صبیح احمد
یہ لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے کہ ’تباہی و بربادی‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے، لیکن جب آپ کسی ایسے بچے کو دیکھتے یا اسے اپنے ہاتھوں سے پکڑتے ہیں جو شدید غذائی قلت کے انتہائی مہلک دور سے گزرتا ہے اور وہ بھی جب جنگ کے دوران تمام راستے مسدود ہوجائیں اور زندگی ہمیشہ دائو پر لگی ہو، تب آپ کو سمجھ میں آتا ہے اور آپ اسے کبھی نہیں بھول پاتے۔ ایک فلسطینی غیر سرکاری تنظیم(این جی او) کے مطابق غزہ پر اسرائیلی بمباری میں ہر 15 منٹ میں ایک بچہ مارا جاتا ہے۔ جنگ کے نتیجے میں ہزاروں بچے یتیم ہورہے ہیںاور تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہو کر فاقہ کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ جنگ کے دوران وہاں بچوں کی حالت کیا ہوگی۔
حماس کے مہلک حملے کے بعد اسرائیل نے 7 اکتوبر کو محصور فلسطینی انکلیو پر بمباری شروع کی تھی جس کے بعد سے مبینہ طور پر روزانہ 100 سے زیادہ بچے مارے جا رہے ہیں۔ کئی دہائیوں کے بعد اسرائیل کے مہلک ترین حملے میں اب تک مجموعی طور پر تقریباً 13400 سے زائد فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل – فلسطین(ڈی سی آئی پی) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہم درحقیقت نسل کشی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے 1400 اسرائیلی متاثرین میں مبینہ طور پر کم از کم 14 بچے بھی شامل تھے۔ حماس کی طرف سے یرغمال بنائے گئے تقریباً 240 افراد میں بھی بچے شامل ہیں۔ حالانکہ جنگوں کے دوران بچوں کو خاص طور پر قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے، لیکن اس کی کسے پروا۔ 1949 میں جنیوا کنونشن کے تحت مسلح تصادم کے بین الاقوامی طور پر منظور شدہ قوانین کے مطابق بچوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے ساتھ انسانی سلوک کیا جانا چاہیے۔ اسرائیل نے ہولوکاسٹ کے دوران یوروپ میں ڈیڑھ ملین یہودی بچوں کی ہلاکت کے چند سال بعد 1951 میں اس کنونشن کی توثیق کی تھی، لیکن اسرائیل چوتھے جنیوا کنونشن کو تسلیم نہیں کرتا، جو قابض طاقتوں کے خلاف لڑنے والے شہریوں کو تحفظ فراہم کرتاہے، کیونکہ وہ فلسطین کو مقبوضہ سرزمین نہیں سمجھتا۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ میں فوجی طاقت کے غیر متناسب استعمال کو حماس کو تباہ کرنے کا ایک جائز ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس لیے اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتیں جن میں بچے بھی شامل ہیں، جنگی جرائم کے زمرے میں نہیں آتے۔
بہرحال تکنیکی اور قانونی دائو پیچ اپنی جگہ، غزہ میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی بچوں کی بے دریغ ہلاکتیں اور ان کی حالت زار رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے۔ بچوں کی ہلاکتیں تو ہو ہی رہی ہیں، بمباری میں زخمی اور زندہ بچ جانے والے بچوں کی حالت اور زیادہ قابل رحم ہے۔ طبی عملہ بڑی تعداد میں بچوں سمیت جنگ متاثرین کی زندگیاں بچانے کے لیے واقعی انتہائی بہادری کے ساتھ کوششیں کر رہا ہے، لیکن ایندھن، ادویات اور پانی کی سپلائی تقریباً خاتمہ کے دہانے پر ہے، ایسی صورتحال میں یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کب تک اپنے بنیادی فرائض انجام دے سکیں گے۔ مثلاً اسپتال کے نوزائیدہ وارڈ میں ننھے معصوم بچے انکیوبیٹرس میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ڈاکٹروں کی پریشانی یہ ہے کہ وہ ایندھن کے بغیر مشینوں کو کیسے چلا سکتے ہیں۔ غزہ کے یہ چھوٹے چھوٹے بچے اور ساتھ ہی وہ بچے بھی جو ابھی ماں کے پیٹ میںہیں، خاص طور پر غذائی قلت اور فاقہ کشی کے امکانات کا شکار ہیں۔ بموں اور گولیوں کے درمیان 6 ہفتوں سے زیادہ کی جنگ کے سبب بجلی کی کمی اور تمام سرحدی گزرگاہوں کی بندش کے بعد غزہ کے تقریباً 10 لاکھ بچے اب غذائی بحران کا شکار ہیں اور جنہیں جلد ہی صحت عامہ کی تباہی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ غذائیت سے بھرپور خوراک کی فراہمی عملی طور پر ختم ہو چکی ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے میں ابتدائی طور پر کم از کم 4 دن کی جنگ بندی شامل تھی، اب اس میں مزید 2 دن کی توسیع کر دی گئی ہے۔ 4 روزہ جنگ بندی کے دوران بنیادی انسانی امداد کی کچھ نئی کھیپوں کو غزہ کے لوگوں تک جانے کی اجازت دی گئی جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن زندگیاں بچانے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ غزہ کے لوگ، خاص طور پر بچے صحت مند رہیں اور صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل سے بچ سکیں، انسانی امداد کے کارکنوں کو حسب ضرورت غزہ میں معیاری خوراک، ضروری غذائیت کا سامان، پانی اور ایندھن لانے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ جنگ بندی ختم ہونے اور لڑائی دوبارہ شروع ہونے کے بعد بھی محفوظ طریقے سے ان وسائل کی فراہمی جاری رکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ مناسب مقدار میں غذائیت سے بھرپور خوراک کے بغیر لوگ جلد تغذیہ کی کمی کا شکار ہو جائیں گے اور آخر کار بھوک سے مرنے کو مجبور ہوسکتے ہیں۔ خوراک کی کمی کے خطرات میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت سے مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی معیارات کے مطابق ایک شخص کو پینے اور بنیادی ذاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روزانہ کم از کم 4 گیلن صاف پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ غزہ میں یہ معیار پورا ہونے سے بہت دور ہے۔ پانی کی فراہمی کا تقریباً 96 فیصد انسانی استعمال کے لیے غیر موزوں سمجھا جاتا ہے۔ ایندھن کی کمی کی وجہ سے واٹر پمپنگ اور گندے پانی کی صفائی کا کام بند ہوگیا ہے۔ لوگوں نے غیر محفوظ ذرائع سے ایسے پانی تک رسائی کا سہارا لے رکھا ہے جو نمکین یا آلودہ ہیں۔
غزہ کے بچے پہلے ہی بہت زیادہ موت اور مصائب برداشت کر چکے ہیں۔ صرف گزشتہ 7 ہفتوں میں غزہ کی حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کے مطابق جاری تنازع کی وجہ سے کم از کم 5,600 بچے ہلاک اور تقریباً 9,000 زخمی ہو چکے ہیں۔ اس قابل تشویش تعداد کو بڑھنے نہیں دینا چاہیے، خاص طور پر تب جب حل بہت واضح ہوں۔ غزہ میں ضروری تغذیہ سے بھرپور غذائی سپلائی، ایندھن اور دیگر انسانی امداد پہنچانے کے لیے بلا روک ٹوک عام لوگوں کو اجازت دی جانی چاہیے۔ تاخیر سے جانیں ضائع ہونے کے سوائے اور کچھ نہیںملنے والا ہے ۔ دیر یا جلد، جب یہ جنگ ختم ہوگی، اس کے بعد بھی بچوں کا مستقبل دائو پر لگا ہوگا۔ مسلسل بمباری کے سبب غزہ کا نظام تعلیم بھی تباہ ہو کر رہ گیاہے، کیونکہ جنگ کے دوران اسکول عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور انسانی زندگی کی بقا ہی واحد سبق بن جاتا ہے۔ اقوام متحدہ فی الوقت 400,000 بے گھر غزہ کے باشندوں کو اپنے اسکولوں اور دیگر سہولیات میں پناہ دے رہا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی ’یو این آر ڈبلیو اے‘ غزہ میں 278 اسکول چلاتی ہے۔ اسرائیلی بمباری سے بڑی تعداد میں اسکولوں کو نقصان پہنچا ہے۔
بہرحال اس جنگ کے اثرات نہ صرف ان متاثرین کو متاثر کریں گے جو انہوں نے کھوئے ہیں، جن میں سے کچھ اب بھی اپنے گھروں کے ملبے تلے پھنسے ہوئے ہیں، بلکہ غزہ کے شہریوں اور ان کے بچوں پر نفسیاتی اثرات انتہائی تباہ کن ہوں گے۔
[email protected]