وزیراعظم کا خطاب: نپے تلے الفاظ کے باوجود باقی کچھ سوالات

0

اروند کمار سنگھ

آپریشن سندور کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہندوستان کی حکمت عملی وہی ہے۔ بہت سے حقائق سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے اہل وطن کو یقین دلانے کی کوشش کی۔ ہندوستانی مسلح افواج، انٹلیجنس ایجنسیوں اور سائنسدانوں کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے ملک کی طاقت اور تحمل کا ذکر کیا۔ ہر ہندوستانی کی طرف سے انہیں سیلوٹ کیا۔ ساتھ ہی اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ بھارت کسی قسم کی ایٹمی بلیک میلنگ برداشت نہیں کرے گا۔

قابل ذکر بات ہے کہ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کو خطاب کرنے کے لیے انہوں نے بدھ پورنیما کے دن کا انتخاب کیا اور نپے تلے الفاظ میں بھگوان بدھ کے امن کے راستے کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہنا نہیں بھولے کہ مستقل امن کے لیے ہندوستان کا طاقتور ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ دور جنگ کا نہیں ہے، مگر دہشت گردی کا بھی نہیں ہے۔ دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس ہے۔

پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ بات چیت ہوگی تو دہشت گردی اور پی او کے پر ہی ہوگی۔ پاکستانی فوج دہشت گردی کو کھاد-پانی دے رہی ہے جو ایک دن پاکستان کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ آپریشن سندور کے دوران دنیا نے دہشت گردوں کو الوداع کرتے ہوئے پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران کو دیکھا۔ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کو دیکھا۔ وزیراعظم نے میڈ ان انڈیا ہتھیاروں پر مہر ثبت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہر اس جگہ جاکر سخت کارروائی کریں گے جہاں سے دہشت گردی کی جڑیں نکلتی ہیں۔ سیکورٹی فورسز مسلسل الرٹ پر ہیں۔ آپریشن سندور دہشت گردی کے خلاف اب قومی پالیسی ہے جس میں نیا پیمانہ طے ہے۔ پاکستانی دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو کھنڈر بنانے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپیل کی ہے کہ مزید کوئی دہشت گردانہ سرگرمی اور فوجی مہم جوئی نہیں ہوگی۔ مجبوری میں10مئی کی دوپہر کو پاکستانی فوج نے ہمارے ڈی جی ایم او سے رابطہ کیا، تب تک ہم دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر تباہ کر چکے تھے۔

اپنے خطاب میں وزیراعظم نے زیادہ تر وہی باتیں کہیں جن کی ڈی جی ایم او پہلے ہی تفصیل سے وضاحت کرچکے ہیں۔ لیکن اصل سوال اس معاملے میں امریکہ کی ثالث بننے کی کوشش سے جڑا ہے۔ جنگ بندی سے قبل امریکی صدر نے جو اعلان کیا، یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اسی طرح وزیراعظم کے قوم سے خطاب سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی امریکہ نے کرائی۔ کاروبار اور دیگر بہت سے مسائل سامنے آئے۔ اس کے بعد سے یہ سوال پیدا ہوا کہ امریکی دباؤ ہم نے مانا کیوں؟ اس موقع پر اپوزیشن جماعتیں حکومت کے ساتھ کھڑی رہیں۔

ہماری بہادر فوج نے دہشت گردوں کے کئی ٹھکانوں کو اس طرح تباہ کیا کہ پاکستان کے وجود پر خطرہ منڈلانے لگا۔ لیکن ہماری سفارت کاری اتنی کامیاب نہ ہو سکی جس کی توقع تھی۔ تیسرے فریق نے مداخلت کی تو اس کی ثالثی قبول کرنے سے پہلے پارلیمانی فورم پر بات چیت ہوتی یا آل پارٹیز میٹنگ ہوتی تو سوال کم پیدا ہوتے۔

لیکن باتیں اتنی ہی نہیں ہیں،جنگ کے دوران پاکستان کا آئی ایم ایف سے خطیر رقم حاصل کرنا بھی سفارتی ناکامی ہی ہے۔ ایسے وقت میں جب تمام پارٹیاں، تمام نظریات، 140کروڑ لوگ حکومت ہند کے ساتھ کھڑے تھے تو پردے کے پیچھے بہت کچھ ہو رہا تھا۔ بہتر ہوتا کہ پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر فوجیوں کے حوصلے بلند کرنے کے ساتھ پاکستان کے خلاف قرارداد منظور کی جاتی۔ ایسا پہلے بھی ہوچکا ہے۔ اس سے پورے ملک میں ایک اچھا پیغام جاتا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست نہیں ہوتی اور تمام جماعتیں ایک آواز میں جو بھی کہتیں،عالمی برادری اسے سنتی۔

22اپریل2025کو پہلگام واقعہ کے بعد پورے ملک میں پھیلنے والا عوامی غصہ کسی حد تک کم تو ہوا، لیکن انہیں ابھی بھی اطمینان نہیں ہے کیونکہ اس کی متوقع جوابی کارروائی نہیں ہو سکی۔
حکومت نے بہت غور و فکر کے بعد ابتدائی اقدامات اٹھائے اور کئی دیگر اجلاسوں کے ساتھ دو آل پارٹی میٹنگ بھی بلائیں۔ اس میں وزیراعظم نے شرکت نہیں کی۔ جب ملک میں سول سیکورٹی کے لیے ماک ڈرل کیا گیا تو لوگوں کو محسوس ہوا کہ پاکستان کو اب کرارا سبق ملے گا۔ یہی نہیں پاکستان کے16چینلز اور کئی یوٹیوبرز کو بھی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ دریائے سندھ کا پانی روکنے کا فیصلہ کیا گیا جو 1965اور1971میں بھی نہیں کیا گیا تھا۔
لیکن اس پورے واقعہ کے اختتام کے بعد یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہمارے پالیسی سازوں کو امریکہ کے ساتھ سخت الفاظ میں بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ہندوستان کو کئی کھٹے-میٹھے تجربات ہوئے ہیں۔ امریکہ ماضی میں پاکستان کا سب سے بڑا مددگار رہا ہے۔ ہندوستان نے جب بھی فوجی تیاری میں کچھ ٹھوس کرنے کی کوشش کی تو امریکہ نے مخالفت کی۔ اندرا گاندھی نے جب 1974 میں پہلا ایٹمی تجربہ کرایا تو مخالفت کی۔1971کی جنگ کی مخالفت کی۔ اب وہ ہندوستان کو اپنی کالونی بنانے کا سوچ رہے ہیں، ایسی باتیں ہورہی ہیں۔

اس بار ہندوستانی فوج نے پاکستانی دہشت گردی کے نظام کو سٹیک ایئراسرٹائک کے ساتھ ایسا ہلا کر رکھ دیا تھا کہ پاکستان کو اپنی پارلیمنٹ کا استعمال ہندوستان کو غلط ثابت کرنے کے لیے کرنا پڑا۔ تاہم اس پلیٹ فارم سے ہندوستان کے خلاف غلط معلومات پھیلائی گئیں۔ پھریہ باتیں ہوئیں کہ ہندوستان کو پی او کے کو اپنے قبضہ میں لینے کے ساتھ بلوچستان کو آزاد کراکر آگے بات چیت پر رضامندہونا تھا۔ ایسی تاریخ رقم کرنے کا موقع آگیا تھا کیوں کہ حالات سازگار تھے۔ لیکن جنگ بندی سے پہلے آرمی چیف بھی حیران نظر آئے۔ کارگل جنگ کے دوران آرمی چیف رہے جنرل وی پی ملک نے کہا کہ ہمیں فائدہ ہوا یا نہیں، یہ سوال ہم نے مستقبل کی تاریخ پر چھوڑ دیاہے۔

ملک کی تاریخ کے اب تک کے سب سے مشکل چینی حملے کے دوران پارلیمنٹ میں 8دنوں تک جاری بحث میں 162ارکان پارلیمنٹ نے حصہ لیا اور متفقہ طور پر پنڈت نہرو کی طرف سے پیش کردہ جس قرارداد کو منظور کیا گیا،وہ ہندوستان کی تاریخ کی ایک اہم دستاویز ہے۔ یہ موقع اس بار بھی تھا لیکن واقعات بہت تیزی سے رونما ہوئے۔ راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف ملکارجن کھرگے اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی کے ذریعہ خصوصی اجلاس کے مطالبہ پر حکومت نے ابھی تک کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔

سب سے زیادہ سوالات اس بات پر ہیں کہ ہندوستان سے پہلے واشنگٹن نے اس بات کا اعلان کیسے کردیا، جسے پاکستانی اخبارات نے اپنی فتح کی شکل دے دی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ1971میں ہندوستان عالمی سطح پر الگ تھلگ تھا پھر بھی اس نے جو چاہا کیا۔ 1999 میں کارگل کے واقعے میں اٹل جی نے پوری اپوزیشن کو ساتھ لے کر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا تھا۔ یہی نہیں،اندراگاندھی نے جب آپریشن میگھ دوت چلا کر سیاچن کی سرزمین پر قبضہ کیا تو چین اور پاکستان صرف شور مچاتے رہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS