آصف تنویر تیمی
اس زمانے میں مبلغین ودعاۃ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ الکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ہرجگہ کثیر تعداد میں مبلغین موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر کچے اور ناتجربہ کار ہیں۔ بہت کم ایسے مبلغین ہیں جو دعوت کے درست اور نبوی طریقے سے واقفیت رکھتے ہیں۔ میرے خیال میں دعوت کے نام پر اس وقت جتنا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جارہاہے اور ہر سطح پر مسلمانوں کی فضیحت ہورہی ہے اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اس کی بڑی وجہ ہمہ شما کا دعوت کے میدان میں قدم رکھنا ہے۔چنانچہ مسلمانوں کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا کہ ایسے ضرر رساں مبلغین سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے، نیز دعوت کے کاز میں کیسے بہتری لائی جاسکتی ہے۔
دعوت اہم ترین عبادت ہے۔ جس طرح دیگر عبادات کے شرائط اورقواعد ہیں اسی طرح دعوت کے بھی حدود وقیود ہیں۔جنہیں ہم فراموش نہیں کرسکتے۔ داعی کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ اس مشن کو اختیار کررہا ہے جو نبیوں کا مشن ہے۔ یہ شعور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ دعوت ثمرآور ہوگی ورنہ ساری محنتیںاکارت ہوجائیں گی۔ موجودہ وقت میں اکثر میڈیائی دعاۃ اس شعور اور احساس سے کافی دور نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی دعوت کا مقصد شہرت اور ناموری ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ سامعین کے لئے مؤثر ثابت نہیں ہوتے۔داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اخلاص اور اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صفت سے متصف ہو۔اس کا کوئی بھی عمل اخلاص سے عاری نہ ہو۔اگر کوئی اس وصف سے تہی دامن ہو تو اس کی دعوت کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔داعی کے لئے دعوتی نقطہ نظر سے سنت کی پیروی بھی ضروری ہے۔ اگر وہ سنت کی راہ کو اختیار نہیں کرتا تو اس صورت میں بھی اس کی دعوت مفید ثابت نہیں ہوگی۔ قرآن کریم میںاس بات کی صاف وضاحت ہے کہ دعوت سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودات بھی اس حوالے سے بے شمار ہیں کہ ایک شخص کی ہدایت دنیا کے خزانے سے کہیں بہتر ہے۔ داعی اور مبلغ کو اس آدمی کی طرح ثواب ملتا ہے جو دعوت کو قبول کرکے اپنی اصلاح کرتا ہے۔یہ ارشادات نبوی اس حقیقت کے بیان کے لئے کافی ہیں کہ ہم اخلاص اور سچائی کے ساتھ دعوتی ذمہ داریوں کو ادا کریں اور ذرہ برابر بھی سنت کی راہ سے انحراف نہ کریں۔ دعوت کا طریقہ کتاب وسنت میں شرح وبسط کے ساتھ مذکور ہے۔ ہمیں لازمی طور پر ان طریقوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔ کتاب وسنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک داعی سب سے پہلے عوام وخواص کو اللہ کی وحدانیت کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن بھیجا تو جن چند اہم امور اسلام کی تبلیغ کا حکم دیا ان میں سر فہرست اللہ کی وحدانیت تھی۔ لوگوں کے دلوں میں جب توحید پورے طور پر راسخ ہوجائے تو اس کے بعد ارکان اسلام اور ارکان ایمان کے بارے میں تبلیغ کرنی چاہئے۔ بہت سارے مبلغین اس نبوی طریقہ کی رعایت نہیں کرتے، توحید کی تبلیغ کو فراموش کرکے دیگر امور اسلام کی تبلیغ میںلگ جاتے ہیں۔تبلیغ ودعوت کے سلسلے میں ہمیں حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ جس طرح نماز بلا طہارت کے نہیں ہوتی اسی طرح دعوت بلاتوحید کے مفید نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر وارد عبادت کی تفسیر توحید سے کی گئی ہے۔ توحید کی اس اہمیت کو کفار مکہ بھی اچھی طرح جانتے تھے اور عبادت کا یہی مفہوم سمجھتے تھے کہ تمام معبودان باطلہ کو تج کر ایک اللہ کی عبادت کرنی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے توحید کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ربوبیت کا اعتراف کفار ومشرکین پہلے بھی کرتے تھے اور بعد میں بھی مسلمانوں کا اس بارے میں ان سے کوئی اختلاف نہیں رہا۔ مسئلہ توحید الوہیت کا تھا۔ جس کو مشرکین تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اور سارے اسلامی غزوات اسی توحید کی بلندی اور اس کے اقرار کے لئے ہوئے۔ آج بھی بہت سارے مسلمان توحید ربوبیت پر عمل کرتے ہیں مگر توحید الوہیت کے سلسلے میں ان کے یہاں بے شمار غلطیاں اور کوتاہیاں پائی جاتی ہیں جن کے اصلاح کی ضرورت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی دعوت کا محور ومرکز توحید بالخصوص توحید الوہیت رہا ہے۔ ان نفوس قدسیہ نے جہاں بھی توحید کے بارے میں لوچ پایافورا اس پر بندش لگائی۔ ایک دفعہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو مخاطب کرکے کہا:’’ جوآپ چاہیں اور اللہ چاہے‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور کہا:’’ تم نے مجھے اللہ کا شریک بنا دیا، صرف یہ کہو کہ جو صرف اللہ چاہئے‘‘۔یہود ونصاری کو اس بات کے لئے لعنت کا مستحق ٹھہرایا کہ انہوں نے نبیوںکو قبروں کو مسجد میں تبدیل کردیا۔ ایسے ہی غزوہ حنین کے موقع پر جب چند نئے مسلمان ہوئے صحابہ نے مشرکوں کی طرح اسلحہ لٹنانے کے لئے کسی درخت کو نامزد کرنے کی فرمائش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا اور اس کو جاہلیت کا عمل قرار دیا۔ ان تمام واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں توحید کی کتنی اہمیت ہے۔لیکن افسوس ان لوگوں پر جواس معاملے میں تساہلی اختیار کرتے ہیں۔عملی اعتبار سے بھی اور دعوتی اعتبار سے بھی۔مساجد بھی فضائل تو خوب بیان کئے جاتے ہیں مگر عقائد پرخال خال ہی بات ہوتی ہے۔ حالانکہ بلا توحید کے آدمی کا کوئی عمل قابل قبول نہیں ہوتا۔ مشرک کے تمام اعمال ضائع جاتے ہیں۔دعوت کے باب میں تدریج بھی ضروری ہے۔ داعی حکیم ہوتا ہے۔ موقع اور مناسبت کے لحاظ سے کسی موضوع پر گفتگو کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن بھیجا تو اس موقع پر بھی اس کی طرف اشارہ کیا کہ یمن کے لوگوں کے مزاج اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے پہلے کس بات کی دعوت دینی ہے پھر کس بات کی پھر کس بات کی۔ اسی طرح جب وفد عبد القیس کے لوگ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتدریج اسلامی تعلیمات سے انہیں بہرور فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سوالات کے جوابات بھی موقع اور محل کا خیال رکھتے ہوئے دیا کرتے تھے۔داعی جس قدر حکمت ومصلحت کو مد نظر رکھے گا اسی قدر وہ اسلام کی نشرواشاعت کا بہتر فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ساتھ ہی مناسب اسلوب بھی ہونا چاہئے۔ بہت سارے مبلغین دعوت وتبلیغ میں محنت تو خوب کرتے ہیں مگر ان کا اسلوب مناسب نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ساری محنت پر پانی پھرجاتا ہے۔ لوگوں کے ذہن کو پرکھ کر مناسب اسلوب اپنانا ایک اچھے داعی کی پہچان ہے۔صبرکو زندگی کا جزء لاینفک بنانا اور اختلاف وانتشار سے مکمل اجتناب داعی اور دعوت کا حسن ہے جس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج بہت سارے مبلغین کے ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی دعوت مسلکی تعصب اور تنگ نظری پر قائم ہوتی ہے۔ اپنے فکر اور اپنے مسلک کی تبلیغ قرآن وحدیث کی تبلیغ سے زیادہ کرتے ہیں۔ دعوت اور اجتماعیت دونوں کی کامیابی کی کلید کتاب وسنت کا فروغ ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو کتاب وسنت کی تبلیغ کی توفیق دے، اور ہر قسم کے اختلاف وخلفشار سے بچائے۔آمین
[email protected]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ دعوت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS