صبیح احمد
ہندوستان نے حال ہی میں چینی شہریوں کو سیاحتی ویزے دوبارہ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایسا دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ 5 سالوں میں پہلی بار ہو رہا ہے، جب دونوں ہی ملک اپنے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بیجنگ نے بھی اس مثبت پیش رفت کا نوٹس لیا ہے۔ ہندوستان کے اس اعلان کے بعد چین کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’چین ہندوستان کے ساتھ رابطہ اور مشاورت جاری رکھنے اور دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر تبادلوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے تیار ہے۔‘ ہندوستان اور چین کے درمیان 3000 کلومیٹر سے زیادہ کی مشترکہ سرحد ہے اور دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات بھی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اس وقت شدت اختیار کرگئی تھی جب 2020 میں ہمالیائی سرحد پر ایک فوجی جھڑپ ہوئی تھی۔ اس کے رد عمل میں ہندوستان نے چینی سرمایہ کاری پر پابندیاں عائد کر دی تھیں، سیکڑوں مشہور چینی ایپس پر پابندی لگادی تھی اور مسافروں کے لیے راستے بند کر دیے تھے۔ اسی دوران چین نے بھی کووڈ-19 وبا کے باعث ہندوستانی شہریوں اور دیگر غیر ملکیوں کے ویزے معطل کر دیے تھے، لیکن 2022 میں طلبا اور کاروباری مسافروں کے لیے ویزے جاری کرنا دوبارہ شروع کر دیے۔ ہندوستانی شہریوں کے لیے سیاحتی ویزے تاحال محدود تھے لیکن رواں سال مارچ میں جب دونوں ممالک نے براہ راست فضائی سروس دوبارہ بحال کرنے پر اتفاق کیا تو ان میں نرمی دیکھنے میں آئی۔
بہرحال حالیہ کچھ مہینوں سے چین اور ہندوستان کے تعلقات میں بتدریج بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے۔ گزشتہ سال کئی اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہوئیں جن میں روس میں چینی صدر ژی جنپنگ اور ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان اکتوبر میں ہونے والی بات چیت شامل ہے۔ گزشتہ ہفتہ 5 برسوں کے بعد ہندوستانی وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے چین کا دورہ کیا، جو عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ کیا یہ دونوں روایتی حریفوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی طرف پیش قدمی ہے یا محض معمول کا سفارتی عمل؟ ہندوستان کے مختلف وزرا نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے مختلف اجلاسوں کے لیے چین کا دورہ کیا۔ اب جے شنکر نے بھی چینی صدر ژی جنپنگ سے ملاقات کی ہے۔ کچھ لوگوں نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والی حالیہ لڑائی کے دوران یہ الزام لگایا کہ چین نے پاکستان کو ہتھیار فراہم کیے یا مختلف طریقوں سے ہندوستان کے خلاف پاکستان کی مدد کی۔ ان الزامات کے بعد اس ملاقات کو چین اور ہندوستان کے بدلتے ہوئے رویے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس دورے کو صرف پاکستان کے تناظر میں دیکھنا مناسب نہیں ہو گا۔ امریکی ٹیرف بھی چین اور ہندوستان کو بہت سارے اختلافات کے باوجود قریب آنے پر مجبور کر رہا ہے۔ واشنگٹن جہاں بیجنگ پر سخت ٹیرف لگا رہا ہے، وہیں اس نے ہندوستان کی ناک میں بھی دم کیا ہوا ہے۔
ہندوستان کو چین کی بہت سی پالیسیوں پر اختلاف ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر دہلی کو پریشانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے بعد 12 برسوں میں جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ اس کی تجارت کا حجم دوگنا ہوگیا ہے۔ چین کی نایاب معدنیات اور کھاد کی برآمدی پالیسی پر بھی ہندوستان کو تحفظات ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے لیے چینی حمایت بھی ہندوستان کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ دہلی بیجنگ کے ڈھاکہ سے بڑھتے ہوئے تعلقات کو بھی شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ان سارے عوامل کے پیش نظر اس دورے کا یہ مطلب نکالا جا رہا ہے کہ ہندوستان چین سے تعلقات بہتر کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے، لیکن کوشش صرف ہندوستان کی طرف سے ہی نہیں ہو رہی ہے بلکہ چین نے بھی حال ہی میں تبت میں ہندوستانی یاتریوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی میں سہولیات فراہم کی ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کا عندیہ بھی دیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازیں جلد شروع ہوسکتی ہیں۔ ہندوستان اور چین کے درمیان ایک اور وجہ نزاع تبت کا معاملہ ہے۔
ہندوستان کھل کر دلائی لاما کی حمایت کرتا ہے اور اس نے دھرم شالہ میں انہیں اپنے یہاں عبوری حکومت قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ گزشتہ دنوں دلائی لاما کی 90ویں سالگرہ کی تقریب میں ہندوستان کے کئی وزرا نے شرکت کی، جس پر چین نے برہمی کا اظہار کیا۔ چین سمجھتا ہے کہ دلائی لاما کے جانشین کے لیے اس کی منظوری درکار ہو گی، جبکہ دلائی لاما اسے مسترد کرتے ہیں۔ تبت کا معاملہ چین اور ہندوستان کے تعلقات میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ ہند-چین تعلقات کی راہ میں اور بھی کئی رکاوٹیں ہیں۔ ہندوستان، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا ایک ایسے عسکری اتحاد کا حصہ ہیں جس کا بظاہر مقصد چین کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے۔
ایک اور تنازع دریائے برہمپتر پر چین کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے ڈیم کے حوالے سے ہے۔ چین نے ہندوستان کی سرحد سے تقریباً 50 کلو میٹر دور تبت میں دریائے برہمپتر جسے چین میں یارلنگ زانگبو کہا جاتا ہے، پر 170 ارب ڈالر مالیت کے ڈیم کی تعمیر کا باضابطہ آغاز کر دیاہے۔ یہ دریا اروناچل پردیش میں داخل ہوتا ہے جہاں سے یہ آسام اور پھر بنگلہ دیش سے گزرتے ہوئے خلیج بنگال میں ضم ہو جاتا ہے۔ اسے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم قرار دیا جا رہا ہے اور اسی لیے دریا کے نچلے خطہ والے ممالک ہندوستان اور بنگلہ دیش کو اس کے متعلق شدید تشویش لاحق ہے۔ بیجنگ کے لیے یہ منصوبہ ماحول دوست توانائی، روزگار اور سست ہوتی معیشت کے لیے ایک محرک ہے لیکن دریا کے نیچے واقع ہمسایہ ممالک کے لیے یہ پرانے خدشات کو پھر سے زندہ کر رہا ہے جو یہاں کے کروڑوں لوگوں کے لیے زندگی کا ذریعہ ہے۔ چین نے اس ڈیم کی تعمیر کے طریقہ کار کے بارے میں بہت کم معلومات شیئر کی ہیں۔
اور چین کی جانب سے معلومات کی یہ کمی بھی ہندوستان اور بنگلہ دیش میں واٹر سیکورٹی کے خدشات کو بڑھا رہی ہے کیونکہ یہ ممالک برہمپتر دریا پر آبپاشی، بجلی اور پینے کے پانی کے لیے انحصار کرتے ہیں۔ اروناچل پردیش کے وزیراعلیٰ خبردار کرچکے ہیں کہ یہ چینی ڈیم دریا کے 80 فیصد حصے کو خشک کر سکتا ہے اور ساتھ ہی پانی چھوڑے جانے کی صورت میں نیچے والے علاقوں جیسے آسام میں سیلابی خطرات بھی بڑھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیم سے صرف پانی ہی نہیں بلکہ مٹی کا بہاؤ بھی کم ہو جائے گا، جو زرخیز میدانی علاقوں میں زراعت کے لیے ضروری غذائی اجزا لے کر آتا ہے۔ بیجنگ کی جانب سے شفافیت کی کمی اس قیاس آرائی کو تقویت دے رہی ہے کہ چین کسی ممکنہ تنازع میں پانی روکنے کے لیے اس ڈیم کو استعمال کر سکتا ہے جبکہ چین ان خدشات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
اگر ہندوستان چین کے تحفظات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر چین بھی نئی دہلی کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں حریفوں کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں،لیکن اس بہتری کی ایک اور اہم کڑی امریکہ کے ناقابل پیش گوئی صدر ٹرمپ ہیں۔ فی الحال ٹرمپ کی مخاصمانہ تجارتی پالیسیاں ہندوستان اور چین کو قریب آنے پر مجبور کر رہی ہیں لیکن اگر ٹرمپ کی پالیسی تبدیل ہوتی ہے تو ان تعلقات میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آسکتی ہے۔ بلا شبہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے 2 بڑے پڑوسی ممالک کے تعلقات میں بہتری ’ایس سی او‘ اور ’برکس‘ کو مضبوط کر سکتی ہے کیونکہ ان دونوں تنظیموں میں دنیا کی 2 بڑی مارکٹیں، 4 نیوکلیائی ہتھیار رکھنے والے ممالک، دنیا کی 4 بڑی عسکری طاقتیںاور قدرتی وسائل سے مالا مال کئی ممالک ہیں، جو امریکی اور مغربی بالادستی کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
sasalika786@gmail.com