندہ ان حقوق کاحقدار ہے اور اسے ان حقوق سے کسی بھی حالت میں محروم نہیں کیا جاسکتا۔ دریں صورت بھارت کے آئین کی حیثیت سر بفلک قائم رہنی چاہیے لیکن ہمارے ملک میں اس طرح کے واقعات میں برابر اضافہ ہوتا رہا ہے اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ اقلیتوں اور کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو کبھی گئو رکشا کے نام پر، کبھی محض مذہبی یا طبقاتی بنیاد پر تو کبھی ان کے تشخص کے باعث نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس کی گونج ہمارے ایوانوں میں بھی سنی جا تی رہی ہے اور ذرائع ابلاغ بھی اس کا برابر نوٹس لیتے رہے ہیں۔ اب اس غرض کوپورا کرنے کے لیے نئے تعزیری قانون یعنی بھارتیہ نیائے سنہتا،جو سابقہ مجموعہ تعزیرات بھارت، جسے بنیادی طور پر مجموعہ تعزیرات ہند کا نام دیا گیا تھا، کا نقش ثانی ہے اور جس کا اطلاق یکم جولائی،2024 سے ہونا متوقع ہے،میں دفعہ103 شامل کرکے اس لعنت سے قانونی طریقے سے نجات پانے کی راہ نکالی گئی ہے حالانکہ اس دفعہ کی عبارت میں لفظ لنچنگ استعمال نہیں کیا گیا ہے۔اس دفعہ کا متن درج ذیل ہے:
’جب پانچ یا پانچ سے زیادہ افرا دپر مشتمل گروپ مل کر نسل، ذات یا فرقے، جنس، جائے پیدائش،نجی عقیدے یا ایسی کسی دیگر بنیاد پر کسی کا قتل عمد کرتا ہے تو اس گروپ کے ہر شخص کو سزائے موت یا سزائے عمر قید دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔
اگر اس دفعہ کے انگریزی متن میںلفظ لنچنگ استعمال کر لیا گیا ہوتا اور اس مجوزہ قانون کے فقرۂ تعریفی (definition clause) میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہوتی تو صورت مزید واضح ہو جاتی۔ویسے تو اس سنہتا کی قتل عمد سے متعلق دفعہ101 (جو پرانی آئی پی سی کی دفعہ 300 کی مماثل دفعہ ہے) کے تحت بھی لنچنگ کے لیے سزا دی جاسکتی تھی۔دفعہ101کے مطابق(کچھ استثنیات کے تابع) انسان مستلزم سزا قتل عمد ہے:
(الف)اگر ایسا فعل جس کے باعث موت واقع ہوئی، اس نیت سے کیا گیا ہو کہ موت کا باعث ہو، یا—
(ب)- اگر وہ ایسی جسمانی چوٹ پہنچانے کی نیت سے کیا جائے جس کی نسبت مجرم یہ جانتا ہوکہ اس شخص کی موت واقع ہونے کا امکان ہے جس کو نقصان پہنچایا جائے، یا—
(ج)- اگر وہ کسی شخص کو جسمانی چوٹ پہنچانے کی نیت سے کیا جائے اور پہنچائی جانے والی مقصود جسمانی چوٹ ہلاک کرنے کے لیے عام نوعیت کے حالات میں کافی ہو، یا—
(د)- اگرفعل کا ارتکاب کرنے والے شخص کو یہ علم ہو کہ وہ فعل اس قدر قریب الوقوع طور پر خطرناک ہے کہ غالباً وہ ہلاکت یا ایسی جسمانی چوٹ کا باعث ہوگا جس سے موت واقع ہونے کا پورا پورا امکان ہے اور وہ ایسے فعل کا ارتکاب بغیر کسی عذر کے متذکرہ بالا ہلاکت یا چوٹ کا خطرہ پیدا کرنے کے لیے کرے۔‘‘ اس کے علاوہ اسی تعزیرات میں شدید چوٹ وغیرہ پہنچانے سے متعلق اور دفعات بھی شامل ہیں۔
امید کی جانی چاہیے کہ نیا قانون،جس کی بابت مختلف شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں،کچھ سیاسی بنیادوں پر کچھ دفعات کی شدتی نوعیت کے بارے میں،نافذ ہونے پر اور مابعد مشکلات کو رفع کرنے اور حسب ضرورت ترامیم کرنے کے بعد، اگر ایسا کرنا اراکین پارلیمنٹ ضروری سمجھیں،نافذ العمل ہونے پر، اس پر ایمانداری سے عمل ہونے پر اور نئی حکومت کی مثبت و عملی سوچ اختیار کرنے پر یقینا حالات میں بہتری آئے گی اور مختلف شعبۂ حیات اور اداروں میں متعصبانہ روش کا خاتمہ ہوگا اور ’ہم بھارت کے عوام ‘ جیسا کہ آئین کی تمہید میں مذکور ہے، شیر و شکر ہو کر رہیں گے مگر اس طرح کہ شیر اور شکر اپنا وجود بھی قائم رکھ سکیں۔سپریم کورٹ نے بھی والسماپال والے معاملے(جے ٹی2002(9)) میں یہ کہا ہے کہ مختلف قسم کے لوگوں کو، جن کی زبان اور عقائدالگ الگ ہوں، کو تسلیم کرنا، انہیں تحفظ فراہم کرنا اور ایک مکمل و متحد بھارت کی تشکیل کے لیے یکجا کرنا ہی بھارت کے سیکولرازم کی روح ہے۔ اب ساحل کے تماشائیوں کو ڈوبتے ہوئے افراد کی مد دکے لیے سامنے آنا ہوگا۔محض کف افسوس ملنا ہی کافی نہیں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]