مہراج گنج: ملت اسلامیہ روز بروز نئے نئے فتنوں سے نہ صرف یہ کہ دوچار ہے بلکہ ہمارے گرد و پیش فتنوں کا ایک سیلاب امڈ پڑا ہے، آئے دن ہمارے لڑکے اور لڑکیاں مرتدہوکردین و ایمان سے ہاتھ دھو رہےں،مسلم گھرانے انہتائی مجبوری کی حالت میں مذہب بدل رہے ہےں، سرکاری وغیرسرکاری رپورٹوںسے پتہ لگتا ہے کہ ملک بھرمیں ارتدادکا ایک طوفان برپا ہے، اور یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے ایک بڑی طاقت کام کررہی ہے،ایسے پُرخطر حالات میں ملت کے باشعورافراد ، باوقار تنظیموں اور ملی جماعتوں کواپنی غفلت سے بیدار ہوکر ملت کے نونہالوںکواس لعنت سے بچا لینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے، ان خیالات کا اظہار دارالعلوم فیض محمدی ہتھیا گڈھ کے سربراہ اعلیٰ مولانا قاری محمدطیب قاسمی نے اپنی ایک خصوصی مجلس کے دوران کیا۔
سربراہ اعلیٰ نے کہا ایک سچے پکے مسلمان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اپنے اور اپنی اولاد کے ایمان کا تحفظ ہے جو عملی زندگی اور احکام شریعت کی پیروی میں ہی ممکن ہے۔ ہم نے بچوں کو صرف معاشرے وسماج کی بنیادتوبنا رکھا ہے مگر ان کے اندر اسلامی عقائد کی مضبوطی لانے اورصحیح الفکروراسخ العقیدہ بنانے کی طرف کوئی خاص نہیں دی ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ آج کل بڑی تعداد میں ہمارے بچے اور بچیاں بآسانی فتنوں کا شکار ہو رہے ہیں، اگر ہم بچوں کو قرآن وحدیث کی روشنی میں عقائد اور دلائل دونوں یاد کروا دیں تو پھر وہی بچے راسخ العقیدہ ہونے کے ساتھ بروقت باطل نظریات اور پرآشوب فتنوںکا مقابلہ بھی کریں گے اور دشمنان اسلام کا منہ بھی بند کر سکتے ہیں۔
بلاشبہ کفر و شرک اور الحاد و دہریت ناقابل معافی جرم ہے اس کو ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا ، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کا خاتمہ ایمان پر ہو اور اپنے بعد ایسی اولاد چھوڑ جائیں جن کے سینوں میں ایمان کی دولت پنہاں ہو ،دنیا سے جاتے ہوے افراد خانہ کے بارے میں پورااطمینان ہو کہ کفر کا کوئی طوفان ان کے ایمان کو نہیں بگاڑ سکے گا ، افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ آج مسلمانوں کے ایمان پر چوطرفہ حملہ کیا جارہا ہے ، اس کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ خاص طور پر مسلمانوں کی اولاد ایمان سے محروم ہو جائیں ، ان میں مادیت کا ایسا زہر بھر دیا جائے کہ ان کے خیال میں ایمان و عقائد اور آخرت کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ ادھر چند مہینوں سے مسلسل مسلم لڑکیوں کے ارتداد کی صدمہ انگیز خبریں بذریعہ سوشل میڈیا موصول ہورہی ہیں، دیکھا جارہا ہے کہ مخلوط تعلیمی نظام والے اداروں میں زیر تعلیم بچیوںسے غیر مسلم لڑکوں کے روابط جب آہستہ آہستہ بڑھ کر عشق و محبت میں بدل جاتے ہیں تو یہ کمزورایمان والی بچیاں ان کے ساتھ بھاگ کر ان کے رسم و رواج کے مطابق شادیاںبھی رچا لیتی ہیں ، ایسی صورتحا ل میں کیا انہیں ایمان جیسی عظیم ترین دولت کی محرومی سے بچانا ہم سب کی مکمل ذمہ داری نہیں ہوتی ہے؟ ہمارا ماننا ہے کہ ملی واسلامی رشتہ کی بنیا دپر اس ذمہ داری سے فرار کی کوئی گنجائش نہیں۔
مولانا قاسمی نے کہا دوٹوک کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ارتداد کے طوفان کو روکا جائے اور اس سیلاب پرقابو پایا جائے تو ضروری ہے کہ پہلے ہم خود اسلام کے فرماں بردار بنیں، اپنے ایمان کو مضبوط و مستحکم کریں ،صلاح و تقویٰ اپنے اندر پیدا کریں۔ اس کے بہتر اثرات مرتب ہوں گے،رفتہ رفتہ دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے ساتھ دین کی محبت بیٹھے گی اور شریعت پر جینے اور مرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔پھر ار تداد کے علاوہ دیگر فتنوں سے ہم بھی محفوظ رہیں گے اور آنے والی نسل بھی سلامت رہے گی۔
نونہالوں کو ارتداد سے بچانا وقت کا اہم ترین تقاضا: مولانا قاری طیب قاسمی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS