تعلیم کے میدان میں حکومتی اداروں کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر کا دبدبہ : ڈاکٹر جاوید عالم خان

0

ڈاکٹر جاوید عالم خان

نئی تعلیمی پالیسی2020 کی سفارشات کے مطابق مرکزی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کو فروغ دینے کیلئے ہرممکن کوشش کریں گی اور معیاری تعلیم کو تمام طلبا وطالبات تک یقینی بنایا جائے گا۔ حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی کا اہم مقصد یہ بھی ہے کہ وہ مفت اور لازمی تعلیمی ایکٹ2009 اور سمگر شکشا ابھیان کے ذریعے معیاری تعلیم کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم پر والدین کے ذریعے جو اخراجات ان کی جیب سے ہورہے ہیں، ان کو بھی کم کیا جائے گا لیکن حالیہ دنوں میں وزارت برائے اسٹیٹسٹکس اور پروگراموں کے نفاذ کے ذریعے ایک سروے کیا گیا ہے جس میں یہ پایا گیا ہے کہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں سینئر سیکنڈری کی سطح پر تقریباً آدھے طالب علم اپنی تعلیمی صلاحیت کو بہتر کرنے کیلئے پرائیویٹ کوچنگ کا سہارا لے رہے ہیں، اس سروے کا نامComprehensive Modular Survey of Education ہے۔

26 اگست کو جاری کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر کے شہری علاقوں میں رہائش پذیر 44.6فیصد طالب علم جو سیکنڈری سطح پر تعلیم حاصل کررہے ہیں، ان کا انحصار پرائیویٹ کوچنگ سینٹر پر ہے، وہیں دیہی علاقوں کے 31.1فیصد بچے اپنی سیکنڈری تعلیم کو مکمل کرنے کیلئے پرائیویٹ کوچنگ سینٹر کی طرف رخ کررہے ہیں، ملک میں مجموعی طور پر(دیہی اور شہری علاقے)37فیصد طلبا وطالبات سیکنڈری سطح کی تعلیم کیلئے پرائیویٹ کوچنگ سینٹر میں داخل ہیں۔

جہاں تک تعلیم پر والدین کے ذریعے کیے گئے اخراجات کا تعلق ہے تو تجزیہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ شہری علاقوں میں اوسطاً فی طالب علم سالانہ خرچ9950روپے ہے جو کہ دیہی علاقوں کے مقابلے دوگنا زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں اوسطاً سالانہ فی طالب علم خرچ4548روپے ہے، وہیں ملک کی سطح پر اوسطاً مجموعی سالانہ فی کس اخراجات 6384روپے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں حکومت کے ذریعے نافذ کی جارہی اسکیمیں بہتر طریقے سے کام نہیں کررہی ہیں اور اس کے علاوہ تعلیم کے شعبے پر سرکاری سرمایہ کاری موجودہ ضروریات کو دیکھتے ہوئے ناکافی ہے۔ اس وجہ سے والدین اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کرنے کیلئے مجبور ہیں، اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں یہ بھی پایا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ کو یقینی بنانے کیلئے والدین آن لائن یا آف لائن کوچنگ سینٹر کی طرف زیادہ متوجہ ہوئے ہیں۔ نئی تعلیمی پالیسی آنے کے بعد حکومت نے سی یو ای ٹی (Common University Entrance Test) کا آغاز کیا جس کی وجہ سے والدین کے سامنے یہ مجبوری بن گئی کہ وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ کوچنگ سینٹر میں داخلہ دلوائیں، مزید حکومت کے سی یو ای ٹی کی شروعات کی وجہ سے پرائیویٹ کوچنگ سینٹر کا فروغ بھی ہواہے جس سے تعلیم کے شعبے میں پرائیویٹ اداروں کا دبدبہ بڑھتا جارہا ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہورہاہے کہ مرکزی یا صوبائی حکومتیں ان پرائیویٹ کوچنگ سینٹرس کی حمایت بھی کررہی ہیں، اس کی اہم وجہ ان تعلیمی اداروں سے حکومت کے ذریعے ٹیکس بھی اکٹھا کرنا تھا۔2024میں مرکزی وزارت برائے تعلیم سے راج سبھا کے ارکان کے ذریعے سوالات پوچھے گئے تھے، ان سوالات کے جوابات میں جو اعدادوشمار مہیا کرائے گئے، اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ 2019-20 میں مرکزی حکومت نے پرائیویٹ کوچنگ سینٹر سے جی ایس ٹی کی شکل میں2240کروڑ روپے حاصل کیے تھے جو کہ 2023-24 میں دوگنے سے زیادہ ہوگئے ہیں اور حکومت نے5517کروڑ روپے ان پرائیویٹ کوچنگ سینٹر سے جی ایس ٹی کی شکل میں وصول کیے ہیں۔

سرکاری سروے کے ذریعہ پتا چلتا ہے کہ گھریلو اخراجات کا ایک بڑا حصہ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ وزارت برائے اسٹیٹسٹکس اور پروگراموں کے نفاذ کے ذریعے صارفین کے اخراجات سے متعلق ایک سروے کیا گیا ہے، اس سروے کے ذریعے یہ پتا چلتا ہے کہ ملک کے دیہی علاقوں میں اشیاء اور خدمات پر فی کس سالانہ اخراجات 49464روپے تھے جبکہ شہری علاقوں میں اشیاء اور خدمات پر83952روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ وہ گھر یا خاندان جن کے بچے سینئر سیکنڈری درجات میں تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ اپنے مجموعی سالانہ اخراجات کا 10 سے 12 فیصد پرائیویٹ کوچنگ کلاسز کیلئے خرچ کرتے ہیں، اسی طرح سے 2023-25کے سروے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ دیہی علاقوں میں لوگ تعلیم پر اپنی ماہانہ فی کس اشیاء اور خدمات پر اخراجات کا تقریباً3.2 تعلیم پر خرچ کرتے ہیں، وہیں پر شہری علاقوں میں تعلیم پر 5.9 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ اگر قومی سطح پر بات کی جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ27فیصد بچے پرائیویٹ کوچنگ کا سہارا لے رہے ہیں اور30فیصد اور25فیصد بچے بالترتیب شہری اور دیہی علاقوں میں پرائیویٹ کوچنگ سینٹر پر منحصر ہیں اور اخراجات سے متعلق تجزیہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ شہری علاقوں میں ایک بچے پر سالانہ3988روپے اور دیہی علاقوں میں1793روپے خرچ کیے جاتے ہیں، وہیں قومی سطح پر سالانہ2409روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح سے مرکزی وزارت برائے اسٹیٹسٹکس اور پروگراموں کے نفاذ کے ذریعہ منعقد کیے گئے قومی سیمپل سروے اپریل-جون2025 سے پتا چلتا ہے کہ 52085گھروں میںسے تقریباً 57742 بچے اسکول میں داخلہ لیے ہوئے ہیں مگر کتنے بچے پرائیویٹ کوچنگ سینٹرمیں داخل ہیں، اس کے اعدادوشمار سروے میں جمع نہیں کیے گئے ہیں۔ جبکہ 2019سیمپل سروے کے مطابق طلبا کی ایک بڑی تعداد پرائیویٹ کوچنگ سینٹر پر منحصر تھی جو کہ قومی سطح پر تقریباً19 فیصد تھی۔

یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ کورس فیس کیلئے قومی سطح پر اوسطاً سالانہ فی کس اخراجات7111روپے خرچ کیے جاتے ہیں، وہیں یہ اخراجات شہری علاقوں میں 15143 روپے ہیں اور دیہی علاقوں میں3979روپے ہیں جہاں تک آمدورفت پر اخراجات کا تعلق ہے تو قومی سطح پر اوسطاً 1842روپے خرچ کیے جاتے ہیں، وہیں شہری علاقوں میں یہ خرچ3082روپے ہے اور دیہی علاقوں میں 1359 روپے ہے۔ یونیفارم پر قومی سطح پر اوسطاً سالانہ فی طالب علم خرچ1070روپے ہے جبکہ شہری علاقوں میں 1540 روپے اور دیہی علاقوں میں887روپے ہے۔ مزید کتاب کاپی اور اسٹیشنری سے متعلق اخراجات قومی سطح پر 2002 روپے ہیں، وہیں شہری علاقوں میں2867روپے اور دیہی علاقوں میں1664روپے ہیں۔ ان اخراجات کے علاوہ طلبا تعلیم سے متعلق دیگر چیزوں پر بھی خرچ کرتے ہیں، یہ قومی سطح پر590شہری علاقوں میں838اور دیہی علاقوں میں493روپے ہے۔

مندرجہ بالا تجزیہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی نافذ کی جارہی اسکیم سمگر شکشا اسکولوں میں تعلیم سے متعلق سہولیات طلبا وطالبات کو دستیاب کرنے میں ناکام ہے۔ اس کے علاوہ مفت اور لازمی تعلیمی ایکٹ 2009 کو بہتر طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی2020 نے یہ وعدہ کیا تھا کہ ملک میں مرکزی اور صوبائی حکومتیں مجموعی طور پر جی ڈی پی کی شرح میں تعلیم پر6 فیصد بجٹ خرچ کریں گی جبکہ موجودہ اعدادوشمار سے یہ پتا چلتا ہے کہ تعلیم پر اخراجات جی ڈی پی کی شرح میں3فیصد ہی ہے، تعلیم پر جو بجٹ مختص کیا جارہا ہے وہ پوری طرح سے خرچ نہیں کیا جارہا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں تعلیم کے شعبے میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے پیچھے ہٹ رہی ہیں اور تعلیم کو پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں سونپنا چاہ رہی ہیں جس سے تعلیم کے میدان میں غیر برابری بڑھے گی کیونکہ غریب اور پسماندہ طبقات پرائیویٹ اداروں میں مہنگی فیس کی وجہ سے داخلہ لینے سے قاصر ہیں لہٰذا ملی اور سماجی تنظیموں کو حکومت کے ساتھ ایڈووکیسی کرنا چاہیے کہ حکومت مفت اور لازمی تعلیمی ایکٹ2009کے نفاذ کو بہتر بنائے اور سمگر شکشا ابھیان کو زمینی سطح پر پوری طرح سے لاگو کیا جائے۔ مزید تعلیم کے شعبے میں جی ڈی پی کی شرح میں6فیصد بجٹ مختص کیا جائے اور اس کو مکمل طور سے خرچ بھی کیا جائے۔

(مضمون نگار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈوکیسی کے ڈائریکٹر ہیں )
jawedalamk@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS