عبد العزیز
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بار بار ہدایت دیتا ہے کہ ’’وَلم یَخش اِلا اللہ‘‘ (اور (مسلمان) اللہ کے سوا کسی نہ ڈریں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں شرک کی نفی کے لئے ہے یعنی ان کے اندر کسی غیر اللہ کا خوف نہ پایا جاتا ہو۔ ظاہر ہے یہاں خوف سے مراد وہ خوف ہے جو کسی غیر اللہ کی بذات خود نفع بخش یا نقصاندہ ماننے سے پیدا ہوتا ہے، یہ خوف شرک ہے۔ شرک کے ساتھ کوئی نیکی نہیں رہ جاتی، کیونکہ شرک کے ساتھ خدا کو ماننا بالکل اس کے نہ ماننے کے ہم معنی ہے۔ عام طور پر مسلمان پڑھا لکھا ہو یا پڑھا لکھا نہ ہو وہ یہ ضرور کہتا ہے کہ ’’میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا‘‘۔ یہ بات مسلمانوں کی طرف سے کہی تو جاتی ہے مگر اس میں گہرائی نہیں ہوتی، یقین کا عنصر بہت کم شامل ہوتا ہے۔ مسلمان معمولی معمولی باتوں سے بھی ڈرتا ہے اور معمولی معمولی آدمی کو بھی نفع بخش یا ضرر رساں سمجھتا ہے۔ اگر اس حقیقت پر سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ غور کیا جائے تو مسلمان جو اللہ کے سوا دوسری چیزوں یا دوسری طاقتوں سے ڈرتا ہے یہی وہ سب سے بڑا مسئلہ ہے جسے مسلمان بدقسمتی سے مسئلہ نہیں سمجھتا اور نہ اس مسئلے کے حل کی کوشش کرتا ہے۔ آج جو ہندستان میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کی غیر معمولی کوشش کی جارہی ہے اور اس کے اثرات بھی رونما ہورہے ہیں۔ مسلمان ان حالات سے ایک حد تک متاثر ہیں۔ مسلمان شاعر متاثر ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے ’’شیر آجائے مقابل میں کوئی بات نہیں – گائے پیچھے سے گزر جائے تو ڈر لگتا ہے‘‘۔
ہمارے مسلم رہنما ماحول کے ڈر اور خوف کو زائل کرنے کے لئے تقریریں ضرور کرتے ہیں۔ قرآن کا درس بھی دیتے ہیں۔ حدیث کی تعلیم بھی پیش کرتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں کہ ملک میں جو حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یا پیدا ہوچکے ہیں ان کی سچی اور حقیقی تصویر پیش کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اس کے حل کے لئے مختصر المیعاد (Short Term) یا طویل المیعاد (Long Term) منصوبہ پیش کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔
آج پہلے مسلمانوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے کیسے حالات ہیں؟ یا دوسرے لفظوں میں ہندوستان میں مسلمان ہونے کا مطلب کیا ہے؟ 1925ء سے آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سنگھ) نے آج کے حالات پیدا کرنے کے لئے ایک طویل المیعاد منصوبہ بنایا تھا۔ اگر چہ اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لئے ان کی دو ڈھائی سو ذیلی تنظیمیں سرگرم عمل رہتی تھیں اور رہتی ہیں۔ لیکن بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی تحریک 1984ء سے شروع ہوئی ۔ ایل کے ایڈوانی کی سربراہی میں ’رتھ یاترا ‘ نکلی۔ اس رتھ یاترا نے ملک کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ آہستہ آہستہ یہ تحریک مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ مسجد بھی شہید کردی گئی اور مندر کی تعمیر بھی ہوگئی، اس کا افتتاح بھی ہوگیا۔ اس تحریک سے مسلمانوں کے خلاف برادرانِ وطن کی ایک بہت بڑی اکثریت کے اندر نفرت کا زہر گھول دیا گیا۔ اس نفرت کا اثر ملک کے ہر سرکاری، غیر سرکاری ادارے پر پڑا ہے۔ عدلیہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ بابری مسجد کے تنازعہ کے فیصلہ نامہ میں پورے طور پر یہ اثر دکھائی دیتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ شرپسندوں کی طرف سے مسجد میں مورتی رکھنا غیر قانونی اور غلط تھا۔ مسجد منہدم کرنا بھی غیر قانونی تھا۔فیصلہ نامہ میں یہ سب لکھنے کے باوجود ہندو اکثریت کی خواہش کے مطابق آستھا (عقیدہ) کی بنیاد پر مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کرنے کے لئے مسجد گرانے والوں کے سپرد کردی گئی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے چند دنوں پہلے جو بیان عدالتی فیصلے کے بارے میں دیا ہے اس سے دستور کی دیواریں پاش پاش ہوجاتی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ فیصلہ نامہ لکھنے میں خدا کا ہاتھ ہے۔ یہ بات کچھ ایسی ہی ہے جیسے دنیا کے ایک بہت بڑے فٹ بالر مرا ڈونا نے جرمنی کی ٹیم کے خلاف اپنے ہاتھ کی مدد سے گول دینے کے چند دنوں بعد کہا تھا کہ ’’یہ گول خدا کے ہاتھ (Hand of God) سے ہوا تھا‘‘۔ جسٹس چندر چوڑ اس فیصلہ کرنے والی پانچ رکنی بنچ میں شامل تھے۔ باوثوق ذرائع سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فیصلہ نامہ انھوں نے ہی لکھا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ بابری مسجد قضیہ کے فیصلہ سے پہلے انھوں نے بھگوان سے رہنمائی حاصل کی تھی اور اسی کے مطابق فیصلہ سنایا گیا تھا۔
ہندستان کے دستور کو بچانے میں عدلیہ کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے۔بدقسمتی سے 2014ء سے عدلیہ اس اہم کردار کو ادا کرنے سے قاصر ہے۔ حالانکہ 12جنوری 2018ء کو سپریم کورٹ کے چار بڑے سینئر جج صاحبان نے پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’عدلیہ پر دباؤ ہے اور جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے‘‘۔ ان چار ججز میں سے سب سے سینئر جج جسٹس رنجن گگوئی تھے جو بعد میں چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ کا فیصلہ کیا۔ جسٹس رنجن گگوئی کو ریٹائر ہونے کے بعد حکومت کی طرف سے یہ انعام دیا گیا کہ انھیں راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا گیا۔
حکمراں جماعت یا حکومت مسلمانوں کو ایک طرح سے نہیں کئی طرح سے ان کو حیران و پریشان اور ان کے عرصۂ حیات کو تنگ کر رہی ہے۔ ان کا جینا حرام کر رہی ہے۔ ان کے نام و نشان کو مٹانے میں لگی ہوئی ہے۔ ان کے گھروں کو مسمار کرنے کے لئے قانونی طور پر نہیں بلکہ غیر قانونی طور پر بلڈوزر کا استعمال کر رہی ہے۔ ماب لِنچنگ ، لَو جہاد جیسی چیزوں کا اختراع بھی مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس پیدا کرنے، ان کی ہمت و جرأت کو پست کرنے کے لئے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کوئی بھی شخص مسلمانوں کو کھاتے دیکھ کر شک کی بنیاد پر جان لینے کے درپے ہوسکتا ہے۔ کسی مسلمان کے گھر میں گھس کر فریج کو کھول سکتا ہے اور شک کی بنیاد پر اسے اس کے گھر سے گھسیٹ کر جان لے سکتا ہے۔ مسلمان کے گھر میں جبراً گھس کر اس کی چھت پر بھگوا جھنڈا لہرا سکتا ہے۔ ٹرین میں سفر کے دوران مسلمان کے ٹفن کو دیکھ کر اسے نہ صرف حیران و پریشان کرسکتا ہے بلکہ اسے جان سے بھی مار سکتا ہے۔ ’جے شری رام‘ نہ کہنے پر اس کا گلا گھونٹ سکتا ہے۔ اس طرح کی بہت سی حرکتیں فرقہ پرستوں کے ہاتھوں سے رونما ہورہی ہیں۔ مجرموں کو سراہا جارہا ہے، ان کا استقبال کیا جارہا ہے۔ ان کو پھولوں کا ہار پہنایا جارہا ہے۔ ان کے اس کالے کرتوت پر ان کا پرموشن ہورہا ہے۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے لئے ٹکٹ دیا جارہا ہے۔
قانون سازی کے ذریعے مسلمانوں کے وجود کو مٹانے اور پریشان کرنے کے لئے لگاتار کوشش ہورہی ہے۔ لو جہاد مخالف قانون بنایا گیا۔ تبدیلیِ مذہب کے خلاف قانون سازی ہوئی۔ ’سی اے اے‘ اور ’این آر سی‘ جیسا آناً فاناً قانون بناکر مسلمانوں کی شہریت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تین طلاق کے خلاف قانون بناکر شوہر کو Criminalise (مجرم، گناہ گار) قرار دیا گیا۔
اب جو وقف بورڈ پر قانون بنانے کی کوشش شروع کی گئی ہے ، پہلے جو قوانین بنائے گئے ہیں مسلمانوں کے خلاف اسی کی ایک کڑی ہے۔ ایک ایسا قانون بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے وقف کی زمینوں کو حکومت آسانی سے ہڑپ کرسکے ۔ اس وقف ترمیمی بل میں بہت سی ایسی دفعات ہیں جو دستور ہند کے منافی ہیں۔ مثلاً بورڈ میں دو غیر مسلموں کو شامل کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ پارلیمنٹ میں یہ نکتہ بہتوں نے اٹھایا ہے کہ کیا مندر، چرچ، گرودوارہ کی کمیٹیوں میں مسلمانوں کو شامل کیا جاتا ہے؟ جبکہ ان کمیٹیوں میں مذہب کی بنیاد پر ممبر بنتے ہیں تو آخر وقف بورڈ میں کیسے کسی غیر مسلم کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ دوسری بات جو کہی جاتی ہے کہ وقف بورڈ میں بہت سی بدعنوانیاں ہیں ان کو ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ بدعنوانیوں کو ختم کرنے کے لئے یا بدعنوان شخص کو سزا دینے کے لئے ہندستان میں قانون و آئین موجود ہے، پھر نئے قانون کی کیا ضرورت ہے؟ وقف بورڈ کے اختیار ات کو سلب کرکے کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹر کو اختیار دینے کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ بہت آسانی سے انکوائری کے موقع پر فیصلہ دے دے کہ یہ وقف کی جائیداد یا وقف کی زمین نہیں ہے۔ چار سو پانچ سو سال پہلے جو مسجدیں تعمیر کی گئی ہیں جیسے جامع مسجد دہلی ہے اس کے دستاویز کا دستیاب ہونا غیر ممکن ہے اور انکوائری کے وقت جب دستاویز کسی زمین یا جائیداد کا نہیں ہوگا تو محض اس کے استعمال کو کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹر وقف کی زمین یا وقف کی جائیداد ماننے سے انکار کر دے گا۔ جو لوگ وقف بورڈ کی حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وقف بورڈ میں ایک دو نمائندے کے علاوہ سارے نمائندے حکومت کے نامزد کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک متولی بورڈ میں ہوتا ہے جو متولیوں کے انتخاب سے ان کا نمائندہ ہوتا ہے۔ بورڈ کا چیئرمین اسی کو بنایا جاتا ہے جس کو حکومت پسند کرتی ہے اور جو حکومت کا آدمی ہوتا ہے۔ سی اوآئی ایس ہوتا ہے ۔ یہ بھی حکومت کا آدمی ہوتا ہے۔ جب حکومت بورڈ کو بنانے یا ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے تو پھر اسے کلکٹر کے ہاتھ میں دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بورڈ کی تشکیل ریاستی حکومتیں کرتی ہیں اور بہت سی ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے اس لئے بی جے پی چاہتی ہے کہ جن ریاستوں میں اس کی حکومت نہیں ہے وہاں وہ کلکٹر یا ڈپٹی کلکٹر کے ذریعے اپنے من پسند کام کو انجام دے۔ مسلمانوں نے این آر سی اور سی اے اے جیسے قوانین کے خلاف جو تحریک چلائی تھی اس میں غیر مسلم بہت کم شامل ہوئے تھے اس لئے وہ تحریک مسلمانوں کی تحریک بن کر رہ گئی تھی، لیکن اس وقت مرکز میں جو حکومت ہے وہ بیساکھیوں کے ذریعے قائم ہے اس لئے جس طرح سی اے اے اور این آر سی کے قوانین آناً فاناً بنالئے گئے تھے اب اس طرح بنانا مشکل ہے۔
مسلم تنظیمیں یا جماعتیں چھوٹے بڑے جلسے وقف ترمیمی بل کے خلاف کر رہی ہیں اور کرنا بھی چاہئے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ تیلگو دیشم پارٹی کے سربراہ چندر بابو نائیڈو اور جے ڈی یو کے مکھیا نتیش کمار سے مسلمان مضبوط اور گہرا ربط رکھیں۔ ان کو وقف بورڈ کی اہمیت بتائیں اور ساتھ ساتھ وقف ترمیمی بل کس قدر خطرناک اور خلاف دستور ہے یہ بھی بتانے کی کوشش کریں۔ یہ جلسوں اور سمیناروں سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ جہاں تک جلسوں، سمیناروں اور مذاکرات کا معاملہ ہے ان کے اثرات نریندر مودی یا ان کی پارٹی پر ذرا بھی اثر نہیں ڈال سکتے۔ مسلمان لیڈران یقینا چندر بابو نائیڈو اور نتیش کمار سے رابطہ قائم کئے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کرتا دھرتا اس معاملے میں کافی سرگرم عمل ہیں، لیکن ایک بات ایسی ہے جس پر بھی غفلت برتنا صحیح نہیں ہوگا وہ یہ ہے کہ مودی یا امیت شاہ بیٹھے ہوئے نہیں ہیں۔ وہ چندر بابو نائیڈو، نتیش کمار یا چراغ پاسوان کو رام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گے۔ جوائن پارلیمانی کمیٹی اس وقت تحقیقی اور تفتیشی کمیٹی بن چکی ہے۔ اس کے ممبران مختلف ریاستوں کا دورہ کرنے والے ہیں۔ متعلق افراد سے رائے طلب کریں گے ۔ اس معاملے میں بھی مسلمانوں کو مستعدی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
ہندو بھائیوں کو مسلمانوں سے خوف زدہ کرنے کی مہم بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرف سے چلائی جارہی ہے۔ اس پروپیگنڈے کی توڑ مسلمانوں کو اچھی طرح کرنی چاہئے۔ اس کے خلاف تحریک چلانا، جلسے، مذاکرات، سمینارمنعقد کرنا ضروری ہے۔ برادران وطن کو بتانا ہے کہ ہر چھوٹے بڑے عہدے پر ہندو بھائی فائز ہیں۔ خواہ صدر کا عہدہ ہو یا وزیر اعظم کا، ملک کے کمانڈر چیف ہندو، پولس کے محکموں میں بڑے بڑے عہدے پر ہندو، تمام سرکاری محکموں میں ہندو ، پولس میں اکثریت ہی نہیں بلکہ 98 فیصد ہندو ، جب سب عہدوں پر ہندو فائز ہیں تو مسلمانوں سے ڈر کا کیا معاملہ ہے۔ اس غلط پروپیگنڈے کا پردہ چاک کرنا چاہئے۔ بہت سے ہندو بھائی یہ کام کر رہے ہیں ان کی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قومی نیوز چینل غلط پروپیگنڈے پھیلا رہے ہیں، اس کی کاٹ سوشل میڈیا کے ذریعے کی جاسکتی ہے اور حقیقت سے آگاہی دی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا کام اس وقت ہندو مسلمانوں کے تعلقات کو خوشگوار بنانے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہی بڑے پیمانے پر ہندو بھائیوں کی ذہنیت تبدیل ہوسکتی ہے۔