نئی دہلی : (یو این آئی) چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمن نے ہفتہ کے روز کہا کہ ثالثی کا عمل قدیم زمانے سے ہی ہندوستانی اقدار اور روایات کا ایک حصہ ہے اور اس کے ساتھ ہی قدیم گرنتھ مہابھارت میں بھی ثالثی کی کوششوں کی مثالیں موجود ہیں۔
جسٹس رمن نے کہا کہ ہندوستانی اقدارو روایات میں تنازعات کے حل کے لئے ثالثی کا طریقہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ ثالثی کی کوشش کی ایک جیتی جاگتی مثال مہا بھارت ہے،جس میں پانڈووں اور کورووں کے درمیان ثالثی کے لئے بھگوان کرشن کی کوششوں کا ذکر ملتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بیشتر ایشین ممالک بشمول ہندوستان تنازعات کے دوستانہ انداز سے حل کرنے کا ایک طویل اور بھر پور عمل ہے۔ یہاں تک کہ برطانوی نوآبادیاتی دور سے پہلے ہی گاؤں میں سماج کے عمائدین کے ذریعہ تنازعات کو ثالثی کے ذریعے حل کیا جاتا تھا۔
جسٹس رمن’ہندوستان سنگاپور ثالثی کانفرنس‘میں بطور کلیدی اسپیکر اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ انصاف نہ ملنے میں تاخیر کا معاملہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دوسرے ممالک میں بھی بہت پیچیدہ ہے اور انصاف میں تاخیر کی وجہ سے ثالثی کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔ عام طور پر عدلیہ کو معاملات نمٹانے میں تاخیر کا الزام عائد کیا جاتا ہے ، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایسی تشریح کرنا متعصبانہ ہے۔
اس موقع پر سنگاپور کے چیف جسٹس سندریش مینن نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے ثالثوں کے لئے تربیتی میٹنگوں کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ہندوستانی اقدارو روایات میں ثالثی کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں: جسٹس رمن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS