پروفیسرعتیق احمدفاروقی
گزشتہ نوسالوں سے ہندوستانی ٹی وی چینلوںپرجو مباحثہ دیکھے اور سننے گئے ہیں ان کے معیار کی تنقید ہرمہذب وصحیح سوچ رکھنے والے افراد نے کی۔ ان مباحثہ کا90فیصد وقت پاکستان اورمسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز کلمات اداکرنے اورجاہلوں کے انداز میں سطحی گفتگو کرنے میں گزرا۔ یہاں پر ایک سادہ لیکن معنی خیز شعرمجھے یاد آرہاہے :
بات چاہے بے سلیقہ ہو مگر
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
دراصل ہندوستان کا مسلمان مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم کی قیمت مسلسل ادا کرتارہاہے۔میرا اپنا نظریہ ہمیشہ رہاہے کہ ملک کی تقسیم غلط اورغیرضروری تھی۔ سب سے بڑاسوال یہ ہے کہ ملک کی تقسیم سے پہلے کیا عام مسلمانوں سے رائے لی گئی تھی؟ اگرہمارے سیاستدانوں کو معلوم ہوتاہے کہ تقسیم کے نتیجہ میں اس سطح تک خون خرابہ ہوگا تووہ ایسا نہیں ہونے دیتے۔ محمدعلی جناح کواگر پتہ ہوتا کہ تقسیم کے نتیجے میں مسلمان ہرشعبہ میں اتناپچھڑ جائے گا توشاید وہ اپنی جانب سے یہ مطالبہ واپس لے لیتے۔ پنڈت جواہرلال نہرو بھی ان حالات میں تقسیم کے ایشو پر ایک نظرثانی ضرورکرتے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ جواہر لال نہرو اورمحمدعلی جناح دونوں ہی روشن خیال ،سیکولرذہن کے مالک تھے اورفرقہ پرستی سے کوسوں دو رتھے۔ نتیجتاً اپنے ملک میں سیکولر اورجمہوری نظام قائم ہوا اورپاکستان میں بھی مذہبی حکومت قائم ہونے کے باوجود وہاں کے آئین کی تمہیدمیں اقلیتوں کے اختیارات کو یقینی بنایاگیاہے۔ جناح نے ملک کی تقسیم کے بعد قوم سے پہلے خطاب میں کہاتھا کہ’ یہاں ہندو اورمسلمان دونوں ہی میل محبت سے رہیں گے اورچند دنوں بعد نہ ہندو، ہندو رہ جائے گا اورنہ مسلمان ،مسلمان رہ جائے گا،دونوں ہی پاکستانی بن کر اپنے ملک کی خدمت کریں گے۔دونوں کے بیچ سیکڑوں سال سے چلی آرہی نفرت ختم ہوجائے گی ‘لیکن دونوںہی ممالک میں چند کٹرمذہبی عناصر کی موجودگی کے سبب اقلیتوں کے ساتھ برابری کاسلوک نہیں ہوا۔ دونوں ہی طرف اقلیتوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ زیادیاں ہوئیں ، کہیں زیادہ تو کہیں کم۔ دراصل ہندوستان اورپاکستان دونوںہی ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کے مطابق مذہبی تفریق نہیں ہونی چاہیے تھی اورہندوستانی تہذیب ’ساری دنیا ایک خاندان ہے‘ کے اصول پر یقین رکھتی ہے۔ 2014 کے بعد حکمراں جماعت کا رویہ بھی سیاسی مفاد کے سبب اقلیتوں کے ساتھ مناسب نہیں رہاہے جس سے حالات اورابتر ہوگئے۔ بہرکیف دونوں ہی ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ اقلیتوں کے تحفظ کیلئے ایک علاحدہ سخت قانون وضع کریں جس سے کوئی بھی اقلیتوں پر حملہ کرنے یا انہیں پریشان کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ دونوں ہی جانب کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیت اوراکثریت کے بیچ میل محبت کو فروغ دیں ۔ کوئی بھی ملک تبھی ترقی کرسکتاہے جب بناکسی تفریق سارے فرقوں کی ترقی کا خیال رکھاجائے۔ اگرایسا ہوگیا تو دونوںممالک کے تعلقات بھی بہتر ہوجائیں گے۔
اگردونوںممالک کے موجودہ حالات کا گہرائی سے جائزہ لیاجائے تو پتہ چلے گاکہ ہمارے ملک کے حالات پاکستان سے بہت بہترہیں۔ ہماری معیشت کا شمار آج دنیا کی پانچ ممتاز معیشتوں میں ہوتاہے۔ پاکستان کی معیشت میرے خیال میں اس کے قیام کے بعد آج سب سے خستہ حالت میں ہے۔ حال میں ہندوستان نے جہاں 74ویں یوم جمہوریہ کے موقع پر ایک حقیقی جمہوری ڈھانچے میں اپنے عوام سے جامع ترقی کیلئے پھر عزم کا اظہار کیاہے تودوسری جانب پاکستان بھاری سیاسی واقتصادی مشکلات میں پھنسا ہواہے۔ اس کے حالات کو پاکستانی روزنامہ’ڈان‘ نے حالیہ اداریہ میں اس طرح تحریر کیاہے،’ملک مایوسی کی اتنی گہری کھائی میں پہنچ گیاہے کہ لوگ بوریا بستر سمیٹنے اورملک چھوڑنے کی وکالت کررہے ہیں‘۔ پاکستان کی فوج اورسیاسی برادری ملک کے ایسے برے حالات کے سبب مزید تدارک پر محاسبہ کرنے کے بجائے اپنی پرانی پالیسیوں پر قائم ہیں۔ یہ پالیسیاں لوگوں کو مسلسل غریبی کے دلدل میں ڈھکیلنے اوران کٹر ومولویوں کی طاقت بڑھانے والی ہے جو ملک کو پتھر کے زمانے میں لے جاناچاہتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات کاجائزہ لینے سے پہلے ایک حالیہ واقعہ کا ذکر ضروری ہے۔ ہندوستان نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کیلئے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کودعوت نامہ بھیجاہے۔ چونکہ اس تنظیم کی صدارت فی الحال ہندوستان کے پاس ہے تو اس ناطے ایس سی او اجلاس کے انعقاد کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے۔ خیال رہے کہ بلاول کو بھیجاگیادعوت نامہ دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں نہیں ہے اورایس سی او کے صدر ہونے کے ناطے ہندوستان پاکستانی وزیرخارجہ کو مدعو کرنے سے نہیں بچ سکتاتھا۔ دوسری طرف پاکستانی وزارت خارجہ نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیاہے کہ بلاول اس جلسہ میں شرکت کریں گے یانہیں ۔
بلاشبہ سفارتی پروٹوکال کی اہمیت کے مدنظر بلاول کو بلانے میں جے شنکر کو کڑوا گھوٹ پینا پڑا ہوگا۔ ایسا اس لئے ہے چونکہ گزشتہ ماہ بلاول نے وزیراعظم نریندرمودی کے تئیں نازیبا زبان استعمال کی تھی۔ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف تو عوامی سطح پر کہہ سکتے تھے کہ وہ مودی کے تئیں بلاول کی زبان سے اتفاق نہیں کرتے لیکن انہوںنے بھی ایسا کچھ نہیں کیا۔ مجموعی طورپر یہ کہاجاسکتاہے کہ بلاول کو دعوت نامہ بھیجنے کے معاملے میں یہ نہیں کہاجاسکتاکہ ہندوستان نے پاکستان کے تئیں اپنی اس پالیسی کو بدل دیاہے کہ جب تک وہ اپنی زمین پر موجود دہشت گرد عناصر پر لگام نہیں لگاتا تب تک اس کے ساتھ کسی طرح کی کوئی بات چیت ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کا اگرجائزہ لیاجائے تو پاکستاتی اسٹیٹ بینک کی صرف ایک ماہ کی برآمدنی کی مالی گنجائش بچی ہے اوروہ بھی متحدہ عرب امارات کی حالیہ مدد کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ اسے آئی ایم ایف سے مددکی فوری ضرورت ہے تاکہ پاکستانی روپئے کو کچھ سہارا مل سکے ۔ آئی ایم ایف نے مدد دینے کیلئے کچھ شرطیں رکھی ہیں جسے شروع میں تو شہباز شریف نے مان لیاتھا لیکن جب اس سے ان کی مقبولیت کم ہونے لگی تو وہ اپنے وعدے سے پھرگئے ۔ نتیجتاً آئی ایم ایف نے مدد روک دی۔ اب پتہ چلاہے کہ پاکستانی وزیراعظم ان شرائط کو ماننے کیلئے دوبارہ غور کررہے ہیں ۔ پاکستانی فوج نے شروع سے ہی حکومت پر اپنا دبدبہ بنائے رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ عمران خاں کی حکومت کے دورمیں ان کی موجودہ فوج کے سربراہ عاصم منیر کو آئی ایس آئی کے سربراہ کے منصب سے ہٹانے کو لیکر سابق فوجی سربراہ جرنل قمر باجوا سے تنازعہ پیدا ہوگیاتھا ۔ پاکستان کی کوئی منتخب حکومت فوج کو بنااعتماد میں لئے نہیں چل سکتی۔ فوجی افسران نے وہاں کے عوام کو سمجھادیا ہے کہ ہندوستان ہی پاکستان کا حقیقی دشمن ہے اورفوج ہی پاکستان کی حفاظت ہندوستان سے کرسکتی ہے۔
اب ہمارے ہندوستان میں حکمراں جماعت نے عوام کو سمجھا دیا ہے کہ پاکستان ہی ہمارا اصل دشمن ہے اورمودی حکومت ہی پاکستان کو صحیح سبق سکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اب وقت آگیاہے کہ دونوں حکومتیں کشمیر کے تنازعہ کو فی الحال بھول جائیں اورتعلقات بحال کریں۔ اپنی توانائی ملک کی تعمیر وترقی میں خرچ کریں۔ دونوں ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھیں۔پاکستان کو چاہیے کہ اس کی زمین پر دہشت گردی کا جو بھی ڈھانچہ موجود ہے چاہے اس کی نوعیت جو بھی ہو، اس کو سرے سے ختم کردے کیونکہ پچھلے چند سالوں کے واقعات گواہ ہیں کہ وہ خود بھی دہشت گردی کی مصیبت جھیل رہاہے اورپاکستانی پولیس اورفوج نے ان کے خلاف کچھ مؤثر کارروائی بھی کی ہے۔ ہندوستان بھی پاکستان کے بلوچی باغیوں کو کسی طرح کی حمایت ، اگر کوئی ہے جیسا کہ پاکستان الزام لگاتاہے ، نہ کرے۔ دونوںممالک میں تجارت مکمل طور پر بحال ہوں۔ دونوں ممالک کے شہریوں کو باہمی سفر کو پاسپورٹ -ویزا کی قید سے آزاد کیاجائے ۔صرف اپنا شناختی کارڈ دکھاکر اورحکومتی پرمٹ جمع کرکے ایک دوسرے کے ملک میں شہریوں کو سفرکرنے کی اجازت ہو۔ یہ چیزیں دونوں ممالک کے مفاد میں ہوں گی اور ہم چین سے نمٹنے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے ۔
[email protected]