وعدے ،باتیں اور صرف قراردادیں: شاہنواز احمد صدیقی

0

شاہنواز احمد صدیقی

اسرائیل کوعالمی پیمانے پرزبردست ناراضگی اور بعض مقامات اورملکوں میں غصے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یوروپی ممالک جو مظلوم، یہودیوں پرہٹلر کے ذریعہ ڈھائے گئے مظالم کی وجہ سے اس کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے تھے، اب اس کے ظلم اور تشدد کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں اور اس کے استبداد کوختم کرنے کی بات کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں عالمی عدالت کے جو فیصلے سامنے آئے ہیں، اس کے بعد عالمی برادری نے ہمدردی ظاہر کی ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا جا رہا ہے، اس کی تازہ مثال اقوام متحدہ میں منظورہوئی ایک قرارداد جس میں کہا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیل اپنا غیرقانونی قبضہ ختم کرے۔ اس بابت غاصب اسرائیل کو 12ماہ سے کی مہلت دی گئی ہے کہ وہ اس مدت میں تمام مقبوضہ علاقوں کو خالی کردے۔ اس سے قبل اسرائیل کو اقوام متحدہ اور اس کے دیگرذیلی ادارے، عالمی عدالت برائے امن (ہیگ) فلسطینیوں کے حق میں فیصلہ صادر کرچکا ہے۔ اس میں اسرائیل کی اعلیٰ ترین قیادت بشمول وزیراعظم اور وزیردفاع کی گرفتاری وارنٹ جاری کیا گیا ہے جس پر ملکوں کو عمل کرنا ضروری ہے، جو اس کے دستخط کنندہ ہیں۔چند روز قبل اقوام متحدہ نے فلسطین کو ایک ریاست ممبر کا درجہ دے کر اس کے سفارتی رتبہ کو بڑھایا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی پیمانے پر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ناراضگی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف کچھ ممالک نے صہیونیوں کے مظالم کے خلاف آنکھ موند رکھی ہے۔ ہیگ کی عالمی عدالت اسی سال جولائی ماہ میں اپنا فیصلہ کرتے ہوئے کہاتھا کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل جتنی جلدی ممکن ہو سکے، اپنا غاصبانہ قبضہ ختم کردے۔ مگراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس بابت اسرائیل کو 12 ماہ کی مہلت دے دی ہے۔ جنرل اسمبلی نے یہ بھی کہا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل نے جو غیرقانونی بستیاں بسائی ہیں، ان میں تیار ہونے والے سامان کو سپلائی روکی جائے۔ ایک اور دلچسپ اوراہم مطالبہ یہ بھی کیاگیا ہے کہ اسرائیل کی حکومت کو ہتھیار، گولہ بارود اور دیگر متعلقہ سازوسامان یعنی آلات حربی سپلائی نہ کیے جائیں کیونکہ یہ تمام اسباب قتل و غارت گری کے لیے مقبوضہ علاقوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی طرف سے پیش کی جانے والی یہ پہلی تجویز تھی۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی حالیہ پرموشن کے بعد آنے والا یہ پہلا ریزولیوشن تھا۔ پہلی بار مملکت فلسطین کو قرارداد پیش کرنے کا اختیار ملا ہے۔قرارداد پیش کرنے کا اختیار ریاست کے مندوبین کو ہی ہے۔اس موقع پر بھی اسرائیل کو ملنے والی امریکہ سرپرستی سامنے آئی اور امریکی سفیر برائے اقوام متحدہ لنڈا ٹامس گرین فیلڈ نے ممبرممالک سے اپیل کی تھی کہ وہ اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دیں۔ امریکہ جو1993-95 کے اوسلومعاہدہ پر مکمل طور پر عمل درآمد کرانے میں ناکام ہے اور آج امریکہ اور اس کے چند حواری ممالک کی اندھی حمایت کی وجہ سے اسرائیل غزہ، مغربی کنارہ اور قرب وجوار کے ممالک میں ظلم وتشدد کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ اب اس قرارداد کے پیش کیے جانے کے موقع پر امریکہ دنیا سے اپیل کرتا نظر آیاکہ وہ اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہ کریں۔امریکہ کا استدلال ہے کہ اس طرح کے یک طرفہ اقدام سے دوریاستی فارمولے پرعمل آوری کے امکان کمزور ہوتے ہیں۔ اسرائیل کے اب تک غزہ میں 42ہزار افرادکو قتل کرچکاہے اور اس کی بربریت کے کئی ویڈیو سامنے آرہے ہیں، جس میں تازہ ترین اور اندوہناک منظر ایک فلسطینی کی لاش کاہے جسے اسرائیلی فوجیوں نے ایک چھت سے پھینک دیا۔
بہرکیف، اسرائیل اس قرارداد کے پاس ہونے پر اس کو سفارتی دہشت گردی قرار دے رہا ہے۔ اسرائیل نے 1967میں مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کرلیا تھا اور وہ لگاتار فلسطینی علاقوں میں اپنی نئی بستیاں تعمیر کررہا ہے۔ ان بستیوں کی تعمیر عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں غیرقانونی قرار دے دی گئی ہے۔ مگر اسرائیل تمام ضابطوں، قوانین کی دھجیاں اڑاتا ہوا لگاتار فلسطینی زمین پر اپنا قبضہ بڑھارہا ہے ،ان پر اپنی بستیاں تعمیر کررہا ہے اور فلسطینیوں کو بے گھر کررہاہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اسرائیل بالکل بے لگام ہے اور ان غاصبانہ عزائم غیرقانونی حرکتوں کو بے روک ٹوک جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیل کے حوصلے بلندہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام تربے ضابطگیوں کے باوجود 193ممبران میں سے صرف 124ملکوں نے ہی اس قرار کی حمایت کی ہے، 43ملکوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، جو ان ملکوں کی اسرائیل کو حمایت ظاہر کرتاہے۔ جبکہ اسرائیل کے سرپرست اعلیٰ سمیت 12ملکوں نے اس قرارداد کے خلاف ووٹنگ کی۔اسرائیل کو اس مدد کرنے والے ممالک لگاتار آگاہ کررہے ہیں کہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے اس کی مقبولیت اور قبولیت کم ہوتی جارہی ہے، یوروپی ممالک نے اسرائیل کی انسانیت سوزی اور بربریت آمیز کارروائیوں سے ناراض ہیں اور اس کاAnti semitismکا حربہ بھی کام نہیں کررہا ہے۔ پوری دنیا خاص طور پر نئی نسل ذرائع ابلاغ سوشل میڈیا پر غیرجانبدار ماہرین کی نظریات اور آرا سنتے ہیں تو متاثر ہوتے ہیں۔ فلسطینیوں کے جذبہ حریت اور استقلال کی بھی داد دیتے ہیں اورعالمی طاقتوں کی بے حسی، بے بسی پرملامت کرتے ہیں۔مگر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ان تمام حقائق اور بلندوبالا باتوں سے کیا مظلوم فلسطینیوں کی اموات کا سلسلہ رک گیا ہے، جب تک ان معصوموں کی ہلاکتیں نہیں رکتی ہیں تویہ باتیں لایعنی ہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS