وزیراعظم مودی کا نیپال دورہ

0

پڑوسی کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کا یہ کہنا بجا تھا کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں، پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے۔ اسی لیے وزیراعظم نریندر مودی کی پہلی مدت کار کی حلف برداری کی تقریب میں پڑوسی ملکوں کے سربراہوں کو مدعو کر کے یہ اشارہ دیا گیا تھا کہ نئی حکومت میں بھی ’پڑوسی پہلے‘ کی ہندوستان کی پالیسی برقرار رہے گی اور 2014 سے 2022 تک کے مودی حکومت کے دور کو دیکھنے کے بعد یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ ہندوستان آج بھی ’پڑوسی پہلے‘کی پالیسی پر قائم ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ گزشتہ 8 سال میں وزیرا عظم نریندر مودی کا نیپال کا یہ پانچواں دورہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے نیپال کے ساتھ تعلقات بے مثال ہیں۔ بھارت اور نیپال کے مابین ثقافتی اور دونوں ملکوں کے لوگوں کے باہمی تعلقات ہمارے قریبی رشتوں کے مستقل ڈھانچے پر ٹکے ہوئے ہیں۔‘ پاکستان اور چین کو اگر چھوڑ دیا جائے تو کسی بھی پڑوسی ملک سے وطن عزیز ہندوستان کے تعلقات خراب نہیں ہیں۔ اس نے باہمی مفاد کا خیال کرتے ہوئے آگے بڑھنے پر توجہ دی ہے، کسی پڑوسی کو ’قرض-جال‘ میں الجھانے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ پڑوسی ملکوں کے برے وقت میں وہ ہمیشہ امید افزا ثابت ہوا ہے۔ اس کی حالیہ مثال سری لنکا ہے۔ بنگلہ دیش ہو یا بھوٹان، میانمار ہو یا نیپال، چین سے قریب ہونے کے باجود ان کے لیے ہندوستان کو نظرانداز کرنا ایک سچے دوست کو نظرانداز کرنے جیسا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیپال میں کے پی شرما اولی جیسے لیڈران آئے اور ان کی مدت کار میں یہ خدشہ ضرور پیدا ہوا کہ ہند-نیپال کا وہ رشتہ نہیں رہے گا جو اب تک رہا ہے مگر شیر بہادر دیئوبا کے نیپال کا وزیراعظم بنتے ہی یہ خدشہ دور ہو گیا اور یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی کہ نیپال کے سبھی لیڈران کے پی شرما اولی جیسے نہیں ہیں۔ گھریلو سیاست میں مستقل طور پر کامیاب رہنے کے لیے کسی بھی نیپالی لیڈر کے لیے ہندوستان سے ’روٹی اور بیٹی‘ کے رشتے کو نظر انداز کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔ ہندوستان اور نیپال کے لوگ مذہب، ثقافت اور زبان کی ڈور میں اس طرح بندھے ہوئے ہیں کہ ان کے لیے ایک دوسرے سے ناطہ توڑنا آسان نہیں۔ ہندوستان کے لوگ نیپال کی آب و ہوا میں اپنائیت محسوس کرتے ہیں تو نیپال کے لوگوں کے لیے بھی ہندوستان دوسرے آبائی وطن کی طرح ہے۔ اسی لیے نیپال کو دائرۂ اثر میں لینے کی کوششوں میں چین کو پوری کامیابی نہیں مل پائی ہے اور ایسا لگتا بھی نہیں کہ آئندہ وہ کامیاب ہو پائے گا، کیونکہ سری لنکا ایک عبرت بن چکا ہے اور اس کے حالات کو نظرانداز کرنا ہندوستان کے کسی بھی پڑوسی ملک کے لیے مشکل ہوگا۔ بحران میں مبتلا ہونے پر سری لنکا کی مدد چین نے اس طرح نہیں کی ہے جیسے ہندوستان نے کی ہے جبکہ اس کے اچھے دنوں میں چین کی یہی کوشش رہی ہے کہ وہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ اسی لیے سری لنکا سے اشیا منگوانے والے ٹاپ 5 ملکوں میں تو وہ شامل نہیں تھا، البتہ سری لنکا کو اشیا سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک وہی تھا۔ اس کا کچھ ایسا ہی رشتہ نیپال سے بھی ہے۔ نیپال جن تین ملکوں کو سب سے زیادہ اشیا ایکسپورٹ کرتا ہے، ان میں چین شامل نہیں، البتہ ہندوستان سرفہرست ہے۔ 2021 میں نیپال نے 53.1 فیصد اشیا ہندوستان کو ایکسپورٹ کی تھیں جبکہ وہ جن دو ملکوں سے سب سے زیادہ اشیا امپورٹ کرتا ہے، ان میں ہندوستان پہلے اور چین دوسرے نمبر پر ہے۔ 2021 میں نیپال نے 68.03 فیصد اشیا ہندوستان اور 31.97 فیصد اشیا چین سے امپورٹ کی تھیں۔
نیپال کے موجودہ وزیراعظم شیر بہادر دیئوبا ہندوستان اور نیپال کے فرق کو جانتے ہیں، دنیا کے حالات سے بھی وہ بے خبر نہیں ہیں۔ اسی لیے ہندوستان سے بہتر رشتہ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ نیپال دوسرا سری لنکا نہ بنے۔ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ حالیہ دنوں میں نیپال کا زرمبادلہ کم ہوا ہے اور یہ کتنا زیادہ کم ہوا ہے، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ جولائی 2021 میں اس کے پاس 11.75 ارب ڈالر زرمبادلہ تھا جو فروری 2022 تک 17 فیصد کمی کے ساتھ 9.75 ارب ڈالر ہو گیا تو اپریل میں نیپالی حکومت کو پرتعیش اشیا کے امپورٹ پر پابندی عائد کرنی پڑی تھی تاکہ زرمبادلہ کو کم ہونے سے بچا سکے، اس لیے ایسے وقت میں ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ نیپال کی بڑی اہمیت ہے۔ ہندوستانی وزیراعظم کا یہ عزم دونوں ملکوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے کہ وقت کی کسوٹی پر کھرے اترے دونوں ملکوں کے تعلقات کو اور گہرا کرنا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS