جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں،یہ عوام کے اس حق کا نام ہے جس کے ذریعے وہ اپنے نمائندے چنتے ہیں، اپنی آواز ایوان تک پہنچاتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق ملک کا مستقبل رقم کرتے ہیں۔ لیکن جب یہی حق کسی سازش، بدنیتی یا ادارہ جاتی ملی بھگت کی بھینٹ چڑھنے لگے تو صرف عوام نہیں پوری جمہوریت خطرے میں پڑجاتی ہے۔ بہار میں اسپیشل انٹینسیو ریویژن(SIR) کے نام پر ووٹر لسٹ سے مبینہ طور پر 65 لاکھ ووٹروں کے نام نکالنے اور مختلف ریاستوں میں ووٹ چوری کے خلاف جب اپوزیشن خاص طور پر ’انڈیا‘ الائنس نے دہلی کی سڑکوں پر احتجاج کیا تو جواب میں پولیس کی گرفتاریوں، بی جے پی کے الزامات کی بوچھار اور الیکشن کمیشن کی خاموشی نے ثابت کر دیا کہ ہندوستان میں عوام کے حق رائے دہی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
ٓٓآج پیر 11 اگست2025 کو کانگریس رہنما راہل گاندھی، ملکارجن کھرگے، پرینکا گاندھی، شرد پوار، سنجے راوت اور دیگر 300 سے زائد ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس سے الیکشن کمیشن کی طرف پرامن مارچ کو نہ صرف دہلی پولیس نے بالجبر روکا بلکہ انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ سڑکوں پر بیٹھے ارکان پارلیمنٹ، ہاتھوں میں ’SIR واپس لو‘ اور ’ووٹ ہمارا چھو کے دیکھ‘ جیسے نعرے لیے آئین کی روح سے انصاف مانگتے رہے مگر اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔احتجاج کے دوران ترنمول کانگریس کی رہنما مہوا موئترا اور میتالی باگ بیہوش بھی ہوگئیں۔
پولیس کی جانب سے مارچ کو صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر روک دینا بذات خود ایک علانیہ پیغام ہے کہ اقتدار کو عوام کی آواز سے ڈر لگنے لگا ہے۔ جب ایک منتخب حکومت اپوزیشن کی پرامن آواز کو برداشت نہ کرسکے تو یہ اس کی اندرونی کمزوری اور غیر جمہوری ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
دوسری طرف الیکشن کمیشن کا رویہ بھی غیر جانبداری سے کہیں دور نظر آتا ہے۔ جس ادارے کی اصل شناخت شفافیت، غیر جانبداری اور اعتماد پر ہو جب وہ ڈیجیٹل ووٹر لسٹ کو عوامی دسترس سے ہٹا دے، سی سی ٹی وی فوٹیج روک دے اور ووٹر لسٹ سے حذف شدہ ناموں کی فہرست شائع نہ کرے تو وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں سے منہ موڑ رہا ہے۔
بی جے پی کی طرف سے اس احتجاج کو افراتفری اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش قرار دینا خود اس بات کا اعتراف ہے کہ انہیں اپوزیشن کی اس عوامی مہم سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ جب دلیل کے جواب میں الزام تراشی، سوال کے بدلے طنز اور احتجاج کے بدلے گرفتاری کی جائے تو سمجھ لیجیے کہ سچ کسی نہ کسی گوشے سے جنم لے چکا ہے۔ مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان کی طرف سے راہل گاندھی کو غیروں کی زبان بولنے والا کہنا بحث کو ذاتی حملوں کی پست سطح پر لے جانے کے سوا کچھ نہیں۔
یہ سوال بجا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن اتنا ہی غیرجانبدار ہے تو کانگریس نے کرناٹک، تلنگانہ اور ہماچل میں کیسے کامیابی حاصل کی؟ لیکن یہ سوال بی جے پی کی سادگی نہیں بلکہ حقائق سے فرار کا مظہر ہے۔
جمہوریت میں غلط کو غلط کہنا ضروری ہے چاہے وہ جس وقت اور جس ریاست میں ہو۔ بہار میں ووٹر لسٹ کی موجودہ ترامیم، انتخابی عمل کی شفافیت پر گہرے سائے ڈال چکی ہیں۔
’انڈیا‘ الائنس کا احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستان میں ابھی جمہوریت زندہ ہے اور عوام کے حقوق کی حفاظت کیلئے آواز بلند کرنے والے اب بھی موجود ہیں۔ یہ محض ایک مارچ نہیں بلکہ ان لاکھوں ووٹروں کے حق کا مقدمہ ہے جو خاموشی سے لسٹ سے نکال دیے گئے جنہیں علم بھی نہ ہو سکا کہ ان کا آئینی حق ان سے چھین لیا گیا ہے۔
اس تناظر میں اپوزیشن کا مطالبہ کہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں باضابطہ بحث کی جائے نہایت معقول اور آئینی ہے۔ مگر افسوس کہ پارلیمنٹ میں اکثریتی شور اور حکومتی ہنگامہ اس سچ کی گونج کو دبا رہا ہے۔
جمہوریت میں سب سے بڑی طاقت عوام ہوتے ہیں اور جب ان کے ووٹ کا تقدس پامال ہو تو ہر در و دیوار سے سوال اٹھنے لگتا ہے۔ اس وقت یہ سوال صرف اپوزیشن کا نہیں ہر اس ہندوستانی کا ہے جو اپنے ووٹ کو اپنی آواز سمجھتا ہے۔وقت آ گیا ہے کہ ووٹ کی عزت کو، جمہوریت کی اصل روح کو اور آئین کی پاسداری کو محض نعروں کے بجائے ایک عوامی تحریک میں بدلا جائے۔ کیونکہ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہمارے ووٹ کے خانے میں بھی صرف خالی جگہ باقی رہے گی۔
edit2sahara@gmail.com