پنکج چترویدی
صرف 153 کلومیٹر کا ہی سفر ہے اس کا، کئی کروڑ خرچ کرنے کے بعد بھی آلودہ بنی جمنا – اس کی معاون ندی ہنڈن جو برسوں سے پاک ہونے کے وعدوں کی گھٹی پی رہی ہے اور اس کی بھی مددگار ہے یہ کرشنا۔ جہاں جہاں سے گزر رہی ہے موت بانٹ رہی ہے اور ظاہر ہے جن ندیوں میں یہ مل رہی ہے وہ بھی اس کے نقصان سے حیران پریشان ہیں۔ ضلع کے گاؤں حسن پور لہاری میں کینسر سے آدھا درجن سے زیادہ لوگ متاثر ہیں۔ تقریباً ایک درجن لوگ دم توڑ چکے ہیں۔ یہاں ہیپیٹائٹس بی اور سی اور لیور، جلد، دل، گردے کے کینسر کے مریضوں کی کافی تعداد ہے۔ گاؤں دکھوڑی، جمال پور، چندینامال سمیت کئی گاوؤں کے حالات تشویشناک ہیں۔ فی الحال کینسر کے مریض زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
جنوری-23 کے پہلے ہفتے میں شاملی ضلع کے محکمۂ صحت کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ضلع میں کرشنا ندی کے کنارے واقع گاوؤںمیں 22 لوگ کینسر سے متاثر پائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 63 کو سانس لینے میں دقت، 20 کو جگر کے مسائل، 55 کو جلد کے امراض اور 12 کو پیٹ کے سنگین مرض پائے گئے۔ سمجھنا ہوگا کہ کرشنا ندی تو بس ایک نمونہ ہے، ملک کی زیادہ تر چھوٹی ندیاں مقامی شہری یا صنعتی فضلے کی مارسے بے دم ہیں اور جب حکومتیں بڑی ندیوں کو صاف رکھنے پر رقم خرچ کرتی ہیں اور متوقع نتائج حاصل نہیں ہوتے تو اس کی اہم وجہ کرشنا جیسی چھوٹی ندیوں کو نظر انداز کرنا ہی ہوتا ہے۔
کرشنا ندی کا بہاؤ ہنڈن ندی کی مشرقی سمت میں سہارنپور ضلع کے دراری گاؤں سے ایک آبشار سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں سے یہ شاملی اور باغپت اضلاع سے ہوتے ہوئے تقریباً 153 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے باغپت ضلع کے ہی برناوا قصبے کے جنگل میں ہنڈن سے مل جاتی ہے۔ اس ندی میں نانوتہ، سکّا، تھانہ بھون، چرتھاول، شاملی اور باغپت کے کئی کارخانوں کا اَن پیوریفائیڈ کیمیائی مائع کچرا اور گھریلو نالوں کا پانی گرتا ہے۔ کرشنا ندی سہارنپور سے شاملی ضلع کے سرحدی گاؤں چندینامال سے داخل ہوتی ہے۔ سہارنپور سے ہی اس میں کئی فیکٹریوں کا گندہ پانی گر رہا ہے۔ آلودگی کنٹرول بورڈ قبول کرتا ہے کہ شاملی ضلع میں دو پیپر ملوں اور ایک ڈسٹلری کا پانی نالوں کے ذریعے ندی تک پہنچتا ہے، تاہم افسران کادعویٰ یہ بھی ہے کہ فیکٹریوں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگے ہیں اور ان کے آپریشن کی باقاعدگی سے نگرانی کی جاتی ہے۔ صرف کارخانوں کو ہی قصوروار کیوں ٹھہرائیں، صرف شاملی ضلع کی سرحد میں تقریباً 47 نالے بھی کرشنا ندی میں گر کر اسے آلودہ کر رہے ہیں۔باغپت ضلع کا گنگرولی گاؤں تو کینسر گاؤں کے طور پر بدنام ہے۔ یہاں 2013 سے اب تک تقریباً 86 افراد کینسر سے مر چکے ہیں۔
تقریباً30 سال پہلے کرشنا ندی پوری طرح صاف و شفاف تھی۔ اس کے پانی سے کھیتوں کی آبپاشی بھی کی جاتی تھی اور گھریلو کاموں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ شہروں اور قصبوں کی گندگی کو تو یہ برداشت کرتی رہی لیکن ایک تو کارخانوں نے زہر اگلا، پھر اس علاقے کے کھیتوں میں زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں گنے کے ساتھ دھان کی کاشت شروع ہوئی اور اس نے ندی ہی نہیں، زیر زمین پانی کو بھی زہرآلود کردیا۔ چار سال قبل این جی ٹی نے کرشنا کے ساتھ ساتھ کالی اور ہنڈن کے کنارے واقع گاوؤں کے تقریباً تین ہزار ہینڈپمپ بند کروا دیے تھے، کیونکہ وہ پانی نہیں موت اُگل رہے تھے۔ چونکہ ان علاقوں میں پانی کا متبادل انتظام آج تک نہیں ہو پایا، اس لیے کاغذوں میں بند ہینڈپمپ کا استعمال ہوتا رہا۔
زہر بن چکا کالی ندی کا پانی میرٹھ کے جے بھیم نگر، آڑھ، کڑھلا، دھنجو، دیدوا، اُلاسپور، بچولا، میتھنا، رسول پور، گیس پور، مرادپور، بڑھولا، کول اور یادنگر سمیت مظفرنگر، غازی آباد، علی گڑھ، بلندشہر، قنوج کے 112 گاوؤں کے سیکڑوں لوگوں کی جان لے چکا ہے۔ یمنا آلودگی کنٹرول پروجیکٹ کے تحت اس ندی سے آلودگی کو دور کرنے کے لیے تقریباً 480 کروڑ خرچ ہوچکے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے زندگی بخش پانی اب زہر بن چکا ہے۔ کرشنا کے پانی کے زہر آلود ہونے کے معاملے پر اسمبلی میں بھی بحث ہوئی اور پارلیمنٹ میں بھی۔ کرشنا کو آلودگی سے پاک بنانے کے لیے گاؤں دکھوڑی اور چندینامال کے لوگ برسوں سے تحریک بھی چلا رہے۔ سال 2006-07 میں اس کی شروعات جلال آباد کے علاقے کے گاؤں چندینامال تحریک سے ہوئی۔ پلس پولیو مہم کا مسلسل بائیکاٹ، اسمبلی انتخابات کا بائیکاٹ، گاؤں میں چولہے نہ پھونک کر، بائک ریلی نکالتے ہے، لیکن ضلعی انتظامیہ الرٹ نہیں ہوا۔ 2009 میں دکھوڑی کے گاؤں والوں نے چندینامال کے ساتھ مل کر تحریک چلائی۔ چیک ڈیم کو منہدم کرنے کے مطالبے کو لے کر دھرنے، مظاہرے، بھوک ہڑتالیں ہوئیں۔ اس بار چیک ڈیم توڑا گیا، لیکن کرشنا صاف نہیں ہوئی۔ 2012 میں جلال آباد کے نوجوانوں نے بیڑہ اُٹھایا۔ کینڈل مارچ نکالے گئے۔ مظاہرے ہوئے۔ اس بار 15 دن کے لیے گنگ نہر کا پانی اس میں چھوڑا گیا، لیکن ندی کی صفائی کا خواب پورا نہیں ہوا۔
ریسرچ اینڈ پلاننگ (واٹر ریسورس) ڈپارٹمنٹ، میرٹھ، سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ (سی ایس ای) اور جن ہت فاؤنڈیشن اور ورلڈ وائیڈ فنڈ کی رپورٹ سے یہ واضح ہے کہ 2035 تک یہ ندی ختم ہو جائے گی۔ اس میں پانی کی رفتار مسلسل کم ہو رہی ہے۔ گیج مقام بلند شہر میں پانی کی سطح 35 کیوسک ہے جو 25 سال پہلے 600 کیوسک رہتی تھی۔ ان میں لیڈ 1.15 سے 1.15، کرومیم 3.18سے6.13 اور کیڈمیئم0.003سے 0.014 ملی گرام/ لیٹر پائے گئے ہیں۔ بی ایچ سی اور ہیپٹاکلور جیسے پاپس بھی اس میں ملے ہیں۔ 2-3 ہزار کلو لیٹر اَن پیوریفائیڈ مائع کچرا روزانہ اس میں ڈالا جاتا ہے۔
یہ بدقسمتی ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے قائم کی گئی سب سے بڑی عدالت نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) بھی کرشنا کی آلودگی کے سامنے بے بس ہے۔ فروری-15 میں این جی ٹی نے اس ناکامی کے لیے چھ اضلاع کے کلکٹروں پر پانچ پانچ ہزار کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ فروری-21 میں این جی ٹی نے کرشنا کی ذمہ داری ریاست کے سکریٹری کو سونپی تھی۔ معاملہ صرف کرشنا کا نہیں، چھوٹے قصبوں، گاؤں سے بہنے والی تمام غیر معروف یا گمنام ندیوں کا ہے، جن کے کناروں پر کھیتوں میں لاتعداد کیمیکلز کا استعمال، جنگلات کی کٹائی، ندیوں کے راستے پر تجاوزات، ریت کی کانکنی نے صدیوں سے بہہ رہی زندگی کی لہروں کے وجود پر ہی بحران کھڑا کر دیا ہے۔ ندی صرف پانی لے جانے کا ایک راستہ نہیں ہے،یہ سیکڑوں جانداروں کی پناہ گاہ، معاشرے کے اعلیٰ طبقے کے لیے ذریعہ معاش اور خوراک اور زمین کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کو کنٹرول کرنے کا قدرتی طریقہ کار بھی ہے۔ جتنی ضرورت بڑی ندیوں کو بچانے کی ہے، اس سے کہیں زیادہ ضرورت کرشنا جیسی چھوٹی ندیوں کو محفوظ رکھنے کی ہے۔
[email protected]