پروویڈنٹ فنڈ مزدور کی آخری آس اور حکومتی بے حسی کا کھیل

0

یہ کس قدر افسوس ناک اور شرمناک حقیقت ہے کہ ایک مزدور اپنی ساری جوانی،پسینہ اور خون دے کر ریاست و سرمایہ دار کے کارخانوں کوآباد کرتا ہے،مگر ریٹائرمنٹ کے وقت جب وہ اپنے ہی پسینے کی کمائی واپس لینے جاتا ہے تو انتظامی پیچیدگیوں،بے حسی اور سرکاری تاخیری حربوں کی دیوار سے ٹکرا کر رہ جاتا ہے۔ ایمپلائزپروویڈنٹ فنڈ(ای پی ایف) کسی بھی محنت کش کیلئے بڑھاپے کا واحد سہارا ہے، لیکن اس سہولت کو دینے کے بجائے روکنے،گھسیٹنے اور معطل کرنے کا کلچر اس بات کی گواہی ہے کہ ریاست نے فلاحی دعوئوں کو محض کھوکھلے نعروں تک محدود کر دیا ہے۔

اعدادوشمار چیخ چیخ کر اس ناانصافی کا پردہ چاک کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے مطابق 21 لاکھ 55 ہزار کارکنوں کی پسینے کی کمائی،یعنی تقریباً 90 ہزار کروڑ روپے،ای پی ایف او کے کھاتوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ یہ کوئی چھوٹی رقم نہیں،بلکہ لاکھوں گھرانوں کے زندہ رہنے اور عزت سے بڑھاپا گزارنے کا سہارا ہے۔ مگر اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہی ادارے ہیں جنہیں اس محنت کی حفاظت کرنی تھی۔ کبھی آدھار لنکنگ کا بہانہ،کبھی پرانی کمپنی کے حصے کی عدم ادائیگی کا عذر، کبھی ٹرانسفر سرٹیفکیٹ کے فقدان کا حوالہ غرض ہر بار کوئی نہ کوئی نیا جوازگڑھ کر مزدور کو اس کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔

ایک عام نجی ملازم کی اوسط تنخواہ قلیل ہے،اس کے پاس پنشن کا کوئی قابل ذکر ذریعہ نہیں،ملازمت کا تحفظ ندارد۔ اس کے بڑھاپے کی واحد امیدپروویڈنٹ فنڈ ہے۔ وہ اپنی پوری زندگی یہ سوچ کر فنڈ کو ہاتھ نہیں لگاتا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی بدولت زندگی کی کڑواہٹ کچھ کم ہو سکے گی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بڑھاپے میں بھی وہ اپنی ہی جمع شدہ رقوم کیلئے دفتروں کے چکر لگاتا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے کہ ایک مزدور اپنی محنت کی کمائی واپس لینے کیلئے بھیک مانگنے والے کی طرح التجائیں کرے؟

حکومت اگر واقعی فلاحی ریاست کے اصولوں پر کاربند ہوتی تو کم از کم اس رقم کی بروقت واپسی کو یقینی بناتی۔ مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ای پی ایف او کے اہلکار اعتراف کرتے ہیں کہ کئی آجر اپنا حصہ باقاعدگی سے جمع ہی نہیں کراتے، مگر اس جرم کی سزا مزدور کو دی جاتی ہے۔ ریٹائرمنٹ پر کہا جاتا ہے کہ حساب کتاب باقی ہے، فنڈ روک دیا گیا ہے۔ یوں ایک شخص کی پچاس سالہ محنت کاغذی بہانوں میں دفن کر دی جاتی ہے۔

یہ کہنا کہ اصلاحات آ رہی ہیں،قواعد نرم کیے جائیں گے اور شادی،تعلیم یا رہائش جیسے مقاصد کیلئے نکالی جانے والی رقم کی حد میں کمی پر غور ہے،محض دلاسہ ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جو 90ہزار کروڑ روپے محنت کشوں کے خون پسینے کا سرمایہ بن کر ای پی ایف او کے پاس مقید ہیں،ان کا کیا ہوگا؟ وہ لاکھوں گھرانے کب تک انتظار کریں گے؟ کیا حکومت کے پاس اس کا جواب ہے؟

حالیہ اعلان کہ صارفین کی رقم کسی طور نہیں روکی جائے گی اور کم از کم ریٹائرمنٹ کے وقت واجبات ادا کرنے ہوں گے، بظاہر امید افزا ہے،مگر جب تک عملی سطح پر یہ ہدایات سختی سے نافذ نہ کی جائیں اور بدعنوان آجر و اہلکار جواب دہ نہ ٹھہرائے جائیں، یہ سب الفاظ کاغذی رہنما خطوط سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ مزدور اور نجی ملازم کے بڑھاپے کی فلاح و بہبود ریاست کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ پنشن کا معقول نظام نہ بن سکا،پروویڈنٹ فنڈ کی بروقت واپسی یقینی نہ ہو سکی اور اگر کبھی کوئی اصلاح کی خبرآتی بھی ہے تو وہ صرف وعدوں اور رپورٹوں میں دفن ہو کر رہ جاتی ہے۔
یہ صرف انتظامی ناکامی نہیں،یہ محنت کش کی زندگی کے ساتھ کھیل ہے۔ اگر مزدور کو اس کی کمائی واپس دلانے میں بھی ریاست ناکام ہے تو اس سے بڑی فلاحی ریاست کے دعوے کی تردید اور کیا ہو سکتی ہے؟ دراصل یہ سب ایک منظم بے حسی ہے،ایک اجتماعی دھوکہ ہے جس کا شکار وہ طبقہ ہے جو دن رات کام کر کے ملک کی معیشت کا پہیہ گھماتا ہے۔

محنت کش کی محنت ریاست کی امانت ہے،نہ کہ افسروں اور سرمایہ داروں کے تاخیری حربوں کا شکار۔یہ فائلوں اور بہانوں میں دبے 90ہزار کروڑ روپے صرف اعدادوشمار نہیں، لاکھوں گھروں کے آنسو ہیں اور یہ آنسو ایک دن تاریخ کا سخت ترین الزام بن کر حکمرانوں کے دامن پر پڑیں گے۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS