اسرائیل- حماس جنگ بندی کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت: محمد حنیف خان

0

محمد حنیف خان

جنگ بڑی خوفناک، ہولناک اور بدصورت ہوتی ہے، لیکن اس سے بھی کہیں زیادہ بد صورت ناکامی ہوتی ہے۔ جنگ کی ان صورتوں سے فلسطینی گزشتہ چار ماہ سے بھی زائد عرصے سے دوچار ہیں۔دنیا اس جنگ سے بہت دور ہے، وہ صرف ان خبروں، تصویروں اور ویڈیوز کو دیکھتی ہے جو اخبار،ٹیلی ویژن اور سماجی روابط کی ویب سائٹ کے ذریعہ اس تک پہنچتی ہیں،یہ ضرور ہوتا ہے کہ ہم اسے اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن چونکہ ہم ان حالات سے باہر ہوتے جہاں کی یہ تصویریں اور ویڈیوز ہیں، اس لیے اس خوفناکی اور ہولناکی کو دنیا سمجھ ہی نہیں سکتی جیسی وہ ہے،اس کا بس ایک پرتو ہوتا ہے جس کے زیر اثر ہم جنگ کو بد صورت قرار دیتے ہیں۔
فلسطین اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ کی ہزاروں تصویریں اور ویڈیوز آچکی ہیں،جنہیں دیکھتے دیکھتے دنیا انہیں دیکھنے کی عادی ہوچکی ہے،اس میں وہ عرب بھی ہیں جو فلسطینیوں کے دینی اور علاقائی بھائی ہیں،وہ اہل مغرب بھی ہیں جن کا مذہب انسانیت اور نعرہ یکسانیت ہے اور دنیا کے وہ لوگ بھی ہیں جو محبت کو اس دنیا کا سب سے خوبصورت جذبہ مان کر انسان تو انسان، حیوان سے بھی محبت کا درس دیتے ہیں۔لیکن ان سب کے لیے یہ خبریں، تصویریں اور ویڈیوز اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں،اس لیے سب خاموش ہیں۔
چشم تصور میں لائیں کہ اسرائیلی بمباری کا شکار ایک شخص اپنے جگر کے ٹکڑے کے ٹکڑے اپنے ہاتھوں سے جمع کر رہا ہے، منہدم عمارت کے ملبے سے اپنے بچوں کے ہاتھوں،پیروں اور سر کو الگ الگ نکال رہا ہو،وہ منظر کیسا ہوگا، اس جگہ اگر ہم ہوتے تو ہمارے احساسات کیسے ہوتے؟ اس خوف کا احساس کریں کہ کسی بھی وقت پورا خاندان بموں کا شکار ہوسکتا ہے اور بالفرض اگر آپ بچ گئے تو کیا ہوگا؟ایک شخص بموں اور گولیوں سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ بھاگ رہا ہے،مسلسل وہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہو رہا ہے،اس کے باوجود اس کا کنبہ اسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ایک شخص حملوں کے شکار لوگوں کو طبی امداد پہنچانے میں پوری تندہی سے مصروف ہے اور جس گاڑی سے وہ زخمیوں کو اسپتال پہنچاتا ہے، اس کے وائر لیس پر آواز ابھرتی ہے کہ اس کا پورا کنبہ ایک حملے میں مارا جاچکا ہے،سوچو کیا بیتے گی اس انسان پر،مظلوموں اور مقہوروں کے لیے کام کرنے والے لوگ اپنے کنبوں کے بارے میں صرف سوچ کر ہی رونے لگتے ہیں کیونکہ ان کی نظریں بار بار اس منظر کو دیکھتی ہیں،اسی لیے اپنے کنبوں سے متعلق اسی کا خوف انہیں لاحق ہوجاتا ہے،سوچو ان کی زندگی کیسی گزر رہی ہوگی۔ مجموعی طور پر اس خطے میں زندگی کی صورت حال کو اس علاقے سے دور بیٹھی دنیا صرف سوچ سکتی ہے،اس کا اصل احساس بھی اسے چھو کر نہیں گزرے گا کیونکہ صرف محسوسات سے اس کی گہرائی تک نہیں پہنچا جا سکتا ہے۔
اسرائیل نے فلسطینی بستیوں کو اس قدر غیرمامون بنا دیا ہے کہ کہیں بھی جائے امان نہیں ہے،مصر کی سرحد پر واقع شہر ’’رفح ‘‘بچا تھا، اب اس پر بھی حملے شروع کردیے گئے ہیں۔غزہ پر حملوں سے قبل یہاں کی آبادی ڈھائی لاکھ نفوس پر مبنی تھی مگر اس وقت دس لاکھ سے زیادہ لوگ یہاں رہ رہے ہیں، انہیں ہر آن موت کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیومنیٹیرین چیف مارٹن گرفتھس کا کہنا ہے کہ غزہ میں فلسطینی پہلے سے ہی سخت حملوں کا سامنا کر ر ہے ہیں، رفح پر حملے تباہی والے ہوں گے اور اس سے یہاں قتل عام مچ سکتا ہے۔یہاں اشیائے خورد و نوش اور طبی امداد کی رسائی از حد کم ہے،کہیں بھی جانا غیرمحفوظ ہے،اسرائیلی حملوں سے کمزور امدادی عمل بالکل ٹھپ ہوچکا ہے،یہاں جو لوگ آئے ہیں وہ اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے ہی آئے تھے کیونکہ اسرائیل نے ہی انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اپنے مکانوں کو خالی کردیں اور اب یہاں بھی حملے شرو ع ہوگئے ہیں۔
اسرائیل نے رفح پر حملے یہ کہہ کرشروع کیے ہیں کہ یہ حماس کا آخری گڑھ ہے۔اسرائیل کا غیر مشروط معاون امریکہ ہے،ظاہری طور پر وہ نہیں چاہتا کہ اسرائیل رفح پر حملے کرے مگر وہ ایسا کر رہا ہے کیونکہ پہلے دن سے اس کو اس بات کی اجازت ملی ہوئی ہے کہ وہ جو چاہے کرے۔اس لیے وہ انسانوں کو اس طرح قتل کررہا ہے، جیسے وہ اسی لیے پیداکیے گئے ہیں۔
دراصل اسرائیل یہ سب اس لیے کر رہا ہے کیونکہ وہ ناکامی کی بدصورتی سے خود کو چور نہیں کرنا چاہتا ہے،وہ جانتاہے کہ وہ پہلے دن سے جھوٹ بول رہا ہے،اسے صرف پتہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ خود جان بوجھ کر شہریوں اور طبی عملے کو نشانہ بنا رہا ہے۔ بچوں اور عورتوں کو قتل کر رہا ہے،اس نے گزشتہ چار ماہ میں 28ہزار سے بھی زائد شہریوں کا قتل کیا ہے، اس کے باوجود ووہ کہہ رہا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہو رہا ہے بلکہ کچھ لوگ اس کی زد میں آجاتے ہیں،اس لیے مر جاتے ہیں،وہ ان ہی راستوں پر حملے کرتا ہے جنہیں بطور محفوظ راہداری فلسطینیوں کے لیے مختص کرتا ہے،رفح کے معاملے میں بھی اس کا یہی کہنا ہے کہ شہریوں کو وہاں سے نکال لیا جائے گا مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا ہے اور جو ہورہا ہے، وہ سب اسی لیے ہورہا ہے کیونکہ وہ خود کو دنیا کے سامنے ناکام و نامراد کے طور پر نہیں پیش کرنا چاہتاہے، یہ بات اور ہے کہ یہ سب دنیا کے سامنے آچکا ہے مگر ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں ہے۔
دوسری طرف حماس ہے،مسلسل جانوں کا اتلاف ہو رہا ہے،فلسطینی مارے جا رہے ہیں،بچوں کی لاشیں لیے لوگ چیخ رہے ہیں مگر وہ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیںہے کیونکہ ناکامی کا بد صورت چہرہ وہ بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔حماس اور اسرائیل کے درمیان فوجی سطح پر کوئی مقابلہ نہیں، اس کے باوجود دونوںایک دوسرے سے جیتنے کے لیے لڑ رہے ہیں، جس میں اگر کوئی شکست کھا رہا ہے تو وہ انسانیت ہے۔
عرب ریاستیں اور امریکہ اس بات کے لیے کوشاں ضرور ہیں کہ جنگ بندی ہو مگر وہ اب تک صرف کوشاں ہی ہیں، عملی سطح پر کوئی ٹھوس قدم اب تک نظر نہیں آیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر اسرائیل اور حماس دونوں اپنے اپنے عوام کی تکلیف اور ان کے دکھ کو مدنظر رکھ کر قدم اٹھائیں تو جنگ بندی ہوسکتی ہے مگر چونکہ دونوں اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے ہیں، اس لیے کوئی حل نکلتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جنگ میں جو ظاہری سطح پر لڑ رہے ہیں، وہ اصل کھلاڑی نہیں ہیں،اس کا اصل کھلاڑی امریکہ ہے اور یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اس حیثیت میں ضرور ہے کہ اگر امریکہ اور سعودی عرب چاہ لیں تو یہ جنگ فوری طور پر بند ہوسکتی ہے مگر اس کے لیے دونوں کو کچھ سخت فیصلے لینے ہوں گے۔
تھامس ایل فریڈمین کا نیو یارک ٹائمس میں13فروری کو شائع مضمونOnly Biden and M.B.S. Can Redirect the Israeli-Palestinian Conflict میں انہوں نے یہی لکھا ہے،مگر ان کی ا س بات سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے،جہاں امریکہ اگر چاہ لے تو جنگ ضرور بند ہوسکتی ہے۔تھامس ایل فریڈمین نے اسرائیل اور اس کے حواریوں کے لیے ضرور ایک چشم کشا بات کہی ہے :
If Israel destroys Hamas and then decides to permanently occupy Gaza and the West Bank, rejecting any form of Palestinian statehood, Israel will become a global pariah for the next generation, particularly in the Arab world. This will force Israel’s Arab allies to distance themselves from the Jewish state.
یعنی جن خطوط پر بنیامن نیتن یاہو چل رہے ہیں، وہ اسرائیل کو عرب دنیا میں اچھوت بنانے کی راہ ہے جبکہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ عرب ریاستیں اس کے وجود کو تسلیم کریں،ایسے میں امریکہ کو چاہیے کہ وہ دوریاستی حل کی طرف ٹھوس قدم بڑھائے اور ایک آزادفلسطینی ریاست( جو فلسطینیوں کی خواہش کے مطابق ہو)کو وجود میں لائے،جو اسرائیل کی طرح ہی حق خود ارادیت،خود کفالت رکھتی ہو ورنہ جس طرح اسرائیل نے پورے فلسطین کو ہضم کرلیا ہے کل پھر وہ اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگا دے گا، اس لیے ریاست ایسی ہو جو برابری کا درجہ رکھتی ہو تو پائیدار امن یقینی بن سکے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS