ترقی پسند مصنفین اور بھوپال: ڈاکٹر مرضیہ عارف (بھوپال)

0

ڈاکٹر مرضیہ عارف (بھوپال)
اُردو زبان، اُس کا ادب خاص طور پر شاعری شروع سے ترقی پسندی کی نمائندگی کرتی رہی ہے ، جہاں تک اِس کے آغاز کا تعلق ہے تو ہمیں پہلے ترقی پسند شاعر امیر خسروؔ نظر آتے ہیں ، جنہوں نے سنسکرت ، فارسی اور عام بولیوں کے الفاظ کو ملا کر ایک نئی شاعری کی بنیاد ڈالی، اسی طرح ترقی پسندوں کے نقطۂ نظر کے مطابق اُردو میں دوسرا نام نظیر ؔ اکبر آبادی کا ملتا ہے،انہوں نے بھی ترقی پسندوں کے اِس نظریہ کے مطابق کہ شاعری حقیقت میں انسانی جذبات و خیالات کی آئینہ دار ہوتی ہے، اپنی شاعری کو عوامی بنا کر پیش کیا ، حالانکہ اُس وقت تک ترقی پسندی کی اصطلاح وجود میں نہیں ٓئی تھی، لیکن نظیرؔنے اپنے اشعار میں جن جذبات، ماحول اور زمانہ کی عکاسی کی، وہ ترقی پسندی کے عین مطابق تھی اس لئے اُردو میں نظیرؔ کو پہلا ترقی پسند شاعر قرار دیا جا سکتا ہے ۔
نظیر اکبر آبادی کے بعد20 ویں صدی کے تیسرے عشرہ میں ترقی پسند ادبی تحریک کا اآغاز ہوااور یہ تحریک قرونِ وسطیٰ کی بھگتی تحریک کے بعد ہندوستان کی سب سے بڑی ادبی اور ثقافتی تحریک مانی گئی ، اس تحریک نے اُردو زبان کو ہی نہیں سبھی مقامی زبانوں کو گہرے طور پر متاثر کیا ، یہاں تک کہ اُن کا رشتہ زبان و ادب کے ساتھ زندگی کے دوسرے شعبوں سے بھی جوڑ دیا۔ اس سے پہلے سر سید احمد خاں کی اصلاحی تحریک نے ادب و سماج پر ایسے ہی اثرات ڈالے تھے، لیکن اُس کے مقاصد اُردو نظم و نثر کو آسان بنانے ، ایرانی اثرات سے آزاد کرانے تک محدود تھے جبکہ ترقی پسند تحریک نے پورے انسانی سماج کے تاریک پہلوئوں کو روشن کرنے پر زور دیا، مگر اُس کی توجہ زبان و ادب پر زیادہ رہی اور یہ اپنے عہد کی انقلابی تحریک تسلیم کی گئی ۔ بلکہ نصف صدی سے زیادہ مدت تک اِس نے ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا اوراس تنظیم کی شاخین برصغیر میں منظم طور پر کام کرتی رہیں ۔
1935میں سجاد ظہیر اور اُن کے ساتھیوں نے لندن میں ترقی پسند مصنّفین کی بنیاد رکھی اور ہندوستان میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی ، عصمت چغتائی ، فیض احمد فیضؔ ، مخدومؔ ، سردار جعفری وغیرہ نے اِس کو مقبول بنانے میں اہم حصہ لیا، اس کے اعلان نامہ میں تلقین کی گئی کہ ہر ترقی پسند ادیب و شاعر اپنے ماحول کا جائزہ لے کر سماج کے بنیادی مسائل کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنائے ، نسلی تعصب ، سماجی پستی، غریبی ، فرقہ پرستی کو ختم کرنے کی کوشش کرے ۔ ترقی پسند مصنفین کی پہلی آل انڈیا کانفرنس 1936 میں پریم چند کی زیرِصدارت لکھنؤ میں ہوئی ، جس میں انہوں نے اعلان کیا تھاکہ ’’سچا ادب اُن تخلیقات کو ہی کہا جا سکتا ہے جس کے ذریعے قوت اور عمل کی تحریک پیدا ہو ، ترقی پسند ادب بیداری کا آئینہ دار ہوتے ہوئے روحانی اور ذہنی تسکین کا باعث بھی ہوتا ہے ‘‘پریم چند نے ترقی پسند ادب کو معاشرہ کی اصلاح کے لئے ضروری بتایا لیکن کانفرنس کی بازگشت ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ سجاد ظہیر اور سردار جعفری کے قریبی حلقہ نے ترقی پسند مصنفین تحریک کو ادب سے زیادہ سیاست کا ترجمان بنا دیا اور یہ اشتراکیت کی علم بردار بن کر رہ گئی ، مجبوراً اِس سے ناراض قلم کاروں کو تحریک سے علاحدہ ہونا پڑ ا، کیونکہ تنظیم اپنے بنیادی مقاصد سماج کی فلاح و بہبود سے ہٹ کر اشتراکیت کے لئے کام کرنے لگی ، پہلے اُس کا مقصد سامراجیت کا مقابلہ تھا ، عوام و خواص اِسی لئے اُس کے ساتھ تھے لیکن آزادی کے بعد تحریک کی دلچسپی کمیونسٹ نظریات کے اشاعت تک محدود ہو گئی ، ملک کی آزادی کو بھی یہ لوگ دھوکہ قرار دینے لگے لہٰذا حکومت بھی اِسے شبہ کی نظر سے دیکھنے لگی ، اِس کے اخبارات و رسائل پر پابندی لگنے لگی اور رہنمائوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی، انجمن کی بھیمڑی کانفرنس نے رہی سہی کسر پوری کر دی ۔
1949 میں ترقی پسند کانفرنس کا جو نیا دستور سامنے آیا وہ جمہویرت کے پردہ میں کمیونسٹ نظام کا ترجمان تھا ،1952 کی کراچی کانفرنس مولوی عبدالحق کی صدارت میں ہوئی تو ا س میں صورتِ حال کو سنبھالنے کی کوشش کے طور پر معافی نامہ جیسی تجاویز سامنے آئیں، لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے اُنہیں قبول کرنے کے بجائے 1953میں تنظیم پر پابندی لگا دی گئی۔
جہاں تک بھوپال کی نوابی ریاست سے انجمن ترقی پسند مصنفین کا تعلق ہے تو اُس کی سرگرمیاں یہاں کچھ تاخیر سے شروع ہو ئیں اور اُن ہی ادیب و شاعروں نے اِس میں دلچسپی لی جو دوسرے نام سے چلنے و الی کمیونسٹ تحریک سے متاثر یا وابستہ تھے ، یہ لوگ پہلے سے جاگیر دارانہ سماج اور راجہ و نوابوں کی حکمرانی کے مخالف تھے ، اور چاہتے تھے کہ انگریزوں کی طرح اُن کے اقتدار کا بھی خاتمہ ہو جائے ۔
شروع میں اِنہیں قبولیت حاصل نہیں ہوئی کیونکہ یہاں کے عوام کی اکثریت اپنی ریاست کے بنے بنائے نظام کو ختم کرنا نہیں چاہتی تھی، لیکن بعد میں نوجوان اس میں دلچسپی لینے لگے، 1945 میں جب انجمن ترقی پسند مصنفین کا بھوپال میں با ضابطہ قیام ہوا تو قدوس صہبائی اس کے صدر اور مقصود عمرانی جنرل سکریٹری بنے لیکن اِسے اعتبار و مقبولیت اُس وقت ملی جب جاں نثار اختر اور اُن کی اہلیہ صفیہ اختر جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے، حمیدیہ کالج کے اساتذہ بن کر بھوپال آئے ، یہ پہلے سے انجمن میں کام کرے رہے تھے اور تجربہ کار بھی تھے ۔
انہوں نے بھوپال میں اِس تحریک کے لئے ماحول بنایا اور قیادت سنبھالی تو نو جوان اُن کے پیچھے جمع ہو گئے ۔ اِسی زمانہ میں ملک آزاد ہو اتھا او رتقسیم کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ کشیدی عروج پر تھی ، پھر بھی بھوپال اِس سے محفوظ رہا ، اسی ماحول میں جاں نثار اختر نے بھوپال میں انجمن کی آل انڈیا کانفرنس کرنے کا ارادہ کیا ، انجمن کے ضابطے از سر نو مرتب کئے مرکزی قیادت سے اس کی منظوری حاصل کی ، حامد سعید خاں کو استقبالیہ کمیٹی کا صدر چناگیا ، انتظامیہ کمیٹی میں احسن علی خاں ، ابراہیم یوسف ، اختر سعید خاں ، قمر جمالی ، انجم سلمانی ، صہبا لکھنوی اور محمد علی تاج لئے گئے، کانفرنس کے افتتاح کے لئے معروف ادیب اور عالم قاضی سید سلیمان ندوی راضی ہو گئے تو 25 جنوری 1949 کو شام 7 بجے منٹو ہال (جو بعد میں حمیدیہ کالج بنا) میں علامہ سید سلیمان ندوی نے اس کا افتتاح فرماتے ہوئے نوجوان، ادیب شاعروں کو نصیحت کی کہ اپنی زبان اور قلم کو آگ بھڑکانے میں نہیں بلکہ اُس کو بجھانے کے کام میں لائیں ۔ اپنے میٹھے بول اور سریلے گیتوں سے غم سے بھرے ہوئے دلوں کو تسکین کا پیغام دیں ۔ میں نے ترقی پسندوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارا ادب، زندگی کا ساتھ دے ، یہ بالکل ٹھیک ہے ۔ کیا شاہنامہ اور فرخی و عنصری کے دیوان نہیں بتاتے کہ سلطان محمود کے عہد میں اُس مملکت کی کیا فضا تھی اور کیسی عسکریت چھائی ہوتھی ، اس لیے آج کے نوجوان ادیب جب اپنے زمانہ کے خیالات کی ترجمانی کرنا چاہیں تو یہ دنیا کا کوئی نیا واقعہ نہیں ، یوں ہی ہوا ہے ، یونہی ہوتا آیا ہے اور یوں ہی ہوتا رہے گا۔
خطبہ استقبالیہ حامد سعید خاں نے پڑھا اور افتتاحی اجلاس کی صدارت کرشن چندر نے کی ۔ یہ کانفرنس چھ اجلاسوں پر مشتمل تھی ۔ افتتاحی جلسہ کے بعد دوسرے اجلاس کی صدارت شاہد لطیف نے کی اور تیسرا اجلاس پنڈت سندر لال کی صدارت میں منعقد ہوا ۔اس اجلاس کومولانا سید سلیمان ندوی نے بھی خطاب کیا۔ چوتھے اجلاس کی صدر عصمت چغتائی تھیں اور چھٹا اجلاس جو ادبی تخلیقات کا دوسرا اجلاس تھا مہندر ناتھ کی صدارت میں منعقد ہوا۔ چھٹے اجلاس کے بعد 28جنوری کو جوشؔ ملیح آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا ۔ مشاعرہ سے قبل جاں نثار اختر نے اختتامیہ تقریر کی ، جس میں انھوں نے کانفرنس کے مختلف جلسوں کا جائزہ لیتے ہوئے ترقی پسند ادب اور ترقی پسند تحریک کے بعض پہلوئوں پر روشنی ڈالی اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی اِس کانفرنس نے بھوپال کے نوجوان ادیبوں و شاعروں میں حوصلہ پیدا کیا، اُن کے سینوں کو گرمانے کے ساتھ ساتھ زبان، ادب اور شاعری کے مختلف معاملات کا احاطہ کیا اور غور و فکر کی نئی راہیں کھولیں ۔ کانفرنس کے شرکا میں بھوپال کے بہت سے ادیبوں و شاعروں کے علاوہ بیرونی شعراء و ادیبوں میں پنڈت سندرلال ، جوشؔ ملیح آبادی ، عصمت چغتائی ، کرشن چندر ، شاہد لطیف ، مہندر ناتھ کے ساتھ مجروؔح سلطان پوری ، غلام ربانی تاباںؔ ، عادل رشید اور ادھو کمار بھی شامل تھے ۔ سردار جعفری کانفرنس کے انعقاد سے دو دن قبل گرفتار کر لیے گئے ۔ اس لیے وہ اس کانفرنس میں شریک نہیں ہو سکے۔ جن لوگوں نے کانفرنس کو پیغامات ارسال کیے تھے ان میں شریمتی وجے لکشمی پنڈت، ڈاکٹر عبدالحق ، ڈاکٹر سید عابد حسین اور شاہد احمد دہلوی (کراچی) قابلِ ذکر ہیں ۔ بھوپال میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی کانفرنس کی کامیابی نے جاں نثار اختر کی مقبولیت میں بڑا اضافہ کیا اور اس سے خود اُن کی علمی و ادبی سرگرمیوں میں بھی تیزی آئی ۔ اسی کے بعد مئی 1949 کی آخری تاریخوں میں انھوں نے بھوپال کی انجمن ترقی پسند مصنّفین کے صدر احسن علی خاں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بھیمڑی کانفرنس میں شرکت کی ۔
جون 1949 میں بھوپال کا حکومتِ ہند میں انضمام عمل میں آیا اور یہاں چیف کمشنر راج قائم ہواتو انجمن کے ممبران کی سخت نگرانی ہونے لگی، چونکہ بھیمڑی میں انجمن نے انتہا پسند رویہ اختیار کیا تھااِس لیے حکومت ترقی پسند مصنّفین کی سر گرمیوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ بھوپال میں بھی چیف کمشنر راج نے اس سلسلے میں سخت اقدامات کیے۔ ترقی پسندوں کے گھروں کی تلاشی لینی شروع کر دی گئی اور گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں ۔ اِن نازک حالات کا اندازہ کر کے جاں نثار اختر نے بھوپال چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور وہ صفیہ اختر کو اپنا استعفیٰ سونپ کر 19 دسمبر 1949 کو بمبئی کے لیے روانہ ہو گئے ۔
ترقی پسندوں کی بھوپال کانفرنس ایسے و قت میں ہوئی جب تحریک ادبار کی شکار تھی ، اُس پر مختلف الزامات لگائے جا رہے تھے ، ان کا جواب دینے کے لیے یہ کانفرنس ایک پلیٹ فارم ثابت ہوئی ، اس کے ذریعہ ہندوستان کی آزادی ، اردو زبان کے بارے میں موقف ، فرقہ ورانہ قتل و غارت گری اور ملک کی تقسیم جیسے اہم سوالوں پر بحث کر کے اُن کی مناسب وضاحت کرنے نیز انجمن پر عائد الزامات کا جواب دینے کی جو کوشش ہوئی ، اُس سے سبھی مطمئن نظر آئے ، یوں بحیثیت مجموعی یہ کانفرنس اپنے مقاصد میں کامیاب رہی ،لیکن مقامی طور پر اِس کے اثرات دیر پا ثابت نہیں ہوئے کیونکہ جاں نثار اختر نے بمبئی جانے سے قبل احسن علی خاں کو انجمن کے مقامی یونٹ کا صدر بنا دیا تھا لیکن وہ اِسے متحد نہیں رکھ سکے ، اس میں بھوپال کے سیاسی حالات خاص طور پر یہاں دو سو سال سے جاری جاگیر دارانہ نظام کا عمل دخل رہا ۔ پھر بھی انجمن ترقی پسند مصنّفین بھوپا ل کے نام سے یہاں انجمنیں بنتی رہیں اور محدود پیمانے پر اُن کی سرگرمیاں بھی چلتی رہیں ۔ نشستوں میں مقامی شاعر ، افسانہ نگار ، ادیب اور صحافی شرکت کرکے اپنے تخلیقات پیش کرتے رہے ، آخری زمانہ میں اِس کی نشستیں اختر سعید خاں ، فضل تابش کے مکانات پر پروفیسر کالونی اور لبرٹی ہائوس میں ہوتی رہیں جن میں ڈاکٹر شنکر دیال شرما ، ست پرکاش سنگر ، قمر جمالی ، اشتیاق عارف ، عشرتؔقادری، مقصود عمرانی ، محمد علی تاجؔ ، انجم سلمانی ، ابراہیم یوسف ، متین نیاز، قاسم نیازی ، نعیم کوثر ، خالد عابدی، وحید پرواز ، ظفر صہبائی ، سرفراز دانش ، جی ایم نغمی ، امتیاز انجم وغیرہ حضرت شرکت کرتے رہے ۔
کافی عرصہ ہو گیااب انجمن ترقی پسند مصنفین کا بھوپال میں نام بھی سنائی نہیں دیتا ، نہ اُس کے عہدے دار و ارکان موجود ہیں ۔ ایک ایک کر کے سبھی رخصت ہو گئے ، ظفر صہبائی حیات ہیں ۔ اللہ انہیں سلامت رکھے ۔ آمین ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS