پروفیسر اسلم جمشید پوری
جھارکھنڈ میںایک بار پھر جھار کھنڈ مکتی مورچہ نے حکومت بنا کر بی جے پی کو دھول چٹا دی ہے ۔ جی ہاں ،آج کل انتخابات ایک دنگل ہی تو ہو گئے ہیں ۔جھارکھنڈ کے اس دنگل میں ایک طرف این ڈی اے تھا تو دوسری طرف ’انڈیا‘۔این ڈی اے نے انتخابات سے قبل کیسے کیسے دائو چلے تھے ۔کیاکیا حربے استعمال کئے تھے ۔جھارکھنڈ کی بھولی بھالی عوام کو طرح طرح کے لالچ دیے تھے ۔انہیں خوب ورغلایا ، ڈرایا اور دھمکایا بھی تھا ۔صرف 81سیٹوں والی چھوٹی سی ریاست میںدو بار میں انتخاب کرایا گیاجبکہ 280 نشستوںوالی ریاست مہاراشٹر میں ایک ہی دن میں؟آخر کیوں؟رقبہ کے حساب سے بھی یہ ریاست کوئی بہت پھیلی ہوئی نہیں ہے ۔پھر ایسا کیوں ہوا۔؟کیا یہ بھی بی جے پی کا کوئی دائو نہیں تھا۔ مگر نتیجہ کیا ہوا؟ جب13 اور 20 نومبر کو انتخاب اور 23 نومبر کو ریزلٹ آیا تو کیا ہوا؟ این ڈی اے چاروں خانے چت ہو گیا۔بی جے پی کی 21اور اس کی حلیف پارٹیوں کی ایک ایک سیٹ آئی ۔این ڈی اے کل 25 سیٹوں پر سمٹ گیا ۔دوسری طرف ’انڈیا‘ نے زبردست کامیابی حاصل کی۔56 سیٹیں جیتنے میں سب بڑا حصہ جے ایم ایم کا رہا ۔گذشتہ الیکشن میں جے ایم ایم کو 30 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ،لیکن اس بار اس نے 34سیٹوں پر قبضہ جمایا ۔یہ ایک یاد گار فتح ہے جو بہت دنوں تک یاد رکھی جائے گی ۔یہ جیت پورے جھارکھنڈ کی جیت ہے ۔ جھارکھنڈ میں رہنے والی عوام کی جیت ہے ۔
28 نومبر 2024 میں جھارکھنڈ کے چوتھی بار بننے والے اورریاست کے 19 ویں وزیرِ اعلیٰ ہیمنت سورین نے عہدے کا حلف لیا ۔اس موقع پر انڈیا کے راہل گاندھی ،ملکا ارجن کھرگے ،ممتا بنر جی ،اروند کجریوال ،اکھلیش یادو، تیجسوی یادو ،جیسے بڑے رہنماموجود تھے۔ اس سے’ انڈیا ‘کی مضبوطی اور اتحاد کا نظارہ دیکھنے کو ملا ۔ایک طرف انڈیا،کا اتحاد روز بر روز بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری طرف این ڈی اے کے انتشار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ جھارکھنڈ این ڈی اے میں بہت دن تک سیٹوں کی تقسیم پر ہی رضا مندی نہیں ہو پا رہی تھی ۔اس انتشار کو الیکشن میں ہونے والی این ڈی اے کی شکست میں دیکھا جا سکتا ہے ۔
بی جے پی نے انتخاب کے دوران ایک ایسا پانسہ پھینکا جو انڈیا کی پارٹیوں خاص کرجے ایم ایم کے لئے بولڈ ہونے جیسی حالت تھی ۔20 نومبر سے کچھ پہلے بی جے پی نے جھارکھنڈ کی بھولی بھالی جنتا کی طرف ایسی تیز بال ڈالی جس سے عوام تو عوام سبھی سیاسی جماعتیں بولڈ ہو گئیں۔دراصل بی جے پی نے جھارکھنڈ کے بھگوان کہے جانے والے معروف مجاہد ِ آزادی بر سا منڈا کی 150سالگرہ کو دہلی میں بڑی دھوم دھام سے منعقد کیا۔اس موقع پر بی جے پی نے دہلی کے مشہور اور مصروف سرائے کالے خاں چوک کا نام بھی تبدیل کر کے ،بر سا منڈا چوک کر دیا ۔بی جے پی نے ایسا کر کے ایک تیر سے کئی نشانے زد پر لئے ۔ایک طرف انہوں نے جھارکھنڈ کی عوام کو رام کیا ۔انہیں این ڈی اے کی طرف کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ۔انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ بر سامنڈا جھارکھنڈ کے باشندوں میں بھگوان کا درجہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف انہوں نے دہلی کے ایک ایسے چوک کا نام تبدیل کیا ،جس کے بارے میں انہیں پتہ تھا کہ اس کی ذرا سی بھی کہیں سے مخالفت نہیں ہوگی ۔ بی جے پی کا یہ ایسا دائو تھا جس نے سیاسی حلقوں میں ہنگامہ برپا کر دیا۔الیکشن سے ٹھیک کچھ دن قبل بی جے پی کے اس اقدام کا عوام پر زیادہ اثر نہیں ہوا۔عوام اپنا فیصلہ پہلے ہی کر چکی تھی ۔اسے اپنا قیمتی ووٹ کسے اور کس نشان پر دینا ہے ۔جے ایم ایم کی قربانیاں اور حالیہ برسوں میں سی ایم کے ذریعہ کئے گئے کاموں کے مدِّ نظر اپنا ووٹ دیا۔بی جے پی کا نعرہ ’’ بٹیں گے،تو کٹیں گے ‘ نے بھی اپنا کوئی اثر نہیں دکھایا ۔یہاں کی جنتا سیکولر ہے ۔یہاں ہندو ،مسلمان ،سکھ ،عیسائی ،آدی واسی (یہاں کے اصل باشندے ) سب مل جل کر ہم آہنگی سے رہتے ہیں۔
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح ِزمانہ ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہیمنت سورین پہلے سے زیادہ سمجھ دار ،عقلمند اور ریاست کے لئے کچھ بھی کر نے والے ہو گئے ہیں۔شکست و فتح اب ان کے لئے معنی نہیں رکھتی ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ لگا تار دو بار وزیر اعلیٰ بنے ہیں ۔ بی جے پی نے انہیں گرفتار کر کے جیل بھیجتے وقت یہ سوچا ہو گا کہ اب ان کا سیا سی کیریئر ختم ہو جائے گا،ان کا کردار گرے گا اور جھارکھنڈ پر ہمیشہ کے لئے ان کا (بی جے پی )اقتدار ہو جائے گا۔مگر اللہ جو چاہتا ہے اس میں اس کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے ۔اس کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ۔ہیمنت سورین کا جیل جانا ان کے حق میں بہتر ہوا ۔ایک تو ان میں سیاسی سوجھ بوجھ میں اضافہ ہوا،دشمن اور دوست میں امتیاز واضح ہوا اور مقبولیت کافی دور تک پھیل گئی ۔ہر دلعزیزی دن رات بڑھتی گئی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ جیل سے باہر آنے کے بعد ہیمنت سورین نے پہلے سے دوگنی توانائی کے ساتھ عوامی خدمات انجام دیں ۔ ایسے ایسے کام کئے کہ جھارکھنڈ کے لوگ باغ باغ ہو گئے ۔ریاست میں شاندار فتح میں جے ایم ایم کا ’انڈیا ‘ کا حصہ بنے رہنا بھی ایک وجہ ہے ۔پوری ریاست کے رہنے والوں نے آپ کا ساتھ دیا ۔
اب ہیمنت سورین کی ذمہ داری اوربڑھ جا تی ہے ۔اور ہم سب کو امیدبھی ہے کہ وہ بخوبی اس ذمہ داری کونبھا ئیں گے ۔جس کا ایک ثبوت حکومت کے حلف لینے کی تقریب میں دیکھنے کو ملا ۔اس تقریب میں آپ کے علاوہ،جے ایم ایم ،کانگریس ،راشٹریہ جنتادل ،سی پی آئی (ایل) کو بھی سرکار میں شریک کیا ۔ انڈیا کے اتحاد کو جوڑ کر مزید متحد کیا ۔یہ ضرور ہے کہ اب سی ایم کی ذمہ داریاں اور عوامی توقعات بڑھ گئیں ہیں ۔جھارکھنڈ کے لوگ ہیمنت سورین کی طرف پرُ امید نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ وقف بورڈ ،اردو اکادمی ،حج ہائوس ،مدرسہ بورڈ،بر سا منڈا کا پیغام،ریاستی تعلیمی نظام ،آدی واسیوں کی معاشی اور تعلیمی نظام اور عوامی اسکیموں میں سے کئی چیزیں پہلے سے موجود ہیں ۔انہیں مزید سنوار اور نکھارکر پیش کیاجائے ۔اور جن چیزوں کا وجود نہیں ہے خاص کر اردو اکادمی ،وقف بورڈ وغیرہ کا قیام ہونا چاہیے ۔آج پورے ہندوستان میں وقف ایکٹ میں ترمیم کی بات ہو رہی ہے ۔ایسے میں کسی ریاست میں وقف بورڈ کا قیام بڑی بات ہو گی ۔
برسا منڈا کے پیغام کو عام کرنے کے لئے ان کے نام پر ایک یونیورسٹی بنائی جائے ۔اور اس میں بر سا کی زندگی اور ان کی قربانیوں کو پڑھا یا جائے ۔ آزادی کی تحریک میں جھارکھنڈ کے مجاہدین کا نام تلاش کرکے نکالا جائے ۔انہیں اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیز میں پڑھایا جائے ۔