ڈاکٹر محمد قاسم انصاری
ہندی اردو زبان و ادب کی تاریخ میں معدودے چند ایسی عظیم اور بلند پایہ شخصیات ہیں جن کی روح دونوں زبانوں میں بستی ہے۔ ان میں سب سے نمایاں نام منشی پریم چند کا ہے جن کی سرشت میں تو اردو شامل تھی لیکن ان کی محبت اور مہارت ہندی زبان و ادب میں کم نہ تھی۔ ہندی اردو آمیزش کا ایسا حسین امتزاج کسی اور ادیب کے یہاں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ پریم چند کو اپنے معاصرین میں اس معنیٰ میں بھی فوقیت حاصل ہے کہ انھوں نے اردو فکشن کو حقیقی دنیا سے روشناس کرایا، ان کے سماجی، ادبی و اصلاحی افکار و نظریات، فنی پختگی اور جدت طبع نے دونوں ادبیات میںایک نئی تاریخ رقم کی۔ وہ ملک کے تہذیبی ورثہ اور اس کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ قلم کے اس سپاہی کو دونوں کی عظمتوں کا احساس تھا۔ بڑی دیانت داری سے قوم و ملک کی تعمیر نو اور اس کی سوئی ہوئی تقدیر کو سنوارنے میں اپنا خونِ جگر ایک کیا۔ انھیں جملہ اوصاف نے پریم چند کو ہندی اردو ادبیات کو ہیرو بنایا۔ پریم چند کے عہد میں اردو کے خلاف مہم چھیڑی جاچکی تھی، وہ چاہتے تو اردو سے کنارہ کشی اختیار کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ہرگز ایسا نہیں کیا بلکہ مشترکہ اقدار کی پاسداری اور قومی اتحاد و یکجہتی کی ایسی نایاب مثال قائم کی جس کی ضیاسے پورا ہندوستانی ادب منور ہے۔ ہندی اردو رشتوں پر ان کا موقف بالکل اٹل اور واضح تھا۔ لسانی شاخسانہ کو وہ انگریزی کی منظم سازش قرار دیتے تھے۔ ایک جگہ دونوں کے باہمی رشتوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’میرے خیال میں ہندی اور اردودونوں ایک زبان ہیں۔ کریا اور کرتا، فعل اور فاعل جب ایک ہیں تو ان کے ایک ہونے میں شبہ نہیں ہوسکتا۔‘‘ (پریم چند، ساہتیہ کا ادیشیہ، ص 176)
پریم چند نے فقط نظریاتی طور پر اپنا موقف پیش نہیں کیا بلکہ اپنے قلم سے اس کی عملی مثالیں اپنے تخلیق کردہ ادب عالیہ میں پیش کیں۔ وہ اس نکتہ سے بخوبی واقف تھے کہ محض زبانی جمع خرچ سے زبان و ادب کی تقدیر سنورنے والی نہیں بلکہ حسن کا معیار بدلنے میں ادب کے عملی نمونے تخلیق کرنے ہی ہوں گے اسی لیے ان کی تمام کہانیاں اس حقیقت کا برملا اظہار ہیں۔ یہ سچ ہے کہ پریم چند سے قبل لکھے گئے قصے کہانیاں تسکین قلب اور تفریح طبع کا سامان ہوا کرتی تھیں۔ ان میں ادب تو تھا لیکن حقیقت پسندی اور مقصدیت دونوں کا فقدان تھا۔ زمانہ تیزی سے بدل رہا تھا۔ ملک میں انگریزوں کی بالادستی تھی۔ پھر ملک کے اپنے سماجی مسائل کی کثرت تھی۔ ذات پات، اونچ نیچ، چھواچھوت، امیر غریب، ملک کی معیشت پر سرمایہ داروں، ساہوکاروں اور مہاجنوں کا تسلط، عدم مساوات، کسانوں، مزدوروں کا استحصال، عورت کی بے چارگی اور مذہبی منافرت غرض لاتعداد مسائل نے اس ملک کو اپنی گرفت میں جکڑ لیا تھا۔ ایسے میں ایک سماجی مصلح اور ادب کے معالج کی ضرورت تھی جو اس عہد کے قومی منظرنامے میں پریم چند کی شکل میں نمودار ہوا۔ اس نے اپنے عہد کے سلگتے مسائل پر اپنا قلم اٹھایااور ہواؤں کا رخ موڑ دیا۔ اس طرح پریم چند ہندوستانی زبان و ادب کے معمار کہلائے۔
پریم چند واحد ایسے کہانی کار ہیں جن کے بیشتر افسانے اور ناول دونوں رسمِ خط میں شائع ہوئے۔ خود اپنی حیات میں انھوں نے بہت سی کہانیوں کو دونوں رسم خط میں شائع کرایا۔ غالب کی طرح وہ بھی زبردست مالی مشکلات سے دوچار تھے۔ اردو کے مقابلے میں ہندی ناشرین نے انھیں نسبتاً زیادہ عطیہ پیش کیا اگرچہ پریم چند کی منشا یہی تھی کہ انھیں دونوں رسم خط یعنی ناگری اور اردو میں یکساں طور پر پڑھا اور سمجھا جائے۔ پریم چند کی وہ کہانیاں جو پہلی مرتبہ اردو میں شائع ہوئیں ان کی تعداد 100 سے زائد ہے۔ ڈاکٹر جعفر رضا نے اپنی تحقیق میں ایسی کہانیوں کی تعداد 118، متعین کی ہے جب کہ وہ کہانیاں جو پہلی مرتبہ ہندی اور پھر اردومیں شائع ہوئیں ان کی تعداد 97 ہے۔ اسی طرح صرف ہندی میں شائع ہونے والی کہانیوں کی تعداد 73 درج ہے۔ اعداد و شمارکی تھوڑی بہت کمی یا زیادتی پر تو اختلاف ممکن ہے لیکن مذکورہ اعداد و شمار سے یہ واضح ہے کہ قلم کا یہ سپاہی دونوں سے خود کو کبھی الگ نہیں کرسکا۔
یہ حقیقت ہے کہ پریم چند نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز اردو سے کیا اور اس کی سب سے پہلی مثال ان کا پہلا مجموعہ ’سوزوطن‘ ہے۔ ’سوز وطن‘ کی تمام کہانیاں اردومیں لکھی گئیں اور ان میں بیشتر رسالہ زمانہ (کانپور) میں شائع ہوئیں۔ بعد میں یہ کہانیاں ہندی میں شائع ہوئیں۔ اس مجموعے کی پہلی کہانی ’دنیا کا سب سے انمول رتن‘ ہے۔ دوسری ’شیخ مخمور‘، تیسری ’یہی میرا وطن‘ ہے، جب کہ چوتھی ’صلۂ ماتم‘ اور پانچویں ’عشق دنیا اور حب وطن‘ ہے۔ ان میں پہلی دو کہانیوں کے عنوان ہندی اردو دونوں میں مشترک ہیں۔ تیسری کہانی ہندی میں ’یہ میری ماتر بھومی‘ ہے، کے عنوان سے ہے۔ چوتھی کا عنوان ’شوک کا پرسکار‘ اور پانچویں ’سنسارک پریم اور دیش پریم‘ کے عنوان سے ہیں۔ جس طرح ’سوزوطن‘ کی سنہ اشاعت کے سلسلہ میں ماہرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح ’سو ز وطن‘ کے مختلف نسخوں میں کہانیوں کی فہرست اور اس کی ترتیب میں بھی یکسانیت نہیں۔ گرچہ سنہ اشاعت کا معاملہ تو کسی طرح حل ہوگیا اور بیشتر محققین نے جون 1908 کی تاریخ کو معتبر تسلیم کیا ہے لیکن کہانیوں کی ترتیب کا مسئلہ مختلف نسخوں کے حوالے سے خاصا پیچیدہ نظر آتا ہے۔ سوز وطن کے مختلف نسخوں میں پہلی اور آخری کہانی میں تویکسانیت ہے لیکن دوسری، تیسری اور چوتھی میں یکسانیت نہیں، اس تعلق سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان حکومت ہند نئی دہلی نے پریم چند کی کلیات مختلف جلدوں میں شائع کی ہے جس کی فہرست کے مطابق دوسری کہانی صلۂ ماتم، تیسری شیخ مخمور اور چوتھی ’یہی میرا وطن‘ ہے، پانچویں ’روٹھی رانی‘ اور آخری ’عشق دنیا اور حب وطن‘ ہے۔ کلیات کے مرتب مدن گوپال ہیں جنھوں نے ’روٹھی رانی‘ کو بھی پریم چند کی اولین کہانیوں میں شامل کیا ہے۔ سردست نسخہ پروفیسر علی احمد فاطمی کا ہے جنھوں نے سوزوطن کی تمام کہانیوں کو مع مقدمہ و حواشی نقل کیا ہے، اس نسخہ کا تمام تر حصہ پروفیسر قمر رئیس اور ڈاکٹر جعفر رضا کی تحقیقات پر مشتمل ہے۔ یہ نسخہ مذکورہ کلیات کی ترتیب سے خاصا مختلف ہے۔ پروفیسر علی احمد فاطمی کی فہرست کے مطابق ’شیخ مخمور‘ تیسرے نمبر کی کہانی نہیں بلکہ دوسرے نمبر کی ہے۔ ’یہی میرا وطن ہے‘ تیسرے نمبر پر ہے جب کہ صلۂ ماتم چوتھے اور آخری کہانی ’عشق دنیا اور حب وطن‘ ہے۔ روٹھی رانی اس نسخہ میں شامل نہیں اس لیے سوز وطن کی تمام کہانیوں کو ترتیب دینا ایک مشکل امر تھا، چونکہ پروفیسر فاطمی نے ترتیب دیتے وقت مذکورہ ماہرین کی تحقیق اور خود پریم چند کی تحریروں سے خاصا استفادہ کیا ہے لہٰذا پیش نظر کتاب میں اسی ترتیب و فہرست کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
’سوزوطن‘ کی تمام کہانیوں میں حب الوطنی کا عنصر غالب ہے۔ ان کہانیوں میں مادرِ وطن سے محبت اور اس کے لیے اپنا سب کچھ نثار کرنے کا درس دیا گیا ہے۔ اس کا خمیازہ پریم چند کو بھگتنا پڑا۔ ’سوزوطن‘ میں انگریزوں کو اشتعال انگیزی کی بو آئی۔ خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر انگریزوں نے انھیں طلب کیا۔ اس کی تمام کاپیوں کو ضبط نیز دوبارہ نہ لکھنے کا حکم صادر کیا گرچہ پریم چند نے اسے ’سستے میں چھوٹنے‘ سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن ان کا قلم رک نہ سکا۔ ’سوزوطن‘ کی تمام کہانیاں انھوں نے نواب رائے کے نام سے لکھیں۔ اس واقعہ کے بعد نواب رائے کا ظہور ادبی دنیا کے افق پر پریم چند کے نام سے ہوا اور اس طرح نواب رائے پریم چند کے نام سے مقبول ہوئے۔
پریم چند نے تقریباً تین سو افسانے لکھے اور تقریباً درجن بھر ناول لکھے ، ان میں پریم چند کے کئی معرکۃ الآرا ناول شامل ہیں۔ ان کے ابتدائی نالوں میں اسرار معابد ،ہم خرما وہم ثواب، جلوۂ ایثار اور بیوہ ہیں۔ اس کے علاوہ بازار حسن، گوشۂ عافیت، غبن، نرملا، چوگان ہستی، پردہ مجاز، میدان عمل ، گئودان اور منگل سوتر ہیں۔
پریم چند کے ساتھ بڑا مسئلہ یہ رہا کہ ان کی موت کے بعد محبان ہندی اردو میں کھینچ تان شروع ہوئی۔ ان کے تمام تر افسانوں اور ناولوں کو مشترکہ طور پر ایک ساتھ پیش کرنے کے بجائے مقابلہ آرائی ہوئی۔ ان پر دعوے داری کا رجحان تیزی سے بڑھتا گیا۔ باوجود اس کے کہ پریم چند ہندی اردو کہانیو ںکے حوالے سے سب سے زیادہ پڑھے اور سمجھے جاتے ہیں۔ مختلف جامعات اور تعلیمی اداروں کے ہندی اردو شعبوں کے نصاب میں وہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کئی انسٹی ٹیوٹ میں ان پر نت نئی تحقیق کے کام جاری ہیں۔
آج پریم چند کی سالگرہ ہے۔ انہیں ملک گیر سطح پر یاد کیا جارہا ہے۔ ان کا شمار ترقی پسند تحریک کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ان کے افکار و نظریات اور ادبی کارناموں کی اہمیت جتنی کل مسلم تھی اتنی آج ہے۔ عہد حاضر کا ہندوستان بہت سے سماجی مسائل سے دوچار ہے ایسے میں پریم چند بہت یاد آتے ہیں۔ جب جب اور جہاں کہیں ظلم و جبر، استحصال نیز دیگر سماجی برائیاں سر اٹھاتی رہیں گی پریم چند ہم سب کو بہت یاد آتے رہیں گے۔
مضمون نگار شعبۂ اردو، بی ایچ یو، وارانسی کے اسسٹنٹ پروفیسرہیں۔
پریم چند زبان وادب کے معمار
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS