عالمی حالات کے بدلنے کا امکان

0

ٹرمپ کھل کر باتیں کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو نہیں کہتے، اس پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹیرف پر ان کے فیصلوں اور اہل غزہ کو مصر اور اردن میں بسانے کے ان کے ارادوں سے یہی لگتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے یہ بات کہی تھی کہ صدر بن جانے کے بعد وہ کئی ملکوں کے خلاف ٹیرف نافذ کریں گے اور ایسا ہی کیا ہے۔ میکسیکو اور کنیڈا کے خلاف ٹرمپ حکومت نے 25 فیصد جبکہ چین کے خلاف 10 فیصد ٹیرف لگایا ہے۔ ان ملکوں کے امریکہ کو جواب دینے کا امکان ہے۔ ممکن ہے، ٹرمپ کے فیصلے سے میکسیکو کی چین سے قربت بڑھ جائے۔اس کا اثر امریکہ پر اس طرح پڑے کہ وہاں قیمتوں میں اضـافہ ہو جائے اور اس کی ترقی کی رفتار کم ہو جائے مگر ٹرمپ کے لیے اہمیت ان کے اپنے فیصلوں کی ہے۔ وہ جانتے ہیں، امریکہ سپرپاور ہے۔

اہمیت امریکہ کے فیصلے کی ہی ہوگی اور انہیں ہر حال میں امریکہ کو مستحکم بنائے رکھنا ہوگا۔ ان کی خصوصی توجہ اس بات پر ہے کہ کسی ملک یا یونین سے تجارت کرتے وقت امریکہ خسارے میں نہ رہے۔ اسی لیے اب ان کی طرف سے یہ بیان آیا ہے کہ جلد ہی امریکی حکومت یوروپی ممالک پر بھی ٹیرف نافذ کرے گی مگر یوروپی یونین نے ردعمل ظاہر کرنے میں تاخیر نہیں کی ہے۔ اس کی طرف سے یہ ردعمل آیا ہے کہ ’یوروپی یونین کسی بھی تجارتی پارٹنر کو سختی سے جواب دے گا جو یوروپی یونین کی اشیا پر غیر منصفانہ یا منمانے طور پر محصولات عائد کرتا ہے۔‘فطری طور پر اس کے اثرات امریکہ-یوروپ تعلقات پر پڑیں گے۔

بڑے ملکوں کے سربراہوں کے فیصلوں کے اثرات خود ان ہی تک نہیں محدود نہیں رہتے، اس کے اثرات ان کے دوست اور دیگر ملکوں پر بھی پڑتے ہیں جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ تو امریکہ کے صدر ہیں اور امریکہ سپر پاور ہے۔ دفاعی طور پر کافی مستحکم ہے۔ اقتصادی طور پر دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ آج بھی عالمی تجارت میں ڈالر کی اہمیت بڑی حد تک برقرار ہے۔ 50 فیصد سے زیادہ تجارت ڈالر میں ہی ہوتی ہے، اس لیے بھی اس کی پابندیوں کی اہمیت ہے مگر یوکرین جنگ میں اس کی پابندیوں نے روس کو یہ احساس دلا دیا کہ امریکہ کی اصل طاقت اس کے ڈالر میں ہے۔ اس سے قبل ٹریڈ وار نے چین کو امریکہ کی طاقت کا احساس دلایا تھا۔ روس اور چین نے غالباً اسی لیے اپنی اپنی کرنسی میں تجارت شروع کی اور گزشتہ برس دونوں نے 90 فیصد سے زیادہ باہمی تجارت اپنی اپنی کرنسی روبل اور یوآن میں کی۔ اسی کے ساتھ روس نے برکس کی کرنسی لانے کی خواہش کااظہار کر دیا۔ ٹرمپ نے یہ سمجھنے میں تاخیر نہیں کی کہ برکس کے کرنسی متعارف کرانے کا مطلب کیا ہے مگر وہ ایک کے بعد ایک ملک کے خلاف اس طرح کے اعلانات کر رہے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔

اس سوال کا اٹھنا فطری ہے کہ آخر ٹرمپ چاہتے کیا ہیں؟ وہ اگر چین کے خلاف ہیں تو انہیں ان ملکوں کے مفاد کا خیال رکھنا ہوگا جن کے امریکہ سے اچھے تعلقات ہیں اور وقت پڑنے پر وہ چین کے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے۔ انہیں ان ملکوں کو مضبوط بنانا ہوگا جو امریکہ کی دوستی کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کے ڈالر کو کمزور کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں مگر دھیرے دھیرے ہی یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ ڈونالڈ ٹرمپ کن ملکوں کو امریکہ کا دوست اور کن ملکوں کو امریکہ کا حریف سمجھتے ہیں۔ فی الوقت تو ان کے فیصلوں نے اندرون امریکہ اور بیرون امریکہ کے حالات بدلنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ ان کے فیصلوں کے اثرات عالمی سیاست اور عالمی اقتصادیات پر پڑیں گے تو اس سے امریکہ بھی اچھوتا نہیں رہے گا۔یہ بات ٹرمپ بھی جانتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کنیڈا اور میکسیکو پر عائد کی جانے والی کسٹم ڈیوٹی کی وجہ سے امریکی شہریوں کو اقتصادی’تکلیف‘ہو سکتی ہے مگر امریکہ کے مفاد کی حفاظت کے لیے اس کی اہمیت ہے۔ اس طرح یہ بات ٹرمپ نے واضح کر دی ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کے اثرات سے واقف ہیں، یہ جانتے سمجھتے ہوئے فیصلے لے رہے ہیں کہ کیا امریکہ کے حق میں ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ کئی بار سوچا ہوا صحیح ثابت نہیں ہوتا اور مفاد کے تحفظ کی فکر نئے مسئلوں میں الجھا دیتی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ہی یہ پتہ چل پائے گا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلوں نے امریکہ کو کتنا بدلا، دنیا کو کتنا بدلا اور اس بدلاؤ کے اثرات ان کے منصوبوں پر کیا پڑے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS